یہ بچے میری نہیں سنتے________

“یہ بچے میری نہیں سنتے!”یہ فقرہ عموما ماوں سے ہم سنتے ہیں

کیوں نہیں سنتے؟ یہ کوئی نہیں جانتا چاہتا،صرف مزید دباؤ بڑھایا جاتا ہے

سننی چاہیے ان کو،تم ماں ہو!۔تم میں ہمت نہیں ہے،عقل نہیں ہے ،طاقت نہیں ہے،اس لئے نہیں سنتے”

ااور ماں بات سنانے اور بچے سدھارنے کی کوشش میں بچوں کو مارتی ہے،سزائیں دیتی ہے مگر بچے ہیں کہ سدھر کر نہیں دیتے۔

کیوں؟ کیونکہ یہ جو ماں ہے اس کی بچوں کے سامنے کبھی نہیں سنی گئی یہ عموما اپنے گھر کی بے وقعت ہستی ہوتی ہے جس کو سننے کا فرض صرف بچوں کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے گھر کے سب بڑے ان بچوں کی ماں کو چاہے وہ ان کا باپ ہو یا جوائینٹ فیملی میں رہنے کی وجہ سے ساس،سسر،نند،دیور ہوں،اس عورت کی سننے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے،نہ اس کو اس قابل ہی سمجھتے ہیں کہ اسے سنا جائے لیکن بچوں کو یہ توفیق اوپر سے لے کر آنی چاہیے کہ یہ جو گھر کی سب سے بے وقعت ہستی ہے اس کی سنا کرے۔

۔یہ ماں اگر جوائینٹ فیملی میں ساس سسر،نند دیور کے بیچ میں ہے تو ان چاروں کے بیچ سب سے بے جان اور بے زبان مخلوق ہے۔یہ چار تعلق اس ماں پر صرف ہر وقت کی روک ٹوک اور کیڑے نکالنے کے لئے ہیں۔اور اگر اکیلے گھر میں ہے تو اس سارے کام کے لئے اکثر و بیشتر صرف ایک میاں کافی ہے۔ہمارے روایتی مردوں کے ہوتے کسی عورت کو سسرال کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔وہ اکیلا یہ چار افراد کا کام بخوبی سرانجام دیتا ہے۔

ہمارے ہاں کے مردوں کی اکثریت کی ،ماوں،خاندانوں اور معاشرے کے ہاتھوں اسی طرح تربیت کی جاتی ہے تا کہ وہ مکمل طور پر اپنی عورت پر حکمران بن سکیں۔اور وہ بھی کوئی رحمدل مہربان حکمران نہیں۔جابر ،سنگدل اور بے حس قسم کے حکمران!

نتیجہ کار یہی ہے کہ مرد اپنی ہی بیوی کے ساتھ کبھی کسی محاذ پر کھڑے نہیں ہوتا ہمیشہ اس کے خلاف ہوتا ہے۔ایک ٹیم جو ایک نسل کی تربیت کے لئے بنائی گئی ہے اگر اکی دوسرے کے خلاف کھیلے گی تو کیسے جیتے گی۔جب اپنی ہی ٹیم کے لوگ ایک دوسرے کو ہرانے میں دلچسپی لیں گے تو بچوں کی تربیت ایک ناممکن کام ہے۔

بچے اپنے ماحول سے تربیت لیتے ہیں وہ آپ سے بہتر جانتے ہیں کہ گھر کے یونٹ کے اندر کس شخص کی کتنی اہمیت ہے۔مائیں جو بیوی ،بہو اور بھابی بن کر جوتیاں سیدھی کرنے پر لگائی جاتی ہیں کبھی بچوں کو کنٹرول نہیں کر سکتیں کیونکہ جن عورتوں سے ان کے آس پاس کے افراد متاثر نہیں بلکہ اسے ایک دوسری انتہا تک بیکار تصور کرتے ہیں بچوں کے دماغ ایسے وجود کو کوئی بھاو کیسے دے سکتے ہیں؟

آپ ایک ایسی عورت پر تربیت کی ذمہ داری ڈالنا چاہتے ہیں جسے کبھی آپ نے یا آپ کے آس پاس کے افراد نے قابل توجہ نہیں سمجھا۔

اس سے تھوڑا آگے چلتے ہیں۔انہی عورتوں کی اولادیں جب مستقبل میں جوان اور طاقتور ہو جاتی ہیں،ذندگی میں پہلی بار ان کو ایک مناسب سا استحقاق ملتا ہے تو وہ ذندگی میں ملے اس نئے نئے استحقاق کو اس طرح سے استعمال کرتی ہیں کہ وہ بالکل اسی انداز میں اپنی بہووں اور بیٹوں پر حکمرانی کرتی ہیں جس طرح سے خود ان پر کی گئی۔یعنی نسل در نسل تربیت خراب چلے گی ! افراد کی تعمیر کیسے ہو گی معاشرے کا رخ کیسے بدلے گا؟

یہ ایک خام خیالی ہے کہ ایک بے اختیار پسا ہوا فرد آپ کے بچوں کی اچھی تربیت کر سکتا ہے۔ہمارے ہاں اسے قدرت کا ایک نظام سمجھا جاتا ہے کہ آج کی کمزور بہو کل کی طاقتور ماں ہو گی یعنی یہی ایک بھرپور مکمل باشعور طریقہ ہے۔مگر یہ بات غلط ہے۔

ایک مکمل اور باشعور نظام ذندگی میں تمام افراد کو ذندگی کے ہر مرحلے میں مناسب اختیار اور استحقاق کی ضرورت ہے،ورنہ یہ سسٹم ہمیشہ لنگڑا رہے گا۔آج آپ کو اپنی بہو اور بیوی کو عزت اور اختیار دینا ہو گا تا کہ وہ آپ کی نسل کی تربیت کرنے کے قابل ہو سکے ۔

نسل کی تربیت کا ایک ہی سنہرا اصول ہے کہ دو لوگوں کا وہ یونٹ جسے میاں بیوی کہا جاتا ہےآپس میں عزیت،پیار اور اتفاق سے رہیں،کوئی بھی فریق دوسرے کو کمتر اور خود کو ذیادہ بااختیار نہ سمجھے۔ایک دوسرے کی بات نہ صرف سنی اور سمجھی جائے بلکہ اس کا احترام بھی کیا جائے۔دونوں افراد ہر محاذ پر ایک ٹیم بن کر ایک دوسرے کا بازو بن کر کھڑے ہوں،آپ کے بچے کبھی ماں یا باپ کی بات کو جھٹلا نہیں سکیں گے،کیونکہ آپ نے ایک ٹیم ہو کر ان کی دماغوں کو کنٹرول کر لیا ہے۔

لیکن پاکستانی معاشرے میں اس کے الٹ چلتا ہے ۔نتیجہ کار گھر میں دو افراد میں اکثر طاقتور شوہر اور کمزور بیوی کا سسٹم پنپتا ہے،ایک ایسی بیوی جو اکثر اس بات کا فیصلہ بھی نہیں کر پاتی کہ گھر میں کیا پکایا جائے،اور پکایا جائے تو اس میں نمک مرچ کتنا ڈالا جائے۔یہ فیصلہ بھی گھر کے مرد کرتے ہیں لیکن بچوں کی تربیت کی ذمہ دار عورت ہے۔

معاشرے افراد کے مابین انصاف سے متوازن ہوتے ہیں۔اسی طرح گھر کے یونٹ میں تمام افراد کو برابر کا احترام اور اہمیت کا ملنا اس فیملی کی نئی نسل کی متوازن تربیت کی بنیادی اکائی ہے۔اگر بیوی یا بہو کو اختیار اور عزت دی جائے گی،اپنے حصے کی ذمہ داری اٹھائی جائے اور دوسرے کو صرف اس کی ذمہ داری تو ہی ایک متوازن تربیت ممکن ہے ورنہ تربیت کسی کتاب کا نام نہیں جو بچوں کو پڑھا دی جائے۔تربیت ایک ڈیمو ہے ،بچے جو دیکھتے ہیں خود بخود سیکھ جاتے ہیں۔گھر میں ایک فرد کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنا کر اس کی حیثیت کھوکھلی کر دی جائے اس کے بعد ماں جیسی بے حیثیت ہستی ان کو جتنی مرضی کہانیاں سناتی رہے،بیکار ہے۔۔اگر آپ نے خود کبھی اپنے رویوں کو بہتر کرنے کی کوشش نہیں کی تو اپنی اولاد سے اچھے اعمال کی توقع بھی چھوڑ دیں ۔

تربیت میں گھر کی چار دیواری کے اندر موجود تمام افراد کے کردار اور رویوں کا دارومدار ہے۔یہ وہ کام کاج کی ذمہ داری نہیں کہ گھر کے چار لوگ گند ڈالتے رہیں گے اور ایک عورت کا کام ہے کہ وہ ہر وقت اسے سمیٹتی رہے۔گھر کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح کا برتاو کرتے ہیں،کس قدر کردار اور اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں،اچھے اور برے حالات میں اور اچھے اور برے مزاج میں کس طرح سے ردعمل دیتے ہیں یہی تربیت ہے۔

_______________

صوفیہ کاشف

1 Comment

  1. In the words of Pope John Paul II [Confessions – March 7, 1981]:

    “What are the characteristics of youth today?

    — It is a critical youth which, having considerably increased its cultural assets, is logically led to think more, to reflect, to judge;
    — It is a demanding youth which, though it may sometimes exaggerate and succumb to personal selfishness, wants and claims honesty, truthfulness, justice and consistency;
    — It is a youth that suffers from the contradictory nature of the ideologies that impinge upon it, and from the continual emptying of ideals which it witnesses;
    — It is a questioning youth which wants to account for what is happening, which looks for the meaning of its own life and the significance of the history of man and of the whole universe, which invokes certainty and clarity on its own destiny and with regard to its own conduct;
    — It is a youth anxious for truth, ideals for which to live, responsibility, moral beauty, innocence and joy.”

    Like

Leave a reply to Legacy of Thoughts Cancel reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.