تنہائی ___________شیما قاضی


مجھ کو تنہائی کے وجود نے نگل لیا ہے اور اب میں میں نہیں۔ تنہائی ہوں۔ یعنی جیسے آپ انسان ہیں۔ آپ کا ایک مادی وجود ہے بالکل ایسے میں بھی کبھی انسان ہوا کرتا تھا۔ پھر مجھے اکیلا کردیا گیا۔ میرے اپنوں نے، پرایوں نے، دوستوں نے حتی کہ میرے دشمنوں نے بھی مجھے تنگ کرنا چھوڑ دیا اور پھر مجھے اندازہ ہوا کہ اب میں کسی کے لیے وجود نہیں رکھتا۔ یعنی میں مٹ گیا ہوں۔ بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ میں تنہائی میں تبدیل ہوگیا ہوں۔ میں یہ بات کسی کو بتا پاتا ہوں نہ سمجھا پاتا ہوں مگر حقیقت یہی ہے کہ جیسے آپ کسی ویران مکان میں قدم رکھتے ہیں اور وہاں پر بسیرا کرتی تنہائی کو آپ کے آنے سے تکلیف ہوتی ہے۔ وہ چاہتی ہے اسے اکیلا چھوڑ دیا جائے اسے تنگ نہ کیا جائے بالکل ویسے ہی میں بھی تنہائی بن چکا ہوں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میں کب سے اپنے لیے مذکر کا صیغہ استعمال کیے جارہا ہوں حالانکہ میں ایک عورت ہوں۔ ایک بے اولاد عورت جو اس وقت اپنی کرسی پر بیٹھ کر کچھ پڑھنے کی کوشش کر رہی ہے مگر اس سے پڑھا نہیں جا رہا۔ وہ اداس ہے نہ بے سکون۔ وہ ابھی ابھی گھر کے سارے کام ختم کر کے بیٹھی ہے۔

اس کو سمجھ نہیں آرہا کہ جب گھر کے سبھی کام ختم ہوجاتے ہیں تو پھر ایک بے اولاد عورت کیا کرتی ہے؟ ایک ایسی عورت جس کا وجود تنہائی میں تحلیل ہوگیا ہو۔ جس کے کوئی دوست نہ ہوں حالانکہ ایک زمانے میں اس نے دوستیاں کرنے کی کوشش کی تھی جو کہ بری طرح ناکام رہیں سو اس نے مزید دوست بنانے کے ارادے کو ترک کردیا۔ وہ کتابیں پڑھتی تھی اور بے تحاشا کتابیں پڑھا کرتی تھی مگر پھر اس کو یہ بات سمجھا دی گئی کہ جو باتیں وہ کتابوں میں پڑھتی تھی وہ صرف کتابی باتیں ہوتی ہیں اور وہ ان باتوں پر اپنی اصل زندگی میں عمل کرے گی تو یہ معاشرہ اس کو مشکل میں ڈال دے گا سو اس نے کتابیں پڑھنا چھوڑ دیا۔
کسی زمانے میں وہ ہنسا کرتی تھی۔ بہت پیاری پیاری مزے مزے کی باتیں کر کے وہ سب کو ہنساتی تھی مگر پھر نہ جانے کیا ہوا اس نے ہنسنا چھوڑ دیا۔ اب کہیں کوئی لطیفہ یاد بھی آئے تو جبرا مسکرا دیتی ہے کیونکہ تنہائی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ قہقہے لگائے اور بہرحال وہ اب محض تنہائی ہے۔ ایک انسان نہیں!
اور اب جب حقیقت کی دھوپ نے اس کے سبھی رنگ چھین لیے ہیں تو وہ حیران ہے کہ اب کیا کیا جاسکتا

ہے؟ ذمہ داریوں سے فارغ ہو کر ایک بے اولاد عورت کیا کرتی ہے؟ وہ جو کبھی لکھا کرتی تھی۔ کتابیں پڑھا کرتی تھی۔ ہنسا بولا کرتی تھی۔ جو کہ اب تنہائی کا وجود بن چکی ہے اسے اب کیا کرنا چاہیے؟ ذمہ داریوں سے ہٹ کر زندگی میں کیا بچ جاتا ہے اگر کوئی شوق زندہ نہ بچا ہو۔ اگر سبھی شوق مر گئے ہوں۔ سبھی کتابوں کو دیمک لگ چکا ہو۔ لکھنے کے لیے قلم ہو نہ کاغذ اور سیاہی دوات میں پڑے پڑے سوکھ چکی ہو اور سبھی دوست ایک ایک کر کے رخصت ہو چلے ہوں تو پھر کوئی تنہائی میں دھنستا ہوا انسان تنہائی کو گلے نہ لگائے تو کیا کرے کہ بہرحال اس کے بلانے پر، اس کا مدد کے لیے پکارنے پر بھی کوئی آتا تو نہیں۔۔ سو اب اس انسان کو جو کہ میں ہوں۔۔ میں جو کہ اپنا جنس تک بھول چکا ہوں، سوچتا ہوں کہ تنہائی وفادار ہے اور اس کو بقا ہے سو اسی کو ہی اپنا لیا جائے۔۔ اور اب جب یہ حقیقت قبول کرچکا ہوں تو عجب مطمئن ہوں۔۔ سکوت کی حالت میں ہوں۔ بہت اطمینان اور تحمل سے سانس بھرتے ہوئے سوچتا ہوں کہ انسان اگر تنہا ہو جانے کے بعد مجھ جیسا مطمئن ہوجاتا ہے تو ساری زندگی وہ رشتوں، ناطوں، دوستوں کے پیچھے کیوں بھاگتا ہے؟

میں جو کہ تنہا ہوں اور کرنے کو میرے پاس اس وقت کچھ بھی نہیں۔ میں اپنی کرسی میں دھنستا جا رہا ہوں۔ مجھ پر غنودگی طاری ہو رہی ہے۔ میں مطمئن ہوں۔ مجھے کسی شے کی تمنا نہیں۔ میں اپنے سارے شوق کھو چکا ہوں۔ میں سکون میں ہوں۔ مجھے باہر گلی سے آتی آوازوں پر ہنسی آتی ہے۔ مجھے باہر بھاگتے پھرتے قدموں پر رونا آتا ہے کہ جب سبھی انسان تنہا ہیں تو پھر ایک دوسرے کے پیچھے کیا بھاگنا؟ مگر خیر ہے، یہ بھی ایک ایک کر کے الگ الگ مکانوں میں منہ چھپا کر بیٹھ جائیں گے کہ اس دنیا میں ہر انسان اکیلا ہے۔۔۔ چاہے وہ دس بچوں کا باپ ہو یا ایک بے اولاد انسان۔۔ وحشت انسان کا مقدر ہے اور تنہائی اس کی حقیقت۔۔
______________

شیما قاضی

5 Comments

  1. کہا جاتا ہے کہ انسان سماجی حیوان ہے۔ دراصل انسان ایک عقل و جذبات سے معمور ایک ایسی مخلوق ہے، جس کی بقا مقصدیت میں ہے۔
    Sense of purpose.
    We are the creatures of purpose.

    مقصد ختم، تو ہر چیز میں دلچسپی ختم۔
    تنہائی بے شک وجہ بنے یا نتیجہ، دونوں صورتوں میں کمی مقصد و مُراد ہی کی ہے۔
    دونوں حالتوں میں غیر حاضر مطلوب و مقصود ہی ہے۔

    عرفان خان کی انگریزی فلم “پزَل” (2018) ایک دلچسپ کہانی پیش کرتی ہے۔
    جِگ سا پزل کے گِرد گھومتی زندگی میں خود آگاہی، تکمیلِ ذات، با اختیار فیصلہ سازی، تبدیلی کی حرکیات، پوشیدہ و ظاہر جذبات، اپنی صلاحیتوں کا کھوج و افزائش اور احساس و تعلقات کا معاشرتی، خاندانی، روایتی اور سکہ رائج الوقت سماجی ڈھانچے کے ساتھ تناؤ۔ یہ مقصد کی راہ میں آنے والے تلخ حقائق ہیں، اور خوشی کی قیمت بھی۔

    یہاں طبیعت اور تربیت کا نہیں، انتخاب کا مخمصہ درپیش ہے۔

    Robert: Come on, Mata, you… You’re missing the point.

    Agnes: Okay. What is the point, Robert?

    Robert: Life is messy. It doesn’t make any goddamn sense. Sorry to break the news to you. Life’s just random. Everything’s random. My success, you here now. There’s nothing we can do to control anything. But when you complete a puzzle, when you finish it, you know that you have made all the right choices. No matter how many wrong pieces you tried to fit into a wrong place, but at the very end, everything makes one perfect picture. What other pursuits can give you that kind of perfection? Faith? Ambition? Wealth? Love? No. Not even love can do that, Mata. Not completely.

    Like

  2. اشفاق احمد زاویہ میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک چھوٹی سی سلطنت کا بادشاہ کے محل میں کام کرنے والی ایک بوڑھی بھنگن بیمار پڑگئی تو اس نے اپنے نوجوان بیٹےکو محل میں صفائی کے لئے بھیجا، جہاں اُس کی نظر شہزادی پر پڑی تو وہ ہر چیز سے بیگانہ ہو کر رہ گیا۔ گھر آ کر اس نے اپنی اپنی ماں سےذکر کیا تو وہ بولی کہ اپنی اور میری جان پر رحم کر، اور اسے بھول جا۔ لڑکا نہ مانے، اور کہے کہ بس ایک نظر بھر آنکھوں کو چاہیے۔ ماں نہ مانے۔ وہ بیمار ہوا اور جان کے لالے پڑگئے ۔ ماں مجبوراً شہزادی کے پاس گئی اور کہا کہ اس نے کہا بیٹی یہ بات ، مہربانی ہے مشکل آپڑی تو اس کا حل نکال۔ شہزادی نے کہا کوئی بات نہیں اماں آمنا سامنا ہو گیا غلطی سے ۔ اماں بولی مشکل یہ آن پڑی ہے کہ وہ تجھے دوبارہ دیکھنا چاہتا ہے۔ تو بہ نعوذ باللہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ تو ہمارے ہاں ہوتا ہی نہیں ۔ لیکن میرا اکلوتا بیٹا ہے ، مر جائے گا۔ شہزادی نے ترس کھا کر کہا اماں تو ایسا کر اس کو ایک جھوٹا پیر بنا دے کوئی بزرگ بنا دے ۔ اس کوکہو ، اللہ کی عبادت کیا کرے حق ہو کا نعرہ مارا کر ے اور جنگل میں بیابانوں کی سیر کرے ۔ میرے والد جو ہیں وہ پیروں ، فقیروں کو بڑا مانتے ہیں ۔ بزرگوں پر بادشاہ سلامت کا اعتقاد تھا ۔ تو میں سمجھتی ہوں کہ ایک وقت ایسا ضرور آسکتا ہے کہ اگر اس کا نام بہت دور دور تک پہنچ گیا کہ بڑا کمال کا فقیر ہے۔ تو شاہد میرے والد اس سے متاثر ہوں ۔ اور متاثر ہو نے کے بعد مجھ کو بھی کہیں بیٹی جا ان کی زیارت کر آ۔ اس نے کہا اللہ تیرا بھلا کرے، اور وہ گھر آگئی ۔
    اس نے بیٹے سے کہا بیٹا اٹھ یہ لمبا پینڈا ہے۔ لیکن طے کرنا ہے۔ اس مسافت کو تو نہا دھو پگڑی باندھ کے نیک بن جا۔ اللہ کا پیارا، اس نے کہا اللہ کا پیارا کیسے بنا جاتا ہے اس نے کہا یہ تو مجھے بھی نہیں پتا، تجھے بھی نہیں پتا ۔ اب جنگل میں جاکے بیٹھ کر اللہ سے کہہ میں تیرا پیا را ہوں اور وہ تجھے قبول کرے گا۔ وہ چلا گیا ۔ جنگل میں جاکر بیٹھ گیا مزے سے اور وہاں پر جا کر وقت گزارنے لگا،اور اللہ کی تسبیح جیسی بھی اسکو آتی تھی کر نے لگا۔ اور آرزو دل میں رکھنے لگا کہ کبھی شاید اللہ کی زیارت ہو اور میں کبھی اس راہ پر چل سکوں اوراس حسن آرا بھی دیکھ سکوں جس کی آرزو لے کر میں نے یہ سارا ڈرامہ رچایا ہے۔ کچھ عرصہ وہاں بیٹھا رہا ۔ کچھ دیر بعد لوگوں نے اسے دیکھا ایک نوجوان ہے شکل صورت بھی اچھی ہے۔ بات کسی سے نہیں کرتا ۔ آنکھیں بند کر کے لولگا کر بیٹھا ہے۔ تو انہوں نے جب اس کو دن رات وہاں بیٹھے دیکھا ۔ سردی گرمی میں ، دھوپ میں بارش میں تو انہوں نے جھونپڑی ایک بنوادی اور وہ اس جھونپڑی میں رہنے لگا۔ وقت گزرتا رہا تو آہستہ آہستہ اس کا نام کا ڈنکا بجنے لگا کہ ایک بہت کرنی والا بزرگ ہے۔ اور پہنچے ہوئے بزرگ ہیں ۔ اورلوگ اس کی زیارت کو آنے لگے ۔ ایک سلسلہ چل پڑا کسی نے آکے بادشاہ سے بھی ذکر کیا کہ آپ کی راجہ دھانی کے فلاں علاقے میں ، فلاں جگہ پر گنے میں بڑا بزرگ آیا ہوا ہے۔ لمبی داڑھی ہے۔ لمبے بال ہیں اور بڑا حسین آدمی ہے۔ اور بات نہیں کر تا کسی سے تو بادشاہ کو اشتیاق ہوا۔ انہوں نے سواری نکالی پنج ہزاری ، دس ہزاری امیر ، اور وزیر اس کے ساتھ چلے کہ زیارت کرنے چلتے ہیں ۔ جنگل میں پہنچے ، کٹھیا کے پاس کھڑے ہوگئے ۔ بادشاہ نے دیکھا ، اسکو سلام کیا۔ آنکھیں بند کر کے بیٹھا تھا اس کو کیا پروا تھی ۔ اس نے کہا میں وقت کا بادشاہ ہو ں ۔ تجھے سلام کر نے آیا ہوں ۔ اس نے کہا بابا تیری ی مہربانی ہم نے تیرا سلام قبول کیا ۔ اب چلا جا۔ اس نے کہا نہیں میں یہاں بیٹھنے کی اجازت چاہتا ہوں ۔ کہنے لگا بیٹھ جا کھلی جگہ پڑی ہے۔ بادشاہ نے کہا ساتھ میرے سارا لائولشکر بھی ہے۔ اس نے کہا وہ بھی بیٹھ جائے ، فقیروں کا ٹھکانہ ہے۔ چنانچہ وہاں پر بادشاہ کچھ دیر بیٹھا رہا ۔ اس نے اندر سے محسوس کیا ۔ ارتعاش اس کا روحانی،بہت طاقت ور ہے۔ جس نے بادشاہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چنانچہ وہ بادشاہ وہاں پر آنے جانے لگا۔ ملنے ملانے لگا ۔ اس کی رعایا کے لوگ بھی آنے لگے ۔ اس کی دارھی بڑھ چکی تھی۔ بال لمبے تھے کسی نے پہچانا ہی نہیں ۔ تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ بادشاہ نے ایک دن اپنی بیٹی سے کہا کہ پیاری بیٹی ایک بہت بڑے بزرگ ہماری سلطنت میں آئے ہیں اور ہماری خوش قسمتی ہے ہمارے قلم رو میں اپنا بڑا بزرگ آیا ہے۔ تو کسی دن جا اس کی زیارت کر نے تو اس نے کہا بالکل ٹھیک ہے ابا میں جاتی ہوں ۔ اس کو پتہ تھا کہ یہ کون ہے۔ چنانچہ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ پالکی میں بیٹھ کر پہنچی اور جاکر کھڑی ہوگئی اور کہنے لگی دیکھ تیرے دل کی آرزو پوری ہوگئی ۔ میں نے جو بات بتائی تھی اس کے مطابق اتنے سالوں بعد تیرے سامنے آگئی ہوں ۔ تو اب آنکھیں کھول اور جس طرح سے چاہتا ہے میری زیارت کر، دید کر میں تیرے سامنے کھڑی ہوں ۔
    وہ کہنے لگا اچھا مہربانی مہربانی. تین دفعہ کہا۔ ویسے ہی بیٹھا رہا ، آنکھیں بند کر کے ۔ شہزادی نے کہا بدبخت میں اتنا لمبا سفر طے کر کے آئی ہوں اور تو آنکھیں بند کر کے بیٹھا ہے۔ تو اس نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔ تو لکھنے والے لکھتے ہیں کہ شہزادی نے کھینچ کر ایک تھپڑ اس کے منہ پر ماراتڑاخ سے کہنے لگی آنکھیں کھول جس کے لئے اتنا بڑا ڈرامہ رچایا تھا وہ گوہرمقصود تیرے سامنے موجود ہے۔ تواس نے کہا بی بی اب آنکھیں بند ہی رہنے دو ۔ وہ سچا ہے جس کو لوگ تلاش کرتے ہیں ۔وہ مل جائے گا کبھی نہ کبھی آنکھیں بند کرنے سے اب تجھ میں کیا رکھا ہے۔ پھر وہ بولا کہ سن بی بی سچا تو کوئی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ لیکن اگر جھوٹ کی دھارنا دھارکر بھی آدمی چلے، اس کے سامنے اس کا سفر موجود ہو، اور اس کارخ جو ہے ٹھیک ہو۔ تو وہ سچائی کی طرف جانے لگتا ہے۔ لیکن اگر بدقسمتی سے شروع ہی سے اس کے سفر میں ٹیڑ ھ پڑجائے تو پھر وہ کبھی اس منزل تک نہیں پہنچتا، جس کی آرزو اس نے جھوٹے انداز میں کی ہے۔ چنانچہ وہ آنکھیں بند کئے ہی بیٹھا رہ گیا ۔ اور گوہر مقصود جو تھا وہاں سے واپس آگیا۔
    اب شہزادی سے باپ نے پوچھا کہ کیسے بزرگ ہیں ، تو کہنے لگی ابا جی ابھی کچھ کمی ہے، لیکن ایک وقت آئے گا یہ بہت بڑا بزرگ بنے گا۔

    Like

  3. بقول چانکیہ، آدمی اکیلا پیدا ہوتا ہے اور اکیلا ہی مرتا ہے۔ وہ اکیلے اپنے مکافاتِ عمل کے اچھے اور بُرے نتائج کا تجربہ کرتا ہے۔ اور وہ اکیلا ہی جنت یا جہنم میں جاتا ہے۔

    رشتوں، ناتوں، دوستوں (یا کتابوں) کا ہماری زندگی میں اہم کردار ہے۔ یہ برائے ضرورت، سماجی تعلق، تسلی، حوصلہ افزائی، حمایت، مشترکہ مقاصد، اور قول و عمل و جذبات کے ذریعے ہماری بقا کا حصہ ہیں۔

    ہم سب بھی اپنی اپنی راہوں کے مسافر ہیں۔ سفر کی بس دو ہی شرائط ہوا کرتی ہیں۔ منزل (یا مقصد) کا تعین، اور اس کی جانب مسلسل چلاؤ۔
    مسافر نواز بھی بہتیرے مِل جاتے ہیں، شجر و حضر کے معاملات بھی۔

    جس طرح آدمی کی اصل پہچان یہ ہے کہ اس کا محبوب کون ہے۔ ویسے ہی اپنے دائرۂ کار میں نیت، فیصلے، عمل اور ردِ عمل کی ابتدا سے انتہا تک کی کیفیت کو پرکھنے میں ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ہماری معمول کی چاہتوں اور خواہشوں کی بُنیاد، طرزِ عمل اور نتیجہ کِس سے نمو پاتے ہیں۔ وجود، دِل یا رُوح۔
    دوسرے الفاظ میں، خوشی کا مقصود کون ہے۔ ہم خود، خُدائی یا خُدا۔
    اِن تینوں میں سے ایک میں ہماری تنہائی کا سوال اور جواب دونوں موجود ہیں۔

    Like

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.