دو کتابیں اور عام سی لڑکی_____ صوفیہ کاشف

سردیوں کی  رات میں جب باہر ہلکی ہلکی برف پڑ رہی تھی کوئینز کالج کے برآمدوں اور گراوئنڈز میں کچھ منچلے چہک رہے سیٹیاں بجاتے کھیل رہے تھے اور کچھ اپنے دن بھر کی مزدوریاں اور پڑھائیاں کرکے اب نیند پوری کر رہے تھے۔زرد سٹریٹ لائیٹ کے نیچے گرتی ہوئی برف  چمکتی نظر آتی یا آس پاس کی سڑکوں اور لانز پر جمتی ہوئی اک سفید تہہ۔۔۔۔
ماہم ایک دم سے نیند سی اٹھی تھی۔  ایمسٹرڈیم ایونیو کے ٹھنڈے ٹھارکمرے میں پسینہ اسکے ماتھے اور گردن کو بھگو رہا تھا ۔خواب اسقدر تکلیف دہ تھا کہ سانس روکے دیتا تھا۔ آخر کب تک اسے اس خواب کا تعاقب برداشت کرنا پڑے گا۔
اگرچہ وہ کسی کو بتاتی تو سمجھا نہ پاتی کہ آخر اس خواب میں ایسی کونسی ڈرنے والی بات تھی۔مگر یہی خواب اس قدر تواتر سے اسکا تعاقب کرتا تھا حتی کے سرحد سے کوسوں دور دنیا کے دوسرے براعظم پر بھی اتنی ہی آسانی سے پہنچ جاتا تھا۔

یہ خواب ہمیشہ اسے واپس ایف ایس سی کے زمانے میں لیجاتا تھا جب اسکے امتحانات قریب تھے۔ہر خواب میں وہ خوفزدہ ہے کہ کل امتحان ہے جبکہ سامنے رکھی فزکس اور کیمسٹری کی دو کتابیں ہیں جو بالکل نئی نکور ہیں۔جنکو ابھی تک اس نے ہاتھ لگا کر نہیں دیکھا۔۔۔۔۔جبکہ کل امتحان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سال میں دو تین بار ضرور اسے اس خواب  اور اسکے خوف اور بے یقینی کا سامنا کرنا پڑتا تھا ایک ایسے آسیب کی طرح جو ہمیشہ ہر جگہ اسکے تعاقب میں ہو۔ایک ایسا دیو جو اسے نیویارک کی اس جما دینے والی سردی میں بھی تنہا چھوڑنا نہ چاہتا ہو۔
ماہم نے اپنے موٹے اور بھاری کمبل کو سختی سے آس پاس لپیٹا ۔اسکی یونیورسٹی کے آخری دن تھے۔ایک لمبا تکلیف دہ سفر کرکے وہ اس لیول تک پہنچی تھی کہ خود سے نظر ملا سکے۔خود سے لئے ہوئے اپنے قرض چکا سکے۔اسکے پاس خواب سے ڈرتے رہنے کا وقت نہ تھا کہ صبح سویرے اٹھ کر اس نے اپنی جاب کے لئے نکلنا تھا جس کے بغیر اسکی فیسوں کی ادائیگی ناممکن تھی اور یہ فیسیں اسکی پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لئے بہت ضروری تھی۔
______________

دیتے ہیں گواہی یہ نظارے ہمیں تم سے پیار ہے
دھڑکن بھی یہ پکارے ہمیں تم سے پیار ہے

گانے کی بجتی دھن کے ساتھ  اسکی یادوں میں وہ دور گلی کی نکڑ سے موٹرسائیکل پر پرنس چارمنگ بن کر اڑتا ہوا نمودار ہوتا ۔اڑتی ہوئی موٹرسائکل پر پیچھے کو اڑتے اسکے کلف لگے کرتا شلوار کے کھلے پاینچے کسی خوبصورت فلم کا سا منظر پیش کرتے۔
یہ منظر خوبصورت تھا کہ محبت خوبصورت تھی۔کچھ تھا جو اسکے دل کی تہوں میں اتر گیا تھا۔اسی نکڑ سے وہ ماہم کی نظروں کا مرکز بن جاتا جب تک کہ اسکی موٹرسائیکل  اسکول کے سامنے پھنسی گاڑیوں، رکشوں، ویگنوں کی  ٹریفک پار کرکے بالکل اسکے سامنے آکر نہ کھڑی ہو جاتی اور وہ سیدھا ہو کر ہاتھ باندھے گیٹ کی طرف اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد اسکی طرف دیکھنے میں مگن نہیں ہو جاتا۔ ماہم جو اسکے بالکل سامنے اسکول کی دیوار کے ساتھ کھڑی ہوتی۔ظاہری طور پر بھائی کا انتظار کرتی مگر دراصل کسی کی نظروں کا مرکز  ،  دل کی ملکہ بنی، اور کسی کو اپنے دل کا راجا بنائے کھڑی ہوتی۔کندھے تک کٹے اسٹیپ ہیئر کٹ میں اسکا خوبصورت چہرہ اور بھی دلنشیں لگتا۔خوبصورتی تو خدا نے اپنی فرصت میں بہت دل سے بنائی تھی۔اسکا نصیب بھی اسی قدر خوبصورت تھا  یہ اس بالی عمر میں اس کا خواب تھا۔۔۔
ہزار دفعہ کا دہرایا ہوا منظر وہ اپنی یادداشت میں اس قدر شدت سے  دہرا چکی تھی کہ اب پوری تفصیلات کے ساتھ کبھی بھی کہیں بھی اپنے ذہن کے آئینے میں دہرا سکتی تھی۔اس ایک منظر کو دہراتے وہ ساری ساری رات جاگتے تارے گنتے گزار دیتی ۔نوجوانی کا پہلا عشق کسقدر مقدم کسقدر معزز   اور کسقدر معصوم ہوتا ہے ذرا سی ایک بے ساختہ مسکراہٹ پر سارا عشق کا مندر کھڑا کر دیتا ہے۔سو اس نے بھی کھڑا کر دیا تھا اپنے عشق کا مندر۔
ایف ایس سی کی وہ بڑی بڑی ناسمجھ میں آنے والی کتابیں لئے ماہم بیٹھی ان میں اپنے شہزادے گلفام کا چہرہ دیکھتی رہتی۔یہ موٹی موٹی کتابیں جنکا ہر اک لفظ اجنبی اور نہ سمجھ میں آنے والا بن گیا تھا اس کے لئے ایک ایسا پردہ ہو گیا تھا جس پر اسکے شہزادہ گلفام کی پر پل صورت تیرتی رہتی تھی۔
نجانے اس نوجوان یکطرفہ  محبت کی شروعات کہاں سے ہوئی تھی۔یونہی آتے جاتے  ہائی اسکول کے سامنے میٹرک کے آخری دنوں میں وہ اسے اکثر نظر آجاتا۔مگر اس دن تک ماہم کے دل کا دروازہ  پوری طرح وا نہ ہوا تھا ۔جب تک کہ ہائی اسکول کے آخری دن نہیں  آ پہنچے تھے۔
آخری پرچہ دے کر وہ اسکول کے گیٹ پر منتظر کھڑی تھی کہ کوئی گھر سے اسے لینے آئے۔گھر سے اکثر اسے بھائیوں کی قطار میں سے بڑے بھائی ہی لینے پہنچتے تھے مگر آج جانے کیا ہوا تھا کہ اسکا انتظار طویل ہوتا چلا گیا تھا۔
“آج تو اسے ضرور ہی نظر آنا چاہیے آج تو آخری دن ہے”
اسکے اندر سے کوئی آواز بار بار ایک ہی بات دہرائے جاتی تھی۔تکرار اس قدر تھی کہ وہ بچنا بھی چاہتی تو بچ نہیں پاتی۔
وہ ایک انتظار بھائی کا تھا ایک کسی اور کے بھائی کا تھا
جانے کس کا بھائی تھا وہ
یہ تک جانتی نہیں تھی
مگر اک تکرار نما دعا تھی کہ اندر تسبیح کئے جاتے تھی
اللہ کرے”
اللہ کرے”
اور پھر اسکے نازک سے کم عمر دل کی دعا قبولیت کے مراحل تک پہنچ گئی تھی
گیٹ کے باہر کوئی موٹر سائکل آ کر رکی تھی
جانے کس کی تھی۔ بھائی کی یا اسکی
وہ لپکتی گیٹ تک پہنچی تھی
اور گیٹ کے سامنے وہ ہوش ربا کھڑا تھا جو اسکی کم سن دھڑکنوں کو اپنی مٹھی میں بند کر بیٹھا تھا
بس ایک صورت یاد تھی ، نام پتا تھا نہ بیک گراوئنڈ نہ محل وقوع۔
کیا وہ اسقدر ہینڈسم تھا جتنا وہ اس لمحے اسے لگا تھا؟
یا پھر یہ وہی محبت تھی جو اسکے آنکھوں کو ہر طرف حسن وعشق کے کرشمےہی دکھاتی تھی
یا یہ اسکی بالی عمریا تھی جو ہر پہلے نظر میں آتے خوبصورت وجود پر مر مٹتی ہے
یہ کچھ بھی تھا مگر اسے اسکا ادراک ہی کہاں تھا
ماہم پر نظر پڑتے ہی اسکے چہرے پر ایک مسکراہٹ تیرتی آ رکی تھی جس نے ماہم کی دھڑکنوں کو مٹھی میں لے لیا تھا۔
اسکی صورت دیکھ کر اصولی طور پر واپس آنا تھا مگر واپس آکر رکنے کی ہمت نہ تھی قدم بار بار باہر کی طرف ہی اٹھتے تھے
اسکی ایک مسکراہٹ نے ماہم کا سکھ چین سب کچھ اڑا دیا تھا
وہ اسے دیکھ کر مسکرایا تھا
کیا یہ کم تھا؟
تو گویا آگ برابر ہے دونوں طرف لگی ہوئی
یہ ایسا انکشاف تھا جس نے ماہم کی ننھی جان مٹھی میں جکڑ لی تھی
“محبت میرے قدموں میں پڑی ہے” یہ دریافت زندگی سے بھی بڑی تھی

محبت کس قدر اہم چیز ہوتی ہے یہ کسی محبت کرنے والے سے پوچھے کوئی
یونہی تو نہیں محبت کے نام پر جانیں چلے جاتیں۔
جب تک شہزادے کی بہن باہر نہیں پہنچی تھی ماہم نے چار چکر اسکول کے گیٹ کے باہر کے لگا لئے تھے
اسکی بہن آئی تھی اور  موٹر سائکل پر بیٹھ کر اسے ساتھ لے گئی تھی اور جاتے جاتے ماہم کی جھولی میں اداسیاں بھر گئی تھی
کتنے ماہ کی چھٹیاں تھیں؟
یہ چار پانچ ماہ کیسے گزریں گے؟
پھر کبھی نظر آئے گا بھی کہ نہیں؟
یہ ایسے سوال تھے کہ جنکے جواب نامعلوم تھے
غیر یقینی بھی تھے
آج پہلی بار ماہم نے اسکی بہن کو دیکھا تھا مگر وہ کون تھی اسے کچھ خبر نہ تھی۔بس اتنا کہ  اسی کی کلاس کے کسی دوسرے سیکشن میں پڑھتی تھی
کون جانے وہ میٹرک میں پاس ہو کہ نہیں
پاس ہو کر کالج پہنچے کہ نہیں
ایک اداسی سی اداسی تھی جو ماہم کی روح میں اتر گئی تھی
____________۔
جس پر ہم مر مٹے اسکو پتا ہی نہیں
دل نے جو سن لیا اس نے کہا بھی نہیں
اے دل ذرا سوچ کر
پیار کر

ایک چاند اسکی کھڑکی کے باہر بھی تھا جس نے سارے آنگن میں چاندنی بکھیر رکھی تھی۔اور
کانوں میں ہیڈ فون لگائے سوئی بہنوں کے بیچ لیٹی کھڑکی کے ساتھ  ماہم اپنےبستر پر جاگتی تھی
وہ سونا چاہتی تو بھی سو نہیں پاتی تھی
چاہے جانے اور چاہنے کا احساس اسقدر محسورکن ہے کہ انسان اس میں ڈوبتا ہی چلا جاتا ہے
اور پھر جب بالی عمریا بھی ہو
چمکتے چاند کی روشنی میں کیا کیا خواب اسکی نوخیز آنکھوں پر نہ چمکے تھے
کون کون سے عزم تھے جو اسکے دل نے نہ باندھے تھے۔ وہ تو اک نظر میں بن چاہے بک گئی تھی
ہر طرف پھیلی چاندنی روشنی نہیں محبت سی محسوس ہوتی تھی یوں لگتا جیسے پوری کائنات روشن ہو چکی ہو
جیسے دنیا سے بدصورتیاں روٹھ گئی ہوں
ہر طرف جنت کا حسن اتر آیا ہو۔یہی تو جادو کرتی ہے محبت کچے دلوں کے ساتھ
اب ذندگی شاعری سی لگنے لگی تھی
بہاریں ہر طرف مسکرانے لگی تھیں
پھول کھلنے اور جھرنے بہنے لگے تھے۔ پھول پودے اور درخت سب گنگنانے لگے تھے پرندے سب جھوم جھوم کر رقص میں تھے
نجانے کس طرح انتظار میں یہ چار ماہ گزرے تھے۔ایک ایک دن جیسے ماہم نے کانٹوں پر گزارا تھا۔
یہی چار ماہ ہزاروں خواب اسکی آنکھوں پر پرو گئے تھے۔اس عمر میں سمجھ بھی کہاں آتی ہے کہ انہیں خوابوں کو بسانے سے بچنا ہے اگر کسی بربادی سے خود کو محفوظ رکھنا ہے۔یہ خواب ہی ہیں جہاں سے کسی بھی بربادی کا آغاز ہوتا ہے۔
محبت کی تعریف میں وہ پورا دیوان لکھ چکی تھی
اپنے ہی دل میں خوابوں کا اک جنگل اگا بیٹھی تھی۔محبت کی فصل پلی بڑھی کھڑی کٹائی کی منتظر تھی۔
جب کئی دن تک روزانہ اس سے بائیو اور کیمسٹری کا کام مس ہونے لگا تو ثوبیہ نے کہا تھا
“تمھیں کیا ہو گیا ہے پڑھتی کیوں نہیں؟”
“پتا نہیں یار۔کوشش کرتی ہوں پڑھنے کی مگر پتا نہیں کیا ہو جاتا ہے۔پڑھا نہیں جاتا۔”
ماہم پریشان سی تھی
ثوبیہ سبین کی طرف دیکھ کر ہنسی اور مذاق اڑایا
“ماہم کو کچھ ہو گیا ہے یہ اب پڑھ نہیں پاتی”
ماہم عجب مشکل میں پھنسی تھی کتابیں کھول کر بیٹھتی تھی مگر کہیں گمشدہ ہو جاتی تھی۔بیٹھے بیٹھے گھنٹے گزر جاتے مگر پڑھائی صفر سے آگے نہ بڑھ پاتی۔
وہ کچھ سمجھ نہ پاتی۔عجب سی بے بسی تھی۔وہ چاہ کر بھی ان حالت کو ختم نہ کر پاتی تھی
کتابوں کے لفظوں پر کوئی آ کر بیٹھ جاتا اور اس سے دنیا جہاں کی خوبصورت باتیں کرنے لگتا۔۔
کتابوں کے الفاظ اپنی معنی سمجھانے سے قاصر رہ جاتے
اردو ادب کھولے بغیر ساری شاعری خودبخود سمجھ میں آنے لگتی۔وہ جتنا  نہ نہ کرتی محبت اسکے اردگرد ناچ رہی تھی۔محبت ،محبت،محبت ہی اسکے چار سو رقص میں تھی جس کے بیچ بے بس وہ نہ اقرار کر پاتی تھی نہ انکار کر پاتی تھی۔
“اسکا علاج کرو بھئی”۔
سبین بھی آواز میں آواز ملاتی۔ماہم ہنستی اور اندر ہی اندر ٹوٹتی جاتی
وہ کیا بتاتی۔
وہ تو آج تک کہتی رہی تھی یہ سب عشق محبت فضول لوگوں کے کام ہیں۔آج وہ بھی وہی فضول لوگوں کے کام کرنے لگی تھی۔کتنی توہمات ماتھےپر لگی تھیں؟
وہ بھی ایک بیچاری مسکین لڑکی ہو گئی تھی جسے گھر میں پیار نہیں ملا تھا جو وہ دوسرے لوگوں میں ڈھونڈ رہی تھی۔
یہی تو کہتی تھی وہ بھی اور وہ سب لوگ بھی جنکے نقش قدم پر چلنے کی وہ کوشش کرتی تھی
مگر وہ چل نہ سکی تھی
وہ بیچ بھنور میں پھنس کر رہ گئی تھی۔
وہ کچھ بھی بتانے جوگی نہ رہی تھی۔
جب کئی دن تک کلاس کے کام کو کرنے میں ناکام رہی تو وہ آہستہ آہستہ اگلی سیٹیوں سے پچھلی سیٹوں پر کھسکنے لگی تھی۔روز روز شرمندگی سے بچنا مشکل ہونے لگا تھا
پیچھے والے طلبا کو استاد جانے بغیر سمجھتا ہے کہ اسے کچھ نہیں آتا۔چناچہ شرمندگی کا سامنا روز روز نہیں کرنا پڑتا۔
کم سے کم روز یہ سوال فیس نہیں کرنا پڑے گا کہ سبق کیوں نہیں آتا۔
شاید اسی طرح دھیرے دھیرے انسان کامیابی کے رستوں سے پیچھے سرکنے لگتا ہے۔زرا زرا سے سمجھوتے کرتے کرتے اسے سمجھ تب آتی ہے جب وہ جہنم کی تہہ میں اتر چکا ہوتا ہے۔ماہم بھی خود کو بچاتی پیچھے کر رہی تھی۔ایک کے بعد دوسرا سبق پڑھے بغیر اسکے سامنے سے گزرتا جاتا تھا۔ایک کے بعد دوسری کتاب بغیر سمجھے بغیر پڑھے اسکے سامنے آتی اور اٹھائی جاتی رہی۔
بےجان، بے بس ذندگی میں خوبصورت چند دن وہی رہے تھے جب ماہم کو وہ دلربا کالج  گیٹ پر نظر آیا تھا۔کچھ دن خوبصورت بنتے۔خواب اور زندگی انگڑائی سی لیتی۔
اور پھر وہی جینے اور نہ جینے کی، چلنے اور نہ چل پانے کی ایک جدوجہد شروع ہو جاتی۔پھر وہی درد کی ان دیکھی بیڑیاں پاوں میں پڑ جاتیں
وہی باندھ لینے والی محبت اسے اپاہج کرکے پیچھے سے پیچھے دھکیلے جاتی۔
ایف ایس سی کا آخیر سر پر آیا تھا اور ماہم کتابوں کا انبار دیکھتی تھی جنہیں دو سالوں میں حفظ نہ کر پائی تھی
حافظہ تو سارا کسی کی یاد میں ہی برتا گیا تھا
اب امتحان آئے تھے تو ڈاکٹری کی منزل کیسی دور نظر آتی تھی۔جو پڑھائی چھ سو دنوں میں ناممکن رہی تھی اب ساٹھ دن میں کیسے ہونی تھی۔
یہ دو سال تو وہ خود سے لڑتے سروائیول کی جنگ میں ہی گزار گئی تھی۔بھاگتی کیسے جب اسکے لئے کھڑے رہنا ہی ذندگی کا مشکل ترین کام رہا تھا
۔اب جو سامنے دیکھتی تھی تو نئی نکور بغیر پڑھے کتابیں تھیں اور سال کے آخری مہینے تھے، ڈاکٹری کا سپنا نکڑ میں پڑا روتا اور سسکتا تھا۔۔۔۔۔۔
جب ساری ذمہ دار لڑکیاں ڈاکٹری پڑھنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگائے بیٹھی تھیں۔ماہم دل میں طلال کو بسائے اسکی محبوبہ بننے کے خوابوں میں مگن تھی۔یہ کوئی چھوٹی حرکت نہ تھی

یہ تو عمر بھر کے فیصلوں کی کنجی تھی
یہ تو وہ سپنا  تھا جو اسکے عشق کے ہاتھوں چھوٹنے والا تھا۔

ایف ایس سی کے امتحانات مارے باندھے گزر گئے تھے۔اس دوران ایک ایڈوانسمنٹ صرف یہ ہوئی تھی کہ پیچھے ہٹتے ہٹتے وہ محبوب کی بہن تک پہنچ گئی تھی۔وہ بھی سائنس لیبارٹری کی آخری سیٹوں پر بیٹھتی تھی۔ساتھ بیٹھتے بیٹھتے ان میں دوستی نبھنے لگی تھی۔
ماہم کے لئے تو محبوب کی بہن بھی محبوب سی تھی۔اسے بھی تقدس اور محبت سے دیکھنا اسکی مجبوری تھی۔
اس گفتگو سے ماہم کا طلال کے بارے میں علم آپ ٹو ڈیٹ ہونے لگا تھا
وہ کون ہے کیا کرتا ہے، اسکے رحجانات، اسکے رویے سب ایک بہن کی زبان سے اسے سننے کو ملنے لگے تھے۔
اچھا تھا یہ برا تھا مگر سب سے اہم یہ تھا کہ یہی علم تھا جو وہ پانے کو تڑپتی تھی۔بے جان روح کو بہرحال تھوڑا قرار ملنے لگا تھا۔
اسکا نام طلال تھا جو لاہور میں میڈیکل کالج کا سٹوڈنٹ تھا۔اسی میڈیکل کالج کا جسکا سپنا ماہم کے ہاتھوں سے نکلتا سا جاتا تھا۔
اسے کتابیں پڑھنے کا شوق ہے
ماہم خوش ہوتی ہمارا مزاج کتنا ملتا ہے
وہ اعتکاف پر بیٹھا تو ماہم خود بخود مذہبی سی ہونے لگی تھی۔سچی تھی یا جھوٹی مگر اسکے بارے میں معلومات سے اچھے یا برے انداز میں بدل رہی تھی۔
چھٹیوں میں کبھی کبھار گھر آتا تو ماہم کو بھی دیکھنے کو مل جاتا۔باقی دن ماہم کے انتظار میں نکل جاتے
_________



جانے کیسے کیسے ستم تھے جو اسکی جان پر خودبخود ٹوٹتے رہتے۔اپنے ہی وہم خدشے کبھی زخمی کر دیتے کبھی خواب اور ارمان بن کر شاداں۔
پھر ایک دن سمیرا اسے کچھ کہنے لگی تھی۔سمیرا جو کئی سال تک اسکی بہترین دوست رہی تھی۔وہ اسکول میں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم رہی تھیں اگرچہ کالج میں پہنچ کر انکے گروپس بدل گئے تھے۔وہ دو جسم ایک جان رہ چکی تھیں اور ایک دوجے کو گہرائیوں تک جانتی پہچانتی تھیں۔
“مجھے کوئی پسند آ گیا ہے”
سمیرا کے چہرے پر کئی رنگ  کھلے  تھے
جنہیں دیکھ کر ماہم کے دل میں دھواں پھیلنے لگا تھا
“خدا کرے کوئی کزن ہو”
اس پورے کالج کے سامنے تو صرف ایک ہی ہیرو رکتا ہے
سمیرا اسکی سہیلی تھی اس سے کم نہ تھی نہ ذوق میں نہ حسن میں۔اس سے مقابلہ سخت تھا
کون ہے؟”
اس نے چھیڑا تھا”
دکھاوں گی تمھیں!”
سمیرا نے آنکھ ماری تھی
یعنی؟ دکھاوں گی؟
اسکے اندر کچھ ٹوٹ گیا تھا
یعنی پھر وہی ہے
یہ کیا ہوا کہانی ابھی شروع بھی نہیں ہوئی اور ایسا بھیانک انجام بھی آ گیا
یہ تو ماہم نے سوچا ہی نہ تھا
آخر کیوں دو ایک جیسی لڑکیوں کو دو سہیلیوں کو ایک ہی شخص پسند آ جاتا ہے؟
کیوں ساری دنیا کے دکھی ناول صرف اسی کی ذندگی میں کھلنے ہیں؟
وہ ہیروئیں نہیں وہ تو ہیروئں کی دکھی سہیلی تھی ہاری ہوئی
جسے اپنا دل ہاتھ میں نچوڑ کر سہیلی کا دل رکھنا تھا
مگر ایسا کیسے ممکن تھا؟
ایسا تو وہ کبھی بھی کر نہ پاتی تھی
اسے یہ جنگ لڑنی تھی
اور ہر حال میں جیتنی تھی۔بہت اچھی تھی ماہم مگر ایسی بھی بکری نہ تھی کہ سہیلی کے لئے خود کو مار لیتی۔اپنا آپ اپنی محبت آج بھی اسکے دل میں سب سے ذیادہ تھی۔
مگر آہستہ آہستہ کھلنے لگا تھا کہ صرف سمیرا نہیں اور بھی کئی لڑکیاں تھیں جو اسی ایک شہزادے کے حسن میں گم تھیں۔۔۔۔۔
پورے کالج کے سامنے ایک ہی تو  یو سف تھا جسے دیکھ کر کتنی زلیخائیں گھائل ہوئے بیٹھی تھیں۔
ماہم میں اور دوسروں میں فرق کیا تھا؟ فرق تو ماہم کو کئی نظر آتے تھے مگر جانتی تھی کہ دل تو گدھے پر بھی آ جاتا ہے۔بلکہ دراصل تو دل اکثر لوگوں کا گدھوں پر ہی آ جاتا ہے۔کبھی کسی شہزادے کو ملکہ حسن پر بھی مرتے دیکھا ہے؟
سب کی لیلائیں کالی پیلی ہی تو ہوتی ہیں۔
خوبصورت لڑکی سے محبت کی جرات ایک محبت کرنے والے دل میں بہت ہی کم ہوتی ہے۔

گھنٹی بجی۔
طلال نے بھاگ کر فون اٹھایا تھا
آجکل اس وقت تو روز ہی فون بجتا تھا
اور دوسری طرف ایک کوئل چہچہاتی تھی
اسلام علیکم
اسکی فون اٹھا کر کہنے کی عادت تھی
“اففففف” اور اس نیک طبیعت پر ماہم مر مٹتی تھی
“اتنا نیک اور تابعدار آجکل بھلا کون ہوتا ہے؟”
ماہم کا دل اور بھی چار فٹ آگے بڑھ جاتا تھا
چھان پھٹک کر دنیا کا سب سے بہترین انسان چنا تھا اس نے خود کے لئے
کیسی خوش قسمت تھی
“کیا کر رہے تھے؟”

کیا کرنا چاہیئے؟۔
“کچھ تو ضرور ہی کرنا چاہیے”
مثلا کیا””
“مثلا کسی کو یاد ہی کر لینا چاہیے”
کس کو؟”
مجھے؟”
دوسری طرف خموشی تھی
کیسا نیک ہے
مجھے دھوکا دینے سے ڈرتا ہے”
اسکے دل میں  محبت پرستش میں بدلنے لگتی تھی
ہاں _____مگر بات کرتا تھا۔
جب بھی آتا تھا اس کا فون سنتا تھا اور بات بھی کرتا تھا۔ عشقیہ فقرے نہیں بولتا تھا۔ماہم اس پر بھی خوش تھی۔ایسے فقرے بولتے اور سننے اسکے لئے بھی مشکل تھے۔اندر ہی اندر اس نے دل میں کوئی آفاقی بندھن فرض کر رکھا تھا جسے کسی بھی لفظ کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
1 آس پاس کی بہت سی لڑکیوں کو طلال کے کرش میں مبتلا دیکھ کر اس نے طلال سے فون پر بات شروع کر دی تھی۔
یہ بھی ایک حد تھی۔جو اس نے توڑ دی تھی
اسکے ماحول میں اسکے خاندان میں لڑکوں سے دوستیاں نہیں ہوتی تھیں۔اور وہ بھی تو ایک اچھی لڑکی تھی۔وہ بھی اچھا رہنا چاہتی تھی۔مگر عشق نے سر چڑھ کر اس حرکت پر بھی اسے اکسا لیا تھا۔کیا کچھ ڈوبتا جاتا ہے اس ایک عشق کے نام پر بس یہ ہے کہ ڈوبنے والے کو خبر تک نہیں ہوتی۔۔۔بس  ڈوبنے کے بعد ہی پتا چلتا ہے کہ ڈوب گیا سب کچھ!
سترہ اٹھارہ سال عمر بھی کیسی دیوانی ہوتی ہے۔انسان وہ دیکھتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے
اسی پر یقین رکھتا ہے جو اسے خوبصورت لگتا ہے
نوجوانی سے گزر جائے تو سمجھتا ہے کہ سمجھدار ہو گیا ہے
یہ نہیں جانتا کہ رومانس سے بھری دراصل وہ عمر ہی گزر گئی ہے جب موسم شاعری کرتے اور لفظوں میں محبت چھلکتی انساں کو نظر آتی ہے۔


اسے پرستش کی حد تک پہنچاتے وہ نئی دنیا کا یہ اصول قطعی فراموش کر بیٹھی تھی کہ وہ خود کو نظرانداز کر رہی ہے۔اسکے اعصاب پر ابھی تک پرانے زمانے والی ستی سوتری کی اسٹار پلس والی محبت طاری تھی جسمیں سب کچھ لٹا دینا ہی اسکا فرض تھا۔
وہ بھی تو ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر اب پڑھ ہی نہ پاتی تھی
فزکس اور کیمسٹری کے فارمولوں سے زیادہ وہ طلال کو یاد کرنے میں محو رہتی تھی۔محبت جو وصل کی محرومی میں ایک جلتے بجھتے کوئلے کی طرح تڑپاتی ہے۔وصل نہ ہو تو نہ انسان بھول پاتا ہے نہ جان چھڑا پاتا ہے۔محبت تو  وصل کی اس محرومی کا ہی نام ہے۔فلموں اور ناولوں سے سیکھا تھا اس نے بھی محبت کا نام۔مگر یہ نہ جانتی تھی کہ محبت کوئی منزل نہیں منزل کے رستے کا نام ہے۔۔۔۔۔جب تک وصل کی منزل دور ہے محبت کا عذاب مقدر میں ہے۔۔۔۔۔ ۔
میری آنکھوں کو آنکھوں کا کنارہ کون دے گا
سمندر کو سمندر میں سہارا کون دیتا

ماہم ٹیپ ریکارڈرز لگائے بیٹھی تھی اور آنکھوں سے سیلاب رواں تھا
کس لئے روتی تھی یہ وہ خود بھی جانتی نہیں تھی۔مگر ان لفظوں میں کوئی کرب تھا جو اسکی روح کو جھنجھوڑتا تھا جو اسکے دل میں خنجر اتارتا تھا۔یہ الفاظ یہ انداز یہ دھن اسے اپنا مرثیہ لگتی تھی
مرثیہ کیوں آخر؟
کوئی بھی ٹریجڈی گانا سننا اسکے لئے ایک عذاب ہو جاتا تھا
بلک بلک کر روتی تھی گرچہ سمجھ ہی نہ پاتی تھی کہ آخر رو کیوں رہی ہے

ان سارے دکھوں کو کیسے سمیٹے گی کہاں رکھے گی وہ خود بھی جانتی نہ تھی۔

محبت نیلا امبر بن کے آ جائے گی اک دن
گلابی تتلیوں کو پھر سہارا کون دے گا
ماہم  نہیں جانتی تھی اسکے اندر کیا کچھ ٹوٹا پڑا تھا۔کتنی کرچیاں اسکی ذات کے اندر ایک ایک کرکے کھب گئی تھیں اور اب سب کی سب ہی الگ الگ سے واویلا کرتی تھیں
اگرچہ وہ سمجھ نہ پاتی تھی کہ یہ اندر سے اٹھنے والا بین آخر کس کا ہے
کسی ایک کرچی کا
یا اسکے ہزارہا ٹکڑوں کا؟
اسکی ٹوٹ چکی انا کا جو کسی دوسرے کے در پر سر جھکائے بیٹھ گئی تھی
اسکی ذات کے غرور کا جو خوشی اور قبولیت کے لئے کسی دوسرے کی محتاج ہو چکی تھی
اس بھرم کا جو طلال کی خموشی دیکھ کر ہر روز نئے سرے سے ٹوٹ جاتا تھا
اس شرمندگی کا جو اسے دوبارہ سے طلال کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہر بار نئے سرے سے سہنا پڑتا تھا
اس اعتماد کا جو ابا کی آنکھیں روز اسکے سامنے رکھتی تھیں
اس مستقبل کا جو روز اسکے سامنے ایک سوالیہ نشان بن کر کھڑا ہو جاتا تھا
اس چہرے کا جو خود کے سامنے بھی نظر اٹھانے سے قاصر ہو گیا تھا
اس عزت کا  جس کے  احساس سے وہ کھیل رہی  تھی
یا اس دل کا جو ان ساری کرچیوں پر پاوں رکھ کر گزر کر بھی روز روز ٹوٹ جاتا تھا
ایک انبار تھا زخموں کا  جو اسکے اندر  اسے پھوٹ پھوٹ کر رلاتا تھا

مرے چہرے کو چہرہ کب عنایت کر رہے ہو
تمہیں میرے سوا چہرہ تمہارا کون دے گا
نصرت فتح علی خان کے آواز گونجتی تھی اور  ماہم کی آنکھوں سے برساتیں بھادوں کی طرح برستی تھیں۔
لوگ سمجھتے ہیں محبت آسان ہے۔محبت ایک مزا ہے کھیل ہے۔اس خطے کےلوگوں نے  اسے مذاق بنا چھوڑا ہے گرچہ محبت پھولوں کی سیج کب ہے؟
محبت تو کانٹوں بھرا رستہ ہے جس پر خون آلود قدموں سے بھی چلنا ہے۔ستم یہ بھی ہے کہ انساں رک بھی نہیں پاتا اور چل بھی نہیں پاتا۔
ماہم بھی رکتی تھی تو مرتی تھی چلتی تھی تو اور بھی ذیادہ مرتی تھی۔

ماہم نے طلال کا پورا تعاقب کیا تھا۔فون پر ، اسکے نظریات اپنا کر صائمہ کی بتائی ہر بات میں ڈھل کر خود کو اسکی پسند کے چوکھٹے میں فٹ کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔بس ایک کام نہ کر سکی تھی۔وہ اپنے لئے کچھ نہ کر سکی تھی ۔پڑھائی بھی!
خموشی سے محدود سے نمبروں میں ڈاکٹری کا خواب لپیٹ کر گریجویشن کی طرف بڑھ گئی تھی۔
خود سے ہی اس نے فرض کر لیا تھا کہ بھلا اس سے طلال کو کیا فرق پڑتا ہے۔
ابھی بھی وہ خوبصورت ہے، دلنشیں ہے۔اس سے محبت کرتی ہے ۔اسکے خواب دیکھتی ہے۔طلال جیسے شخص کو بھلا عہدوں کی کیا ضرورت ہے؟
دل ناداں کو دینے کے لئے کسقدر بہانے موجود تھے ماہم کے پاس
بی اے کی کلاسز اپنے آخری مراحل میں تھی
ان چار سالوں میں ماہم نے محض پیار ہی تو کیا تھا یا پھر پرنس چارمنگ کا انتظار کیا تھا۔
میٹھے میٹھے سہانے سپنے دیکھے تھے۔
تاروں پھولوں اور خوشبوؤں بھرے ارمان سینچے تھے۔
انکی کلاس کی ایک لڑکی کی انہی دنوں شادی ہو گئی تھی۔وہ شادی کے فنکشن سے نپٹ کر واپس آئی تو پوری کلاس انکے گرد گھیرا ڈالے بیٹھی اسکے بھاشن سن رہی تھی۔کم سن لڑکیوں کو کتنا شوق تھا دلہن بنی سہیلی کی روداد سننے کا۔جانے کیوں ہماری لڑکی آج بھی صرف شہزادوں کے خوابوں میں غرق رہتی ہے؟
ماہم اور ثوبیہ ان لڑکیوں پر ہنستی دوسری طرف کے گھاس سے بھرے گراونڈ میں گھومتے باتیں کر رہی تھیں۔ثوبیہ ماہم کی ہم راز تھی اور اسکے سارے نوحے مرثیے اور ادھورے خواب سنتی تھی
” میں اس سے بہت پیار کروں گی۔تم دیکھنا میرے سارے بچے طلال کے جیسے ہونگے!”
چند بار فون پر تھوڑی سی بات ہوئی تھی اور ماہم نے کتنے دور کے خواب بن لئے تھے
“تم کسقدر جنونی ہو! کہاں کہاں تک کی باتیں سوچے بیٹھی ہو”
ثوبیہ کو اسکی اصل میں بہت فکر تھی مگر اسکے باوجود وہ ماہم کی خاطر کر تو کچھ بھی نہیں سکتی تھی
ماہم بھی محض خواب ہی تو دیکھ پاتی تھی خواب ہی دیکھتی رہتی تھی۔اس کے سوا اسکے ہاتھ میں کچھ نہ تھا

شہزادوں کے خوابوں میں مگن رہنے سے ذندگیاں یا باربی کی فلموں میں بنتی ہیں یا سستے ناولوں میں بھلا اصل ذندگی میں بھی کبھی کوئی شہزادہ گلفام اترا ہے؟ اصل دنیا میں بھی کبھی کسی نے شہزادی کو سوئے ہوئے محل سے نکالا ہے؟
محلوں میں بیٹھ کر شہزادوں کا انتظار کرنے والی اکسویں صدی کی شہزادیاں تو خالی کمروں میں سوتی رہ جاتی ہیں میدان وہی مارتی ہیں جو میدان میں نکل کر ذندگی کی جنگ لڑتی ہیں۔
مگر یہ سبق ماہم کو سمجھانے والا کوئی نہ تھا
بدقسمتی سے وہ ایسے معاشرے کا حصہ تھی جہاں غلطیاں چھپائے رکھی جاتی ہیں
اور غلطیاں جب خفیہ ہوں تو اصلاح کے مواقع ختم ہو جاتے ہیں
بربادیوں کا ایک پورا ساگا جنم لے لیتا ہے۔

ماہم کے لئے طلال کی یاد سے ہی پیچھا چھڑانا بہت مشکل تھا
اور یاد بھی کیا وہی چند لمحے جب اس نے کچھ منٹوں کے لئے اسکی صورت دیکھی تھی
ملاقاتیں ہوئی تھیں
نہ تحائف اور نشانیاں تھیں
بس وہی ایک گانے کی دھن تھی
دیتے ہیں گواہی یہ نظارے ہمیں تم سے پیار ہے

اور دور سے موٹر سائکل پر اڑا اڑا آتا طلال تھا
کچھ وعدے وعید کے بغیر کی گفتگو اور بس!
جانے کیا سوچتی تھی کیا یاد کرتی تھی۔اک جوانی اس پر ایسی اتری تھی کہ اس سے کیسے نپٹنا تھا وہ سمجھ ہی نہ پاتی تھی

یکطرفہ قسم کے  محبت کے خیالی وعدوں اور ارادوں پر گزارا تھا!
اسے باندھے رکھنے کے لئے بس یہی ایک یاد کافی تھی۔
گریجویشن کے چوتھے سال میں آس پاس کتنی ہی کلاس فیلوز کی شادئاں اور منگنیاں ہونے لگیں تھیں۔ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی کلاس فیلو منگنی کروا کر معتبر ہو جاتی۔

ایک ماہم تھی جس کے عشق کی ہنڈیا ابھی تک پکنے کو تیار نہ ہوئی تھی۔جانے اور کتنا عرصہ اسے  مزید بھونتے رہنا تھا۔



ایک مشترکہ دوست  کی ڈھولکی تھی۔اسکے گھر کے ویہڑے میں آس پاس کی ہر دیوار پر جلتی بجھتی بتیوں کا چراغاں تھا۔کرسیوں پر کچھ مہمان خواتین بیٹھیں،  کچھ دلہن  کے آس پاس تحفے وصولنے مہندی لگانےمیں مگن  تھیں۔بچے آس ہاس بھاگتے دوڑتے کھیلتے اور شور مچانے میں مگن تھے۔
سارے محلے کی بچیاں اور کالج کی سہیلیاں درمیان میں چادر بچھائے ڈھولکی رکھے شادی کے گیت گانے میں جتی تھیں۔شادی کا شور شرابا اپنے عروج پر تھا
چٹا ککڑ بنیرے تے
کاسنی ڈوپٹے والیے منڈا صدقے تیرے تے۔
کاسنی ڈوپٹے والی دہری ہونے لگتی۔سہیلیوں کے چہرے بھی خوابوں اور ارمانوں کی چمک سے چمکنے لگتے۔
کوئی بچہ بھاگتے بھاگتے گر جاتا اور گیتوں میں سے ایک دم اسکے رونے کی آواز بلند ہونے لگتی۔پھر کوئی ماں اٹھتی اور روتے بچے کو اٹھا کر گود میں چڑھا لیتی۔
کچھ  بچےغبارے لئے بھاگے پھرتے تھے

ڈھولکی چھوڑ کر ڈیک چلا  توسہیلیاں جھومنے رقص کرنے لگیں۔سب نے کھینچ کھانچ کر ثوبیہ اور ماہم کو کھڑا کیا تھا

چلو چلو بھئی اپنا وہ شہرہ آفاق ڈانس دکھاو!”

اوڑھ کہ اندھیرا میں جو پیا سے ملن گئی
چاندنی  لپک کے بدن میرا بن گئی
ٹھا دھنا دھن دھا
ماہم اور ثوبیہ اپنے لال  اور پیلے چنری کے لہنگوں میں سروں کے ساتھ دھیرے دھیرے بازو پھیلائے ڈانڈیا کی دھن پر شروع ہوئی تھیں اور بیٹ تیز ہوتے ہی ایک ساتھ تیز ہوئی تھیں۔
یہ ڈانس دونوں نے کالج کی فئیرول پارٹی کے لئے کئی دن ہاسٹل میں اکٹھے تیار کیا تھا۔پھر ساتھ ہی انکی سہیلی کی مہندی آ گئی تھی تو یہ ہلہ گلہ تو لگنا تھا
آڑھی سیدھی گلیوں میں پیا جی کا گھر تھا۔۔۔۔۔۔۔
آڑھی  سیدھی گلیوں میں پیا جی کا گھر تھا
گلیوں میں میرے بھٹکنے کا ڈر تھا
۔۔۔۔۔بھٹکنے کا ڈر تھا
اسی لئے سکھی میں اتار کے جھانجھڑ گئی۔۔۔۔۔۔۔
جھانجڑ چھنکاتی کمال کی فنکاری تھی دونوں کی
ثوبیہ اور ماہم کی ڈانس میں مہارت کوئی آخیر  تھی
ثوبیہ کے لمبے جھمکے اور ماہم کی سمارٹنس پر کتنی لڑکیاں مرتی تھیں
محبت انسان کو خواہ مخواہ خوبصورت بناتی ہے اسے خواہ مخواہ خوش رکھتی اور ہنساتی ہے
ماہم خوب ہنس رہی تھی
قہقہے اسکے لبوں سے نہیں اسکی آنکھوں سے بھی پھوٹ رہے تھے
ہر بل کھاتے اسکی ہنسی  کےجھرنے ساتھ ساتھ بکھرتے تھے۔
لڑکیوں نے تالیاں پیٹ پیٹ سیٹیاں مارنی شروع کر دی تھیں
“کاش وہ یہاں ہوتا! کاش کسی دیوار سے جھانکتا طلال اسے دیکھتا”
دیکھے جانے کی خواہش چاہے جانے کی طلب لڑکی کے ساتھ ہی پیدا ہو جاتی ہے۔وہ جو چاہی نہ جانا چاہے آخر وہ لڑکی کیسی۔لڑکی تو بنتی ہی محبت سے ہے۔
جھومتے گاتے بھی دل میں اسکی یاد اور آنکھوں میں اسکے خواب تھے چہرے پر اسکی محبت چمکتی تھی۔
اب سبین کی باری تھی جو  دائرے کے بیچ میں ڈولا رے ڈولا پر رقص کر رہی تھی
تالیاں بجاتے  جب صائمہ نے اپنے تئیں  ماہم کو خوشخبری سنائی تھی۔(۔جانے سہیلی ہو کر سہیلی بنکر وہ ماہم کے دکھ  سے ناواقف کیسے رہ گئی تھی؟ کیسے ماہم کے چہرہ پر چمکتی محبت وہ کبھی دیکھ نہ پائی تھی۔۔۔اور دیکھ پاتی تھی تو اسقدر بے بس تھی  کہ کچھ بھی کر نہ پائی تھی۔۔۔۔) جانے کس آس میں اس نے ماہم کے کانوں میں یہ بم پھوڑا تھا
طلال کی بھی  جلدمنگنی ہو رہی ہے”
گرچہ ماہم  نے ابھی تک صائمہ کو اپنے عشق سے آشکار نہ کیا تھا
لو میرج!اپنی کلاس فیلو سے!
اس نے دوسرا بم پھوڑا تھا
اور _____ ماہم کی دنیا پر ایٹم بم گرا دی تھا
اچھا؟””
چہرے کو کسی بھی تاثر سے آزاد رکھنا ایک عذاب  تھا۔
یہ کیسے ہوا؟”
بھرم بھی رکھنا تھا عزت بھی بچانی تھی
اور سہیلی کے ساتھ گفتگو میں حصہ بھی لینا تھا
“پتا نہیں کب سے دھیرے دھیرے چل رہا تھا یہ چکر۔۔۔۔۔جب انسان ساتھ پڑھتا ساتھ رہتا ہے تو اتنی انڈرسٹینڈنگ ہو ہی جاتی ہے۔”
صائمہ صفائی دے رہی تھی یا طلال کی معصومیت کا جواز دے رہی تھی
انڈرسٹیینڈنگ وہاں تھی تو وہ کہاں تھی کون تھی___________
ماہم کی آنکھیں خشک تھیں
گرچہ اندر سب کچھ ٹوٹ چکا تھا
عشق کا سالوں سے کھڑا مندر اپنی بنیادوں میں لرزنے لگا تھا
اسے اب جو گرنا تھا تو چکنا چور ہونا تھا
دل دھاڑیں مار کر رو رہا تھا جب وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑی
جانے کسی نے کیا کہا تھا
اس نے سنا نہیں
بس اتنا جانتی تھی کہ اسے اب زور زور سے ہنسنا ہے،

شادی اور خوشیوں بھرے گھر  اسے رونا نہیں ہے
گانے بھی گانے تھے
بتیاں بجھائے رکھدی میں”
دیوا بلے ساری رات”
ماہم اٹھ کر سبین کے ساتھ بھنگڑا ڈالنے اور گانا گانے لگی تھی
اسے کسی سے نظر نہیں ملانی تھی
کیسی بیچارگی تھی۔
تیرا لٹیا شہر بھنبھور
نی سسئے بے خبرے!۔
محبت کا جو شہر آج تک بسا تھا
ایک لمحے میں اس نے جانا تھا یکطرفہ تھا۔
دوسری طرف جو بھی تھا کھیل تھا، مذاق تھا تماشا تھا۔
اسے عشق کے مندر میں اب اسے اکیلے ہی دفن ہونا تھا
ایک دن تو ہونا ہی تھا


آج کی رات اندھیری تھی
جانے سارے غم انسان کو اندھیری راتوں میں ہی کیوں ملتے ہیں جب دھوکے میں رکھنے والا پورا چاند بھی آنسو پونچھنے نہیں پہنچ پاتا۔
ہارنے والا ہمیشہ اکیلا رہ جاتا ہے اندھیری رات میں!
وہ بھی اکیلی تھی
بہنوں کے بیچ میں لیٹی نہ وہ دھاڑیں مار سکتی تھی
نہ وہ بلک بلک کر رو سکتی تھی
منہ کو سختی سے بازو سے بھینچے
وہ تکیے پر الٹی پڑی تھی
کوئی آس پاس جاگتا تو دیکھتا کہ اندھیری رات میں وہ خموشی سے ہوکے بھررہی تھی
تکیہ بھیگتا جاتا تھا
کتنے تکیے بھگونے تھے، کتنی اندھیری راتیں اب اسے بتانی تھیں۔
کیسا دکھ تھا جو سہنا بھی تھا اور چھپانا بھی تھا۔رشتے دار مرجائیں تو بندہ کھلے عام رو لیتا ہے یہ کیسے رشتے تعلق ہیں کہ  بندہ ڈھنگ سے رو تک نہیں سکتا ۔جو سفر سالوں میں کیا تھا ایک رات میں واپسی مشکل نہیں ناممکن تھی۔روز تھوڑا تھوڑا اپنے ہاتھوں سے ڈھانا ہو گا پھر یہ قلعہ گرے گا۔جسے نازک ارمانوں نے خوشبوں اور رنگوں سے گوندھ کر بنایا تھا۔
کیا کرتی؟ وہ جو سامنے ہوتا اسکا منہ نوچ لیتی، یا اسکے قدموں میں گر جاتی، کیا کرتی وہ، اب کچھ بھی جانتی نہ تھی۔یہاں سے خود کو سمیٹنا ہے، لوٹنا ہے یا دوسرے کا گریباں پکڑنا ہے
“میں نے کب کہا تھا؟”
وہ کہے گا اور لاجواب کر دے گا
وہ سو سو قسمیں کھائے گی
وہ مسکراہٹیں وہ دیکھنا وہ باتیں۔۔۔۔۔۔مگر وہ پھر بھی جھوٹی ٹھہرے گی۔
میں نے کب کہا تھا” والا جیت جائے گا
تم ہی جھوٹی تھی۔محبت ڈھونڈتی پھرتی تھی۔تمھیں گھر سے توجہ نہیں ملی تھی۔تم بیچاری لال چشمہ لگائے  وہی محبت مجھ میں ڈھونڈتی رہی۔”
اگر وہ منہ سے یہ سب کہہ دیتا تو مرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا
اسے کیا کچھ سننا تھا اب۔خود اپنے آپ سے ۔کتنے تھپڑ مارتی وہ اپنے چہرے پر کہ خود کو سزا دے پاتی۔تھپڑ مار کر بھی کیا بنتا کہ جو سزا اسے ملی تھی وہی کیا ناکافی تھی۔
اپنے رستوں سے ہلی تھی، اپنے معیارات پر سمجھوتے کئے تھے۔خود کو توڑا تھا ، گرایا تھا، ذلیل کیا تھا،کس کی خاطر۔۔۔۔۔۔وہ شہزادہ جو آخر میں سامری جادوگر نکل آتا ہے۔
کاش اسکے پاس ایک اکیلا کمرہ ہوتا جسکی دیواروں سے وہ سر مارمار روتی۔کم سے کم کچھ سکون ہی ملتا۔اب یہ تھا کہ نہ ماہم کو رونے کی جگہ ملتی تھی نہ سکوں ملتا تھا۔

وہ یہاں بیٹھی طلال کے قابل بنتی رہی تھی
وہ چپکے چپکے اسکے رنگ میں ڈھلتی
یہ بھول گئی تھی
جو خود ڈاکٹر بن رہا ہے
وہ ایک عام لڑکی سے بھلا کیوں شادی کرے گا؟
بھلا ڈاکٹر سے کیوں نہ کرے گا؟
وہ کون تھی جس کو کتابیں دکھائی نہ دیتی تھیں بس ان میں اسکا چہرہ دکھائی دیتا تھا۔
وہ خود اجڑی تھی کہ اجاڑی گئی تھی۔یہ فیصلہ اب وقت کو کرنا تھا
اور کتنا اجڑی اور اجاڑی گئی تھی یہ فیصلہ بھی وقت ہی سنائے گا۔
ایک عام لڑکی!
وہ کسقدر عام تھی
آج ذندگی میں پہلی بار اس نے جانا تھا
وہ تو بے تحاشا عام تھی
اسکے جیسی لڑکیوں سے تو معاشرہ بھرا تھا
اسکے چہرے کو چہرہ کبھی نہ مل سکتا تھا!

ثوبیہ نے ایک بار کہا تھا
ماہم۔۔۔۔مجھے حیرت ہوتی ہے۔تم نے کیسے یہ سب کر لیا؟
ہم لڑکیوں کے گرد ایک  انا کا غلاف ہوتا ہے جسکے اندر ہم کسی کو آنے نہیں دیتے۔جسمیں سے ہم خود کو نکلنے نہیں دیتے۔۔۔۔تم نے کیسے وہ پار کر لیا؟؟؟؟؟؟”
کیسے کر لیا؟کاش کہ ماہم نے اس انا کے اس غلاف کی لاج رکھی ہوتی۔اسے کسی کی خاطر تاراج نہ کیا ہوتا!

سوال تو یہ بھی تھا یہ حدیں جو وہ توڑ بیٹھی تھی کیا پھر اٹھائی جا سکتی تھیں کہ نہیں؟
جن شاخوں سے وہ ٹوٹ گری تھی انکا اب کیا کرنا تھا
ٹوٹے ہوئے پتے کی مانند اسے اب کتنا آوارہ پھرنا تھا۔
اسے کتنا مان تھا میں فضول عشق معاشقے  والی آوارہ لڑکی نہیں ہوں۔آج اس نے جانا تھا۔کوئی بھی آوارہ نہیں ہوتی۔بس اسے اسکی حدوں سے اکھیڑ کر آوارہ بنا جاتا ہے کوئی۔
کتنے غم تھے جو اب ایک ایک کرکے سہنے تھے، اور سب کچھ کھو کر بھی سہنے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو رستے ماہم نے تھوڑا تھوڑا کرتے بہت پیچھے چھوڑ دئیے تھے ان تک لوٹنا اتنا آسان نہ تھا جتنا انکو چھوڑنا۔خصوصا جب آپکا پورا وجود کئی کئی حصوں میں بٹ چکا ہو۔ماہم کو جانے کتنے سال لگے تھے پھر سے اپنی کرچیاں سمیٹتے انہیں جوڑتے اور دوبارہ سے کھڑا کرتے۔پھر بھی خوش قسمت تھی سالہا سال بعد ہی سہی خود کو کھڑا کرنے کے قابل ہوئی تھی۔مگر ان دو کتابوں کے ماتم نے کہیں بھی اسکا پیچھا نہ چھوڑا تھا۔ایک ٹراما بن کر ہمیشہ اسکے تعاقب میں رہی تھیں۔انسان کی محبت کی طرح اسکے خواب بھی ذندہ ہوتے ہیں اور جب انسان محبت کے ہاتھوں اپنے خواب لٹا بیٹھے تو یہی خواب ایک آسیب بنکر ساری عمر انسان کا تعاقب کرتے رہتے ہیں۔وہ خواب جواب چاہتے ہیں
” کیا ہم اس قابل تھے کہ ٹھکرائے جاتے؟”
نہیں!”
وہ جانتی تھی کہ اسکا جواب نہیں تھا تبھی بھاگتی تھی۔ان  گلہ کرتے خوابوں سے ڈرتی تھی ۔وہ جانتی تھی ان دو کتابوں کا قرض تھا اس پر جو وہ آج تک نیویارک کے کوئین کالج میں پی ایچ ڈی کرتے بھی لٹانے سے قاصر تھی۔۔۔۔۔
_________
_____________

دوستوں کے اصرار پر یہ تحریر خاص طور پر ڈائجسٹ کے لئے ل چھوٹی لڑکیوں کو دھیان میں رکھ کر لکھی گئی تھی مگر انکی طرف سے رد کر دی گئی۔چناچہ اسکا مقدر اپنے ہی گھر کے آنگن میں اگنا لکھا گیا۔

صوفیہ کاشف





8 Comments

  1. درد سے جسکی خوب بنی ہو ،جس نے دل پہ چوٹ سہی ہو
    وہ ہی شیلے ،کیٹس بنا ہے ، وہ ہی غالب ،میر ہوا ہے

    آج بھی میرے سر کی چادر ،تیرے عشق کا حجرہ ہے
    آج بھی تیرا نقش ِ کف ِ پا ، قدموں کی زنجیر ہوا ہے

    لفظ بنے ہیں میری شہرت ،عشق ہوا ہے وجہ ِ شہرت
    ایک کئے ہے ہر سو رسوا ،ایک مری تشہیر ہوا ہے

    عشق دھمالیں ڈالتی آئی رانجھا رانجھا کرتے ہیر
    لیکن کیا کوئی رانجھا ابتک ،عشق میں مثل ِ ہیر ہوا ہے

    ایمان قیصرانی

    Liked by 1 person

    1. مجھے ابھی احساس ہوا کہ تحریر کا پہلا ہاف نہیں چھپ سکا!
      اسکو ابھی ٹھیک کرتی ہوں۔
      معزرت!
      آپکا شکریہ
      آپ ان چند لوگوں میں سے ہیں جنکے لیے میں لکھتی ہوں، جو نہ چاہنے کے باوجود مجھے کچھ نہ کچھ لکھنے پر مجبور کئے رکھتے ہیں!

      Liked by 1 person

          1. This is a word of gratitude to Sofia Kashif for creating a space to have such beautiful expressions with us – those create a positive difference in lives, in extraordinary ways…

            We’re all different and have our own versions of the world. On the basis of perception & communication method, there are four broad categories, on the basis of which our unconscious mind decides which things to filters into awareness; and that is what we actually see, hear, feel or express.
            So,
            Lookers process information in pictures & images and tend to decorate their surroundings for appearance. Listeners think in words and sounds. Touchers process information tactility & through feelings, dress for comfort and need very little personal space in a conversation. Talkers analyze situations using logic & solid explanations and think in words as if using a voice inside their heads.

            From what we know here, our blog-owner has a versatile persona, is exceptionally communicative with clear & vivid articulation and highly creative. The intellectual curiosity is insatiable though. Hence the restlessness, need for freedom, no-love for monotony, and subsequent distracting overthinking….

            کھول یوں مُٹھی کہ اِک جگنو نہ نِکلے ہاتھ سے
            آنکھ کو ایسے جَھپک لمحہ کوئی اوجھل نہ ہو

            “Someone once asked me if I had learned anything from it all. So let me tell you what I’ve learned. I learned everyone dies alone. But if you meant something to someone, if you helped someone, or loved someone. If even a single person remembers you, then maybe you never really die. And maybe… this isn’t the end at all.” (Person of Interest)

            We’re all different and have our own versions of the world. I don’t know if I can say with conviction which chair to seat you in – Listener, Looker, Talker, or Toucher – but I can sure vouch for the divergence in your duality, which has become your capacity to see multiple perspectives, manage diversity and adapt.

            Keep shining. Keep growing this place into better and better.

            God Bless you with best of intents, words and acts.
            God Bless you with best of everything and everyone…

            Liked by 1 person

          2. اس دنیا میں، اس ذمین پر،اس سرحد کے اندر ، اچھی بات کہنے والے اور کسی کے بارے میں کہنے والے، یقین کریں فرشتوں سے عہدے میں کسی طور کم نہیں ہیں گرچہ تعداد میں انتہائی نایاب ہیں!
            آپ نے اتنے سارے الفاظ اتنا وقت لگا کر میرے لئے لکھ دئیے!
            خدا آپکو ہر ہر لفظ کی سو سو بار جزا دے!
            الحمداللہ اللہ نے ذندگی دی تو اس میں کچھ خواب دئیے!
            پھر ایسا سادا اور بھولا دل دے دیا جو ہر لفظ ہر چہرے
            ہر زبان پر یقین کرتا تھا
            ایسا دل جو محبت، خلوص اور وفا سے بھرا تھا

            جسے چالاکیوں، منافقت،سیاست نام کا ہنر
            آج تک سمجھ ہی نہیں آیا
            میں بیچاری
            سو میں نے بہت دھکے کھائے ، ماریں کھائیں،
            چوٹیں سہیں
            ہنر تو نہیں آئے
            مگر خوابوں کو زبان مل گئی
            جزبوں کو الفاظ
            سوچوں کو اظہار
            حوصلہ بننے کو ایسے لوگ کہ
            ہزاروں راہزنوں میں سے ایک ہاتھ پکڑنے والا ملنے لگا!

            پورے قد سے کھڑا ہوں تو تیرا کرم ہے آقا
            مجھے گرنے نہیں دیتا سہار تیرا

            یہ شعر فرسٹ ائیر میں یاد ہوا تھا
            آج تک اسکا جادو دیکھا ہے

            سو جو ذندگی دیتا ہے
            جو تصویر بناتا ہے
            وہی اسمیں رنگ بکھیرتا ہے
            وہی کونپلیں اٹھاتا ہے
            وہی طوفانوں اور بارشوں میں بچائے رکھتا ہے!

            ہم تو بنی بنائی سواری پر سوار ہو جاتے ہیں
            ہمارا کام بس رولر کوسٹر پر جمے رہنا ہے!

            آپکے خوبصورت الفاظ کا شکریہ!

            Liked by 1 person

Leave a reply to sofialog Cancel reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.