بس اب گئی______________صوفیہ کاشف

پاکستان میں ہمارا دوسرا سال تھا!
ابھی ہم ماحول اور حالات سنبھالنے اور سمجھنے ہی کی کوشش میں تھے۔
میاں اپنی کمپنی کھڑی کرنے میں لگے تھے مجھے بچوں کو سنبھالنے اور سیٹ کرنے کی فکریں تھیں۔
دونوں بچے ہم نے گھر سے سب سے قریبی اسکول میں داخل کروا دئیے تھے۔وہی جیسا پاکستان کا ماحول ہے۔جس اسکول کا معیار پوچھو والدین کہتے ہیں بہت اچھا ہے!
اور ہم اس اچھے کو اپنے حساب  سے تشریح کر لیتے ہیں۔۔
سو دونوں بچوں کو ایک ہی اسکول میں ڈالا مگر بیٹی کا وہی حال ہوا جو ایک ماحول میں مکمل طور پر مس فٹ انسان کا ہوتا ہے۔اس معاشرے میں سماجی طور پر  عورتیں سب سے پہلے دوسری عورتوں کو انتہائی بری طرح نظر انداز کرتی ہے ۔خصوصا کوئی نیا بندہ ہو تو ایسے کریں گی جیسے وہ سامنے کھڑا انسان انکو نظر تک نہیں آ رہا۔ یہیں وہ اپنی بچیوں کو سکھاتی ہیں
چناچہ ہمارے ہاں کے نام نہاد اچھے اور مہنگے اسکولز دراصل نودولتیے والدیں کی اولادوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ہمیں لگتا ہے اچھے اسکول کا مطلب ہے اعلی ماحول اعلی تعلیم
مگر بعد میں سمجھ آتی ہے کہ اچھے اسکول کا مطلب ہے پیسے والے والدیں اور انکی بگڑیں خونخوار نخفت اور غرور سے بھری اولادیں۔
چناچہ میری بیٹی پاکستانی اسکول میں گئی تو ساری کلاس اسے یہ سمجھانے کی کوشش میں تھی کہ ہمیں تمھاری زرا سی پرواہ تک نہیں۔
تم سے خوبصورت اور حسین ماڈلز تو ہم لگتی ہیں۔تمھاری تو شکل سے ہی نہیں لگتا کہ تم نے کبھی کسی دوسرے ملک کی تو دور کی بات کبھی  اصلی جہاز کی شکل ہی دیکھی ہے۔
وہ اسکول میں سارا دن اردو اساتزہ کو سمجھنے کی کوشش کرتی اکیلے گزار کر واپس آتی رہی۔پھر اسکی بس ہو گئی۔


۔جبکہ بیٹے کو جلد جلد دوست مل گئے اور وہ دوستوں کے ساتھ بحل گیا۔
بیٹی کو میں  نے ایک دوسرے اسکول میں شفٹ کر دیا جہاں وہ بحرحال پہلے سے بہتر تعلیم وصول کرنے لگی مگر سماجی رویہ جعں کا توں ہی رہا۔
سو اب دونوں بچے الگ الگ اسکولز میں ہو گئے ایک گھر کے بہت قریب ایک بہت دور۔
گاڑی ایک ہی تھی اور اسکول سے آنے کا وقت بھی دس پندرہ منٹ کے فرق سے دونوں کا ایک ہی تھا
میاں صاحب دیا کو لینے جاتے اور واپسی میں آریز کو لیتے آتے۔
ایک روز میاں کا فون آیا کہ سائٹ سے نکلنے میں دیر ہو گئی ہے لیٹ پہنچوں گا۔
میں نے حساب لگایا تو احساس ہوا کہ میاں صاحب آریز کو پک کرنے کم سے کم گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے بعد پہنچیں گے۔
اب گھر سے سکول بس دو سڑک کے فاصلے پر تھا۔باہر مئی جون کی گرمی بھی تھی
مگر میں بھی ماں تھی
نئی جگہ نیا ماحول اور  ماحول میں عدم تحفظ کا شدید احساس
سالہا سال تک باہر بیٹھ کر اخبارات اور ٹی وی پر پڑھیں کئی طرح کی خبریں۔۔۔ماں کو سکون کیسے آ سکتا تھا
تو بڑے  جوش سے سوچا۔” چلو آریز کو میں بھاگ کر لے آتی ہوں ۔قریب ہی تو ہے!”
ڈوپٹہ لپیٹا!
سامنے آریز ہی کے سلیپر نظر آئے وہی پہن لئے۔جب انسان اچانک کوئی نیا کام کرنے لگتا ہے تو بہت کچھ بھول جاتا ہے۔یہ احساس ہوا کہ سلیپر سے سڑک پر کیسے چلوں گی؟
اب اتنا بھی قریب نہیں چلنے میں کافی لمبا گھیر ہے۔

نہ یہ کہ پیدل جانا ہے تو سپورٹس شوز ہی پہن لوں
بس سیدھی سادی ماں کی طرح جس کا جوتا جیسا جوتا سامنے نظر آیا اٹھایا اور پہن لیا۔ اور نکل پڑی گھر سے
اسکول تو ہاتھ بھر کے فاصلے پر ہے مگر اسکا گیٹ بالکل تیسری سڑک پر پڑتا ہے
اور تیسری سڑک تک پہنچنے کے لئے دو تین لمبی لمبی سڑکیں عبور کرنی پڑتی ہیں کہ شاڑٹ کٹ کوئی نہیں
سوائے اسکے کہ تیسری سڑک ایک پہاڑی پر واقع سڑک کی مانند ہےجسکاخالی پلاٹ جہاں ختم ہوتا ہے وہیں سے ایک عین  گہری عمودی پہاڑی نیچے اسکول کی سڑک پر اترتی ہے ورنہ اسی سڑک سے بالکل  دوسری طرف جا کر پورا چکر لگا کر  پھر سے اسی سڑک پر انسان نچلے حصے پر پہنچتا ہے
سوچا اتنا لمبا کون چلے یہیں سے آہستہ آہستہ اتر جاتی ہوں
دو فلورز کے جتنی عمودی پہاڑی
جھاڑیوں سے بھری
بیچ میں ایک لکیر نما پگنڈنڈی سی بنی تھی جس پر مزدور وغیرہ اترتے چڑھتے ہونگے
میں نے معائنہ کیا پاوں رکھنے کی جگہیں کافی فاصلے پر تھیں
اور عمودی تھیں
یعنی وہ جو مجھے پتا تھا کہ ایسی جگہ سے اترنا یا چڑھنا پڑے تو سیدھے کی بجائے ٹیڑھے رخ پر اترو۔یہ پگنڈنڈی اس پر پوری نہ اترتی تھی۔شاید لوگ بیٹھ کراترتے تھے
اب کام میرے لئے مشکل تھا
چھلانگ لگانی پڑتی!
سمجھ تو نہ آئی  کیسے ہو گا۔سوچا کر لیتے ہیں  شاید ہو ہی جائے
پہلے ہی قدم پر اترنے کی کوشش کی تو آریز کے سلیپر
پھسلتے ہوئے بیلنس بگڑ گیا
پہلی چھلانگ صحیح لگی دوسری فوری طور پر خود کو بچانے کے لئے جلدی میں لگائی اور تیسری میں سر کے بل نیچے
ایک دفعہ لگا۔۔۔۔ بس اب گئی!
آخری  وقت کہاں کیسے آ گیا!
یہاں تو کسی کو نظر بھی نہ آوں گی________

مگر گرتے ہی لڑکھتے نیچے آنے کی بجائے انہیں جھاڑیوں نے ادھر ہی پھنسا لیا
کپڑوں پر کچھ رگڑیں لگیں، جسم پر زرا سی خراشیں،
سمجھ آئی بچ گئی!
الحمداللہ_____ مکمل بچ گئی !
اتنی بڑی بڑی جنگلی قسم کی جھاڑیوں نے کوئی کانٹا تک نہ چبھویا نہ کپڑا پھٹا
بس مجھے گرتے ہوے تھام لیا
اور خوشقسمتی سے نہ ان میں کوئی سانپ تھا نہ بچھو نہ نیولہ!
الحمداللہ


کپڑے جھاڑتے جسم سہلاتے اٹھی
نیچے سڑک سے اسکول کی ساری ٹریفک گزرتی ہے
پہلے فکر تھی کہ کسی کو پتا تک نہیں چلے گا
اب سکون ہوا شکر ہے کسی نے نہیں دیکھا
حیرت بھی ہوئی
کسی نے نہیں دیکھا
نہ کوئی رکا نہ مدد کو آیا
خیر اس اونچائی سے بس کپڑوں پر کچھ داغ لئے اتر گئی
اسکول سے آریز کو لیا اور گھر لے آئی
گھر آ کر سب کو بتایا کہ آج میرے ساتھ کیا ہوا
ذندگی میں کتنی بار انسان بڑی بڑی اونچائیوں اور مشکل رستوں سے یہ سوچتا گر جاتا ہے کہ بس اب گیا
مگر جاتا نہیں
ڈر ،خدشات ،وہم ،ذندگی میں انسان کو کتنی بعد یاد کرواتے ہیں کہ اب تو نہیں بچتا
مگرکسی کے نہ ہوتے بھی بچ جاتا ہے ، جیتا ہے،
گرتا پڑتا مشکل رستے سے کپڑے جھاڑتا اٹھ جاتا ہے
اور بھول جاتا ہے کہ کبھی ایسی بھی منزل آئی تھی جب وہ ہونقوں کی طرح
ایک ٹیڑھی میڑھی خطرناک چڑھائی سے گر گیا تھا۔وہی جو ذندگی کا آخری سانس لگتی تھی
اس پر ہنسنے لگتا ہے
صرف جسمانی طور پر نہیں جزباتی ، سماجی اور نفسیاتی طور پر بھی

پھر بھی سفر ختم نہیں ہوتا!



__________________

صوفیہ کاشف

2 Comments

Leave a reply to ام حیا Cancel reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.