چار انچ کی بات_______ سدرتہ المنتہی


۔۔۔

ڈائری میں رکھے تھے
خواب ٹوٹے پھوٹے تھے۔۔
چار حسرتیں باقی
چار سوکھے پتے تھے
خواب ان گنت سارے
خواب ان کہے رہ گئے
اب کہاں بلاتے ہو۔۔۔
راستے نئے بن گئے
پتھروں نے بتلایا۔۔
فاصلے نئے بن گئے۔۔
خواب روٹھ جائیں گے۔۔۔
انکو پھر منالائو۔۔
پھر مجھے بلانا تو۔۔
نیو ائیر کی پہلی رات
پہلا لمحہ جاگے گا۔۔
رات کہاں سوتی ہے۔۔
ہم ہی سوکھ جاتے ہیں
نیند کی منڈیروں پر
کوئلوں کے سپنے بھی
چیخ چیخ جاتے ہیں
لوٹ لوٹ جاتے ہیں
آخری دسمبر سے
آخری دسمبر تک۔۔
تم کو یاد ہے جاناں؟
چار سال پہلے کی
بات وہیں ہے جاناں
ہم ہی چل کر آئے ہیں
لیکن لوٹ کر دیکھو
چار سال پہلے کی
بات وہیں رہ گئی ہے۔۔
رات وہیں رہ گئی ہے
رات کہاں سوتی ہے؟
ہم ہی سوتے رہتے ہیں
ہم ہی جاگتے بھی ہیں
لیکن بس اک لمحہ
جو ذہن کی کاوش سے
دور دور جاتا ہے۔۔
نیند سے بیداری پر۔۔
کسمساتے سوچا ہے
ذہن میں کیا سویا تھا
نیند میں جب ہم تھے تو
تم بھی ملنے آئے تھے۔۔
سچ میں کیوں نہیں آتے؟
خواب کیوں نہیں لاتے؟
جگمگاتے جگنو کی روشنی میں ہم نے بھی۔۔
خواب جگمگایا تھا۔۔
اب مڑو تو اک لمحہ چار سال پہلے کا۔۔
وقت سے چرالانا۔۔
وقت کہاں گزرتا ہے۔۔
ہم ہی گزرجاتے ہیں۔۔
وقت تو وہیں پر ہے۔۔
تم نے جہاں پر گلابوں کی پتیاں بکھیری تھیں۔۔
خوشبوئیں نکھیریں تھیں۔۔
ڈائری کا پہلا ورق۔۔
اب بھی پھڑپھڑاتا ہے۔۔
فاصلہ بلاتا ہے۔۔
وقت کو مٹاتا ہے۔۔
یہ یقین دلاتا ہے
کہ محبت کا آخری لمحہ جو ہے۔۔
آج تک وہ زندہ ہے۔۔
جاگتا ہی رہتا ہے۔۔
نیند بھی نہیں سوتے۔۔
ہم مگر سوجاتے ہیں۔۔
خواب میں بلاتے ہیں۔۔
نئے سرے جگاتے ہیں۔
جو خوشی کا لمحہ ۔۔
ہم سے کھسک جاتا ہے
وقت بدل جاتا ہے
وقت نہیں بدلتا ہے۔۔
وقت وقت ہوتا ہے۔۔
ہم ہی بدل جاتے ہیں۔۔
تو تمہیں میں اس بار
نیو ائیرکے دن پر آملوں تو کہہ دینا۔۔
وقت چاہے بدلے پر۔۔
ہم۔نہیں بدلیں گے۔۔
ہم۔وہیں رہیں گے ۔۔
جہاں ہمارا پہلا دن۔۔
خواب کا سمندر ہے
پیار کا سکندر ہے۔۔
لمحے کا مقدر ہے۔۔
سچ کہاں بدلتا ہے۔۔
ہم ہی بدل جاتے ہیں۔۔
وقت پیار کے لمحے کی
داستان لکھتا ہے۔۔
ڈائری کا پہلا ورق اب بھی پھڑپھڑاتا ہے۔۔
لمحہ وہیں رہتا ہے۔۔
تم جہاں پہ بھول آئے۔۔
میرے سوکھے پتوں کو۔۔
چار انچ خوابوں کو۔۔
پانچ انچ باتوں کو۔۔
ایک انچ وعدے کو۔۔
تین انچ انگلی پر۔۔
لمس نے لپیٹا تھا۔۔
روح کے سبھی منتر۔۔
رقص کی رونق پر
سردیوں کی دہلیز پر
چھوڑکر نکل آئے۔۔
چار سال پہلے کا
وقت اب بھی زندہ ہے۔۔
ہم ہی مرچکے ہیں پر
سال نے تو آنا ہے۔۔
یہ وہی بہانہ ہے۔۔
جس بہانے پر ہم نے
محفلیں سجائیں تھیں۔۔
آخری دسمبر کے بعد کی کہانی پر۔۔
دستخط پرانے ہیں۔۔
ہم مکرگئے ہیں پر
لمحے یاد رکھتے ہیں
ہم نے جو گزار ہے
ساتھ کا سہارا ہے
چار سال پہلے کی رت پلٹ کر آئی ہے۔۔۔
تم بھی لوٹ کر آئو۔۔
ہاں نہیں یہ سارا سال
ایک دن تو مانگا ہے۔۔
ایک رات مانگی ہے
نیو ائیر کی پہلی رات۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔
سدرت المنتہی ‘

1 Comment

Leave a reply to Legacy of Thoughts Cancel reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.