یادوں کے چمکتے سورج______صوفیہ کاشف


فیملی پارک میں سورج ڈھلتے ہم چاروں واک کر رہے تھے۔میں ، میرے میاں صاحب،بیٹا اور بیٹی
ہم دو دو کے جوڑوں میں  واکنگ ٹریک پر آگے پیچھے چلے جا رہے تھے۔اس پارک سے تعلق اب تین سالہ ہو گیا ہے۔کل ڈھلتے سورج کی تصاویر لیتے سوچا اگر میں آج باہر واپس چلے جاوں تو کیا مجھے یہ وقت یاد آئے گا؟
دل نے بہت زور سے کہا
ہاں!”
“یہ پارک،یہ پھول، پودے، صبحیں اور شامیں بہت یاد آئیں گی،خصوصابارش میں بھیگا اور سارا دن تھوڑا تھوڑا بھیگتا رہنے والا شہر یاد آئے گا۔وہ سڑکیں بھی یاد آئیں گی جو بارش سے چمکنے لگتی تھیں اور وہ پھولوں کے کئی رنگوں اور صورتوں پر برستی ہوئی رم جھم،سردیوں کی ٹھنڈی دھند۔۔۔۔۔!”
اسی لئے انکو ریلز میں محفوظ کرتی رہتی ہوں۔ٹھنڈی دھند کا لفظ  آپکو عجیب لگے گا مگر ہم نے ابوظہبی اور دبئی کی گرم موسموں کی دھند دیکھی ہے جو اتنی کثیف ہوتی تھی کہ ایک بار رات میں موٹر وے پر سفر کے دوران روڈ کے اوپر چلتی روشنی تک نیچے سے نظر آنے پر قاصر تھی اور ہماری گاڑی حقیقتا ایک نامعلوم گمشدہ روڈ پر  بند آنکھوں سے بھاگے جا رہی تھی۔
اسکی یاد بھی کسی گم گشتہ خواب کا حصہ لگتا ہے۔۔
اگر میری لسٹ میں انسان نہیں آئے تو اسمیں میرا تو کوئی قصور نہیں۔ہر ہستی اپنی تاثیر رکھتی ہے۔اگر یہاں انسان تاثیر رکھنا بھولتے جا رہے ہیں تو اس میں میرا کیا دوش ہے؟
دھیرے سے ڈھلتا سورج  اور ذمیں کی گود میں اترتی دھوپ تک انسانوں کو یاد رہ جاتی ہے۔صبح کھل کر شام کو مرجھا جانے والے گونگے بہرے  پھول بھی انسانوں کی ذندگیوں میں رنگ بھرتے اور خوشیاں بکھیرتے ہیں
اور ہم ہاتھوں پاوں والے،زبانوں اور کانوں والے انسان ہیں کہ ایک دوسرے کے قریب سے اسطرح بے تاثر،غیریت سے ،بغیر خوشبو اور اجالے کے گزر جانا پسند کرنے لگے ہیں تو اس کا میں کیا بگاڑ سکتی ہوں سوائے اسکے کہ کسی بھی طرح سے اپنی روشنی نہ بجھنے دوں،اپنی خوشبو کو بو میں بدلنے سے روکے رکھوں۔
پھر میری یادوں میں دبئی کا الورقا پارک لپکا۔
یہ تقریبا تین کلومیٹر پر پھیلا ایک بہت ہی وسیع پارک تھا جو میرے گھر کے قریب واقع تھا۔اور یہ کوئی انوکھا پارک نہ تھا،یہ وہاں واقع بہت سے پارکوں میں سے بس میرے گھر کے قریب والا پارک تھا۔یہ اس قدر وسیع تھا کہ سارے الورقا کے لوگ بھی نکل کر آ کر اس میں بیٹھ جاتے تو بھی یہ تنگ نہ پڑتا،کھلا کھلا لگتا اور لوگ اسمیں ایک دوسرے سے بہت دور دور  بیٹھے ہوتے۔ کئی گروائنڈز جھولوں سے بھرے تھے اور بہت سے گھاس،پھولوں  اور روشوں سے سجے بیٹھنے اور پکنک کے لئے تھے۔یہ پارک دو بہت خوبصورت درختوں سے بھرا تھا ایک پر اگست میں لال رنگ کے پھول لگتے اور سارے روشیں بکھرے ہوئے لال پھولوں سے بھر جاتیں۔
دوسرے پر لمبی لڑیوں والی  سفید کلیاں لگتیں جو درخت سے آویزوں اور ہاروں کی طرح لٹکی ہوتیں اور درخت کے نیچے جیسے کلیوں کی لڑیوں کا انبار لگ جاتا۔
۔لوگ گھروں سے گاڑیوں میں پکنک کی میز اور کرسیاں، باربی کیو کا سامان،بچوں کی سائکلیں اور سکوٹیاں لیکر آتے اور کسی ایک کونے میں گول دائرے میں کرسیاں میز سجا کر اپنی محفل جما لیتے خصوصا عرب ممالک کے لوگ جو کئی کئی خاندان ملکر ایسی پکنک منانے آتے۔(ہماری طرح نہیں کہ گراونڈ میں جا کر گھاس پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے)۔
مرد باربی کیو میں  جت جاتے چکن کے ساتھ ٹماٹر،آلو اور شکرقندی بھی کوئلے پر دہکنے لگتی۔
پارک کے چاروں طرف بڑے بڑے احاطوں میں بڑے بڑے گھر تھے۔کچھ تعمیر شدہ تھے کچھ تعمیر کے مراحل میں تھے واک کرتے  دور سے  برج خلیفہ جھلملاتا نظر آتا!
2021 کے دوران اکثر وڈیوز اپنے یو ٹیوب چینل کے لئے میں نے اسی پارک میں بنائی تھیں۔رومی کی کتاب کا  پہلا تعارف بھی وہیں دیا تھا پھر سپر مون کے علاوہ اس پارک کو دکھانے کے کچھ کلپس بھی بنائے تھے۔
2021 میں واپس دبئی جا کر میں نے سوچا اب پھر سے مجھے اکیلے ہی جینا ہے ۔سو میں نے یوٹیوب پر وڈیوز بڑھا دی تھیں کہ چلو اب دنیا اور لوگوں میں رہنے کا یہی طریقہ رہے گا۔مگر وہی پرانی بات،ایک پلاننگ انسان کرتا ہے دوسری خدا،سو خدا پھر سے گھیر گھار یہاں لے آیا۔
دوبئی واپسی کے ایک سال میں کوئی دن شاید ایسا رہا ہو جب ہم سخت گرم اور دبئی کی جھلستی شاموں میں یہاں واک کرنے نہ پہنچے ہوں
پارک کے گرد بنے واک ٹریک کے دو چکر سے چھ کلومیٹر کا فاصلہ طے ہوتا۔بچے ایک چکر لگا کر بیٹھ جاتے میں اور میاں صاحب اسکے دو چکر سپرنٹنگ کے ساتھ واک کرتے ۔ عوام میں صحت مندانہ رحجانات متعارف کروانے کی مہم کا ایک حصہ اگلے ماہ شیخ راشد روڈ پر ہونے والی سائکلنگ ریس تھی جسکی تیاری کے لئے کچھ لوگ یہاں سائکلنگ کرتے دکھائی دیتے۔انکو دیکھ کر میں بھی نیت باندھتی  اگلے سال کے اسی مہینے میں میں بھی اس میں شریک ہونگی!۔
آس پاس ہر قوم اور ہر رنگ کے لوگ ہم سے ذیادہ اچھی واک ،جاگنگ اور سائکلنگ کر رہے ہوتے
  پسینے سے بھیگتے مغرب کے وقت نکڑ کے لاہور پلیٹ ریسٹورنٹ سے چکن روسٹ اور کھیر لیکر گھر لوٹتے۔دبئی کا ایک سال گھر میں کھانا بہت کم بنایا ذیادہ اس ہوٹل کا روسٹ ہی کھایا۔
۔
19 سے پیچھے جائیں تو ابوظہبی میں الشمخا سٹی جہاں 2009 سے میرا گھر تھا۔ایک طرف انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور دوسری طرف صحرا،بیچ میں الشمخا جہاں ایک وسیع علاقے پر عربوں کا طویل و عریض رہائشی علاقہ تھا۔اس سے ملحقہ الفلاح جس میں  میرے میاں صاحب الجابر کے کیو سی مینجر کی حیثیت سے کام کر تے تھے چناچہ یہ علاقہ ہمیں بہت قریب پڑتا،میاں صبح جاتے اور لنچ پر گھر آ جاتے اور بریک کا وقت گزار کر پھر دو بجے آفس چلے جاتے۔الشمخا کیسا تھا؟
جیسا پاکستان میں بحریہ یا ڈی ایچ اے ہوتا ہے
باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ سیکٹرز میں بنا ہوا علاقہ ہر طرف خوبصورت کارپٹڈ سڑکیں،لیمپ پوسٹس،روشنی میں نہائی چمکتی راتیں،سڑکوں کے گرد گھنے درخت،ایک جیسے رنگ اور ڈیزائن کے گھروں کی لمبی لائنیں اور جیومیٹری سے ناپ کر اسطرح ایک جیسا بنایا ہوا علاقہ کہ بندہ الشمخا میں ہی گم جائے،سمجھ ہی نہ آئے کہ یہ کونسی گلی اور کونسا سیکٹر ہے۔وہاں ڈرائیونگ کی کلاسز لیتے اور پریکٹیس کرتے میں خود وہاں پر کئی بار گم چکی ہوتی اگر ساتھ میرے انسٹرکٹر نہ ہوتا۔وہ انسٹرکٹر جو اکیلی عورت کے ساتھ گاڑی میں سمٹ کر بیٹھتا تھا اور گم ہو جانے والے رستوں پر بھی اپنے ہاتھ، ٹانگوں اور انگلیوں کو کنٹرول میں اور اپنی حدوں کے اندر رکھتا تھا ۔وہی کنٹرول جو پاکستان کی سرحد میں ہر کسی کے لئے ایک انجان چیز بن جاتا ہے۔جب قانوں سخت ہوں تو انسان تنہائیوں میں بھی خلاف ورزی سے ڈرتے ہیں۔پاکستان میں لوگوں نے قانون کا نفاز کبھی نہیں دیکھ اس لئے نہ ان دیکھے قانون سے ڈرتے ہیں نہ ان دیکھے اللہ سے!

اسی علاقے کے راونڈ اباوٹس پر ڈرائیونگ کی میں نے اس قدر پریکٹس کی تھی کہ راونڈ اباوٹ جس میں سب فیل ہو جاتے تھے میں اس میں ایکسپرٹ ہو گئی تھی۔لیکن وہ تو ابوظہبی کی بات تھی۔یہاں پاکستان میں نہ ویسے راونڈ اباوٹ ملے نہ یہاں کسی کو راونڈ اباوٹ رولز کا ہی پتا ہے ۔
ڈی ایچ اے اور الشمخا میں فرق صرف یہ تھا کہ ڈی ایچ اے میں اوسطاً ایک کنال کے جڑے گھر ہیں جبکہ الشمخا میں ہر گھر آٹھ کنال کے احاطے میں واقع ہے جسکے اندر ایک سے دو  کنال پر ولا ہے باقی تین کینال لان،اور باغ کی جگہ ہے۔یہ سب وہاں کی حکومت نے اپنے عوام کو مفت دیا ہے۔ہماری طرح انہیں کروڑوں روپے خرچ کر کے  ہاؤسنگ اسکیم سے خریدنا نہیں پڑتا۔
دوسرا فرق سبزے کا ہے ۔ہمارے ہاں محض  خدا کے کرم کی وجہ سے سبزے کی خوب ورائٹی موجود ہے۔چھوٹی سے چھوٹی بوٹی سے برگد اور املتاس کے درخت تک یہاں سب کچھ بڑے کھلے دل سے اگتا ہے جبکہ عرب امارات میں چند مخصوص گہرے رنگ کے درخت اور پودے لگتے ہیں انہیں محدود اقسام  سے وہ ہر جگہ بھر دیتے ہیں۔
ہر سیکٹر میں ایک بڑی مسجد،ایک(گروسری سٹور) بقالا اور دو تین اور ضروری دکانیں،جن سے ملحقہ ایک وسیع پارک۔یہاں  پورے ڈی ایچ اے میں آپکو ایک دو پارک ملیں گے وہاں الشمخا کے ہر سیکٹر میں ایک پارک، جس کے ساتھ ایک فٹ بال کا گراونڈ، ایک باسکٹ بال کورٹ،باربی کیو کرنے اور پکنک منانے کے لئے الگ سے بنے پورشنز اور واک ٹریک موجود تھا۔ بچے ذیادہ چھوٹے تھے وہ باسکٹ بال کھیلتے یا سائکل اور اسکوٹی چلاتے ،آریز چھوٹا تھا کبھی اسکا جھولے جھولنے کو من چاہتا   تو دونوں کو جھولوں والی جگہ پر چھوڑ دیتے اورہم میاں بیوی واک کرنے لگتے۔جانے کتنا پرانا زمانہ ہو گیا ہے یہ، اب سوچتی بھی ہوں تو تھک جاتی ہوں۔ماضی کی طرف جاتے قدم مشکل اور تھکا دینے والے ہیں
ساتھ والے سیکٹر میں مکانی مال جس میں ضرورت کا ہر اسٹور موجود تھا جیسے سپار ہائیپر مارکیٹ،

   میکاجی،اجمل،
leopards of london
,فوڈ کورٹ جس میں پیزا ہٹ
،میکڈانلڈ
،کے ایف سی،
حاتم ،انڈین ہوٹل گازبو _____سمیت بہت سے مشہور نام موجود تھے۔ کافی کا نشہ پورا کرنے کے لئے سٹار بکس بھی تھا جسکی خاطر خاص طور پر اکثر جانا پڑتا
Leopards of london
میں بیٹھ کر
کبھی کبھار کچھ لکھنے کا شوق  بھی پورا کیا ورنہ انکا پیزا اور جوسز تو ہمیشہ کھینچے رکھتے۔
یادیں۔۔۔۔۔۔یادوں تک مڑ کر جانا خاصا تکلیف دہ عمل ہے!
میں بھی یاد تک پہنچتی ہوں تو گمشدہ ہو جاتی ہوں!
اب یہاں وہ کافی شاپ نہیں ملتے تو کافی شاپ میں بیٹھ کر کام کرنے کی عیاشی بھی نہیں ملتی
جیسی بھی کلاسی جگہ ہو عجیب و غریب رویے دیکھنے کو ملتے ہیں،ہمارے لوگوں کو کلاسی کا مطلب سمجھتے بھی ابھی بڑا وقت درکار ہے !
مزے کی بات یہ تھی کہ اسی الشمخا کو جہاں دنیا کی ہر بہترین چیز میسر تھی ہم ابوظہبی کا گاؤں کہتے تھے
شہر وہ تھا جہاں پچاس سے سو منزلہ بلند عمارتوں کی لمبی لائینیں تھیں،سڑکوں پر نیویارک کا گماں ہوتا تھا ۔ اب میں پاکستان کے صدر مقام پر رہتی ہوں جہاں سٹار بکس سمیت  دنیا کی ہر اچھی اور معیاری چیز  قطعی نہیں ملتی!
کچھ گنتی کی چیزیں کچھ سپراسٹورز سے مل جاتی ہیں جنکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور وہ بھی اکثر ایکسپائرڈ ملتی ہے۔
میری قریبی فیملی ابھی بھی  یورپ،امریکہ اور دبئی میں مقیم ہے۔کبھی سوچتی ہوں ان سے کچھ منگوا لوں،پھر سوچتی ہوں کیا کچھ منگواوں گی؟ گھر کی اور ذندگی کی ہر چیز تو نہیں منگوا سکتی، نرم ٹوٹھ برش سے لیکر اچھے ٹوتھ پیسٹ  تک، جراب سے لیکرکپڑے جوتے تک،بسکٹ سے جوس اور کیک تک،،،کیا کچھ منگوالوں!

چار و ناچار پھر کچھ نہیں منگواتی۔بس لسٹ میں لکھتی رہتی ہوں۔انشاءاللہ خود جاوں گی تو لے آوں گی!امید میری سہیلی ہے اچھا بہلائے رکھتی ہے!

_____________

صوفیہ کاشف

4 March 2025

2 Comments

  1. دوبئ ابوظہبی میں سورج آگ اگلتا ہے۔ سب مصنوعی ہے۔ نیچر کو انجوائے کرنا ہے تو سینٹرل پارک مینہیٹن یا کینیڈا کے کسی گاؤں کا وزٹ کریں اور قدرت کے رنگ دیکھیں پھولوں پتیوں درختوں اور جھیلوں میں جہاں آپ کو چپے چپے پر حلال پزہ سٹار بکس ٹم ہورٹن ملے گا۔ دیسی فوڈ کے بیت زیادہ ریسٹورینٹ ہیں جہاں کا کھانا لاہور بھلا دے گا سب سے بڑی بات مڈ نائیٹ کو گوری لڑکیوں کو اپنے کتے کے ساتھ اکیلے واک کرتے دیکھا ہے فل ٹائم جاب بھی کرتی ہیں اور سٹڈی بھی۔ مولی خوش واباد رکھے!

    Liked by 1 person

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.