لاہور_______طیب رضا کاظمی

 

ایسا اکثر ہوتا ہے

‎ میں ٹورونٹو کے کسی کوچے میں مڑتا ہوں

‎ اور بحیرہ عرب کی گرم لہریں

‎ میرے پیروں سے ٹکرانے لگتی ہیں

‎ طبیب ضعفِ قلب کی دوا تجویز کرتا ہے

‎ایک دفعہ راک فیلر سنٹر سے

‎ انچاسویں گلی کوفے میں جا نکلی

‎ پھرنجف ۔۔۔

‎ کربلا تک میں پیدل چلا

‎ لیکن ایسا ایک ہی مرتبہ ہوا

‎ راسخ العقیدہ اسے ایمان کی کمی گردانتے ہیں

‎یہ کم لوگ جانتے ہیں

‎ کہ ہارورڈ یارڈ کا ایک دروازہ ٹیکسلا میں کھلتا ہے

‎ جہاں خرادیے شاگردوں کے بچپن کو

‎ آہنی سریے سے پیٹتے ہیں

‎ جب ننھے ہاتھوں سے کوئی اوزار نیچے گر جاتا ہے

‎ نیلے آنسو میرے اندر گرنے لگتے ہیں

‎آئیفل ٹاور سے لوور کے راستے پر

‎ مجھے تاج محل دکھائی دیتا ہے

‎لیکن ٹکٹ نہیں ملتی

‎ سین میں چلنے والے سٹریمر

‎ سندھ کے راستے جمنا نہیں پہنچ پاتے

‎ بیچ میں ہمالیہ آ جاتا ہے

‎ میں لڑنے لگتا ہوں

‎تھکن سے چور، نڈھال

‎ میں کہیں بھی سو جاؤں

‎ میری آنکھ ، ہمیشہ

 شہر لاہور میں کھلتی ہے

 

(طیب رضا کاظمی)

 

1 Comment

  1. ہے

    ‎ایک دفعہ راک فیلر سنٹر سے

    ‎ انچاسویں گلی کوفے میں جا نکلی

    ‎ پھرنجف ۔۔۔

    ‎ کربلا تک میں پیدل چلا

    من كنت مولى على مولى 🫡

    Like

Leave a reply to shahji555 Cancel reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.