پاکستانی غریب ہیں کیا؟

کیا پاکستان غریب ملک ہے؟ہو سکتا ہے،ایک ریاست کے طور پر یہ یقینا غریب ہے مگر پاکستان میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جن کے پاس بے تحاشا پیسہ ہے اتنا کہ اگر شاید ان کے اپنے نام پر ہو تو وہ ساری دنیا کے امیر ترین افراد کو پیچھے چھوڑ جائیں۔لیکن چونکہ ہمارے ہاں دولت ہزار ہزار اکاونٹوں میں ہزار ہزار ناموں سے بانٹ کر رکھنی پڑتی ہے،چھپانی پڑتی ہے،اس لئے بھی کہ سرکار ٹیکس نہ مانگ لے،اس لئے بھی کہ لوگ نظر نہ لگا دیں، چناچہ دنیا میں چرچا نہیں ہو پاتا اور ہم کبھی بھی ان ناموں میں شامل نہیں ہو پاتے۔ورنہ شاید سچ تو یہی ہے کہ بیس کروڑ عوام کی غربت شاید صرف چند خاندان یا یہی سارے اپنے لوگ آسانی سے ختم کر سکتے ہیں۔مگر جو دولت چھپا کر رکھی جاتی ہے ظاہر ہے وہ کسی سے بانٹنے کے لئے نہیں ہے،چناچہ ہمارے غریب کے لئے بل گیٹس کو ہی سوچنا پڑتا ہے۔

دبئی اور ابوظہبی میں یا کسی بھی گلف ملک میں رہ کر جہاں تیل کی کرامات اپنے جوبن پر ہوں ہم ہمیشہ دیکھتے رہے کہ لوکل عوام کے پاس کسقدر پیسہ ہے۔دنیا میں عرب ممالک کی امارت اور ان کے لوگوں کی دولت کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ان کی امارت کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں۔عرب امارات نے اپنے ہر نوجوان اور ہر عورت کو اچھی تنخواہوں کے ساتھ نوکری دے رکھی ہے،وہاں اپنے عوام میں مفت پلاٹ اور گھر بانٹے جاتے ہیں ،بڑے بڑے قرضے دے کر معاف کر دیے جاتے ہیں۔دفاتر میں پڑھا لکھا یا انپڑھ سب کو سرکاری نوکری مل جاتی ہے چاہے اسے فائل پکڑنے کے لئے بھرتی کیا جائے،کاغز آگے دینے کے لئے یا فوٹو کاپی کے لئے ۔ہر طبقے کے لئے وافر نوکریاں موجود ہیں اور ان نوکریوں پر اپنے لوکل افراد کو ہمیشہ ترجیح دی جاتی ہے۔پھر ایک درہم بھی تقریبا پچاس روپے کا ہے تو ہمارے پاکستان انڈیا اور بنگلہ دیش کے افراد بھی کم تنخواہیں پانے کے باوجود اپنے ملکوں میں کھاتے پیتے افراد میں شامل ہو جاتے ہیں کیونکہ ان درہموں میں ہمارے بہت سے روپے اور ٹکے آ جاتے ہیں۔

لیکن اگر ملک سے باہر رہ کر درہم ،ریال، ڈالر یا یورو کما کر آپ کو لگتا ہے آپ پاکستان کے امیروں سے ذیادہ امیر ہو گئے ہیں تو آپ کی غلط فہمی ہے۔

دبئی ابوظہبی،جدہ قطر،بحرین،ٹیکساس،ہوسٹن،مانچسٹر، میں رہ کر نوابوں کی طرح رہنا کوئی کمال نہیں کہ چم چم کرتی سڑکیں اور محفوظ رہائشی علاقے خود سرکار اپنے خرچے پر بناتی ہے۔سیکورٹی ،بجلی، پانی ایک معاوضے پر یا مفت میں آپ کو مل جاتا ہے۔ہر نکڑ پر شاپنگ مال ہے جہاں دنیا کی مہنگی سے مہنگی اور سستی سے سستی چیز مل جاتی ہے۔

کئی کئی سالوں تک درہم ،ریال،اور ڈالر جوڑ کر پاکستان میں گھر بنانے والوں اورسیز کو کیا پتا کہ پاکستان میں لوگ اپنی سڑکوں، گلیوں اور سیکورٹی کے پیسے خود بھرتے ہیں اور اس کی خاطر بحریہ ٹاون،ڈی ایچ اے یا ہائی سیکورٹی مہیا کرنے والے علاقوں میں کروڑوں کے گھر لیتے ہیں۔خرچ کر کےکئی کئی باڈی گارڈ رکھتے ہیں تا کہ جہاں بھی جائیں ان کی حفاظت کا بندوبست ہو سکے اور یہاں یہ ناجائز بھی نہیں۔صریحا حلال بھی ہے اور قانونی بھی،اس سے معاشرے اور دوسری عوام کے حقوق تلف بھی نہیں ہوتے۔گھروں کے اوپر لاکھوں کے سولر سسٹم لگا کر اپنی بجلی خود پیدا کرتے ہیں۔لاکھوں روپے کمانے والے،کروڑوں کے پلاٹ خرید کر ان پر کروڑوں کے گھر بناتے ہیں جن پر شیشہ،پتھر،کموڈ،ٹب،ٹوٹیاں ،درخت،حتی کے گھاس تک کسی دوسرے ملک سے ڈالروں میں خرچہ کر کے منگوا کر لگواتے ہیں۔۔یہ ارب اور کروڑ پتی کلاس روپوں میں کما کر ڈالروں اور یورو میں گھر بیٹھے آن لائین دنیا کی وہ مہنگی ترین برانڈز خرید لیتی ہے جو ان کی نکڑ تو دور کی بات ان کے ملک میں بھی نہیں ملتیں۔بہت سی تصاویر مختلف نامور سیاسی ہستیوں کی صبح شام آپ میڈیا میں دیکھتے ہوں گے جن کا اوپر سے نیچے تک کا تمام پہناوہ ان برانڈز پر مشتمل ہے جن کی ایک ایک چیز لاکھوں رپوں میں ہے،صرف یہی نہیں یہ لوگ کروڑوں کی الیکٹرانکس اور کاریں چار گنا قیمت بھر کر امپورٹ کرتے ہے اور روپوں میں کما کر ڈالروں کے کپڑے جوتے اور بیگز استعمال کرتے ہیں لاکھوں کما کر کروڑوں خرچ کرتے ہیں۔

یہاں لان کا ایک سوٹ پانچ سے دس ہزار میں لینا عام بات ہے اور شادی کے سوٹ پر بیس تیس لاکھ خرچ کرنا معمولی بات۔یہاں ایک رات کے میک اپ پر دس سے بیس تیس ہزار کا میک اپ ہو جاتا ہے۔صرف عورتوں کے بال رنگنے کا خرچ ہی ہر بار غریب کو دے دیا جائے تو شاید پاکستان کی غربت ختم ہو جائے۔یہاں لوگ چھوٹی سی دعوت پر کم سے کم سو دو سو لوگ  ہوٹل میں بلا لیتے ہیں اور ہزاروں لاکھوں کا کھانا ان کو کھلا دیتے ہیں جن کے اپنے گھروں میں پیسہ درختوں سے اترتا ہے۔ہاں ایسے لوگوں کی اکثریت نہیں ہے مگر ان تین شہروں کے پوش علاقوں میں جا کر دیکھیں تو آپ کو بے تحاشا لوگ ایسے ملیں گے جن کے گھروں میں چار چار امپورٹڈ گاڑیاں کھڑی ہیں جب کہ تنخواہیں رپوں میں لیتے ہیں،کم سے کم چار سے چھ ملازم عام ہیں جو مہینے کی لاکھ دو لاکھ تنخواہ لیتے ہیں۔اس کے باوجود ہر دوسرے دن کھانا باہر کھایا جاتا ہے اور ہر دعوت مہنگے ہوٹلز میں ہوتی ہے۔ایسے لوگ جو  دس بیس کروڑ کا گھر رکھتے ہیں !بچوں کی اسکولز میں کم سے کم فی بچہ ماہانہ لاکھ دو لاکھ فیس دی جاتی ہے اور اتنی ہی شام کو ٹیوشن فیس۔بچے کتنے ہیں اس کی پرواہ نہیں۔

دبئی ،امریکہ،برطانیہ میں رہنے والے پاکستان اس لئے آتے ہیں تا کہ ڈالروں کی کمائی سے اچھا بڑا گھر بنا سکیں جو وہ ڈالر دینے والے ملک میں نہیں بنا پاتے۔چناچہ وہ ڈالروں کو روپوں میں بدل کر یہاں بڑے گھر اور بڑی گاڑیاں رکھ لیتے ہیں تا کہ سال میں کبھی کبھار وہ امارت چکھ لیں جو دبئی امریکہ اور کینیڈا میں نہیں چکھ پاتے۔مگر پاکستان میں رہنے والا امیر طبقہ رپوں کی کمائی لے کر شاپنگ کرنے دبئی اور لندن چلا جاتا ہے اور درہموں اور ڈالروں میں لاکھوں کی شاپنگ کر آتا ہے۔یہ کرامات شاید صرف پاکستانی روپے کو حاصل ہے کہ کمزور ترین ہو کر بھی دنیا کی مہنگی ترین مارکیٹ میں شاپنگ کر آتا ہے۔۔صرف یہی نہیں رپوں کی کمائی سے دبئی،امریکہ اور برطانیہ کے مہنگے ترین علاقوں میں بڑے بڑے گھر اور جائیداد بھی لے لیتا ہے یعنی پاکستان میں محض کچھ لاکھ کمائی ہے مگر دبئی اور یورپ امریکہ اور برطانیہ میں جائیداد کئی کروڑ ڈالرکی خرید لی جاتی ہے۔ہمیں تو ساری عمر یہی سمجھ نہیں آتا کہ پیسہ کھایا جائے کہ گھر بنانے کے لئے بچایا جائے۔ایسی برکت والی زنبیلیں جن میں سے لامحدود دولت نکلتی ہےان میں صرف وہی چند نام شامل نہیں جو سیاست کی برکت سے زبان زد عام ہو گئے ہیں بلکہ تقریبا ہر شعبہ اور ہر کاروبار ذندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ عام ہیں جو میڈیا پر اور خبروں میں نظر نہیں آتے۔یہاں ہر شعبے میں مٹی کو ہاتھ لگا کر سونے میں بدل دینے والے ذہین گوہروں کی کثیر تعداد موجود ہے۔اس لئے اس مغالطے سے باہر آ جائیں کہ پاکستان غریب ملک ہے درحقیقت باہر کی دنیا جن کے اکاونٹوں میں ہمارے کروڑوں ڈالر اور درہم چھپے رہتے ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستانی کے پاس پیسہ بہت ہے بس یہ ہے کہ بتانا کسی کو نہیں ہے۔تبھی تو آئی ایم ایف اتنی کڑی شرائط رکھتا ہے کہ شاید سارا پاکستان ہی اندر کھاتے اسی طرح امیر ہے ۔تبھی تو یہاں دیسی سٹینڈرڈ کی چیز ڈالر کی قیمت میں ملتی ہے۔اب کون آئی ایم ایف کو بتائے کہ یہ جادو ہر پاکستانی کے پاس نہیں ہے۔

کمائی اور اخراجات کا تناسب معلوم کرنے کا پاکستان میں کوئی طریقہ رائج نہیں۔

_____________

صوفیہ کاشف

4 Comments

Leave a reply to shahji555 Cancel reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.