ڈوبتا سورج

میں سوا چار کے قریب گھر سے نکلی۔سوچا آس پاس کی سڑکوں پر پھر کر آخری ڈوبتے سورج کی کچھ تصاویر لوں گی۔مگر جس روڈ پر اتری اس پر پاوں کے نیچے چرمراتے پیلے  میپل  کے پتے تو بہت بکھرے پڑے  تھے مگر سورج گگا مال کے پیچھے چھپ گیا تھا۔

تقریبا یہ پورا ہی سال گھر کے اندر ہی گزر گیا تھا۔اور سال جب گھر کے اندر ہی گزر جائے تو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا باہر آندھی ہے کہ بارش ہے، مصر ہے کہ سوئٹزر لینڈ۔جب تک انسان چاردیواری کے اندر رہتا ہے،اندھا ،بہرہ اور اپاہج  ہی رہتا ہے۔
اللہ نے اپنی سب سے بہترین مخلوق کو اتنی بڑی دنیا میں  اتارا تھا مگر وہ اپنے لئے چاردیواریاں بناتا ،حدودوں کو محدود کرتا چلا گیا۔اور آج یہ حال ہے کہ سترہویں صدی سے
اکسویں صدی  میں داخلہ پاسپورٹ اور ویزا مانگتا ہے۔

یہ سچ ہے کہ کچھ ملک اکسویں صدی میں داخل ہو چکے  ہیں۔مگر ہمارا دیس انکی لسٹ میں نہیں آتا۔ ہم سب نے تختی تو اکسویں کی ہی لگا رکھی ہیں مگر درحقیقت اٹھارویوں انیسویں کے قریب ہی رکے کھڑے ہیں۔۔۔۔۔سو کنویں کے اندر رہنے والے کو باہر کتنے موسم اور کتنے سال اور صدیاں گزر جائیں کیا فرق پڑتا ہے۔
زرد پیلے پتوں پر چلتی  ڈوبتا سورج ڈھونڈتی کئی گلیاں مڑتی آخر ایک جگہ سورج کی کچھ جھلک دیکھ سکی۔ جہاں میں رہتی ہوں وہاں پہلے پہاڑیاں تھیں چناچہ سڑک شروع اونچائی سے ہوتی ہے اور ختم  ہوتے ہوتے گہرائی میں  اتر جاتی ہے۔اوپر چڑھنے کے لئے پھر کسی دوسری سڑک پر مڑنا پڑتا ہے۔

اور یہ تو آخری سورج کا تعاقب تھا۔ڈوبتا سورج بھی کوئی پہلے دن کا نہیں سال بھر کا تھکا ہارا ، اپنے فرائض نبھاتا بوڑھا ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔ اب کم کم نکلتا تھا، دیر سے آتا،خموشی سے اپنی موجودگی کا احساس دلائے  بغیر لرزتا کانپتا دوسری طرف اتر جاتا تھا۔  اس بزرگ کو  آج غروب ہو کر اپنے گھر جا نے اور1 لمبا تان کر سو جانے کی جلدی تھی۔
جب تک میں گاڑی نکال کر سب سے اونچی سڑک پر پہنچی 2024 کا  سورج خالی شفق چھوڑ کر خود گہرئیوں میں اتر چکا تھا۔۔۔۔۔۔کبھی لوٹ کر نہ آنے کے لئے!
کبھی ہمارے دن کا اختیتام بھی  سورج غروب کے ساتھ ہی   ہو جاتا تھا۔  اگلے دن کا آاغاز صبح سورج نکلنے  سے ہوتا۔اسکے بیچ  کے فاصلے میں صرف نیند تھی، سکوت تھا اور سورت الناس اور سورت الفلق کا وجود تھا۔
افسوس فرنگی نے وقت کی پیمائش کرتے دن اور رات کی بڑی بڑی اکائیاں توڑ کر چھوٹے چھوٹے چوبیس حصوں میں بدل دیا جس سے انسان  گھڑی کی سوئیوں سے بندھ کر رہ گیا۔۔پہلے رات ہوتی تو بس سب کچھ چھوڑ کر سونا ہوتا تھا
اب رات نہیں ہوتی چھ بجتے ہیں ،سات بجتے ہیں، آٹھ بجتے ہیں،

مگر رات نہیں بجتی!
اور
پھر آدھی رات کو بارہ بج کر گھنٹے بجنے لگتے ہیں کہ لو نیا دن شروع ہو گیا۔سونے والے ابھی سوئے بھی نہیں کہ نیا دن اپنی زمہ داریاں  لے کر آن موجود ہوتا ہے۔  اکائیوں نے نے بیچ کی رات کو گھڑی کی   گنتی میں شامل کر کے انسان کو اسکے سکون اور آرام سے محروم کر دیا ہے۔
رات ہوتی ہے، جسم دکھتے ہیں، ذہن تھکتے ہیں مگر آسیب زدہ دماغ سو نہیں پاتے کہ آس پاس گھڑی چل رہی ہے جسکے ساتھ بندھا  انسان بھی چلتا رہنے کا عادی ہو گیا ہے۔
گھڑی کہیں رکے گی نہ  اشرف المخلوقات کو اشرف ہونا نصیب ہو گا۔اشرف المخلوقات ہونا بھی ایک بڑا عذاب ہے جس میں آج کا انسان بری طرح پھنس کر رہ گیا ہے۔۔۔۔ترقی،ترقی؟ترقی۔۔۔۔۔آخر کتنی ترقی؟ اپنے عقل وشعور کے نقصان کے ساتھ آخر اور کتنی ترقی۔۔۔۔۔
سو اگلا دن تو صبح صادق کے ساتھ نکلے گا مگر  گھڑی اسکے لئے بارہ بجے  جگائے گی اور آدھی رات کو کہے گی مبارک ہو نیا دن چڑھ آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی مغالطے نے نسلیں آسیب زدہ کر دی ہیں۔وہ گھڑیاں بنانے والے خود تو شرابیں پی کر جب چاہے جیسے چاہیں سو جاتے ہیں ہمارے جیسے بیچ کے لوگ مفت میں اپنی راتیں اور اپنی نیندیں گنوا بیٹھے ہیں۔اب بے وقت کی نیند پوری نہیں پڑتی۔ دن کی نیند سے تھکاوٹ نہیں اترتی  نہ ذہن ہی تروتازہ ہو پاتا ہے۔بنی نوع انسان کی نسلیں نہ سونے کی وبا کا شکار ہو کر  دماغی امراض میں دھنستی جا رہی ہیں۔
One hundred years of Solitude
میں جب انسومینیا یعنی نہ سونے کی بیماری وبا بن جاتی ہے تو  مکاندو میں ترقی تو خوب اترتی ہے کہ سب کے سب دن رات کام میں مصروف ہو جاتے ہیں
مگر فرق یہ پڑتا ہے کہ سارے کا سارا مکاندو اپنے دماغوں پر، مزاجوں پر اور یاداشت پر اختیار کھو بیٹھتا ہے۔
ہم بھی گھڑی کے ساتھ بندھے گھومتے رہنے پر مجبور ہوتے آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اندھا دھند صدی میں آ پہنچے ہیں۔اور اب ایسا ہے کہ  پاگل ہو چکوں کی تعداد اسقدر بڑھ چکی ہے کہ کوئی سمجھ ہی نہیں پاتا کہ سب پاگل ہو چکے۔دیکھنے سوچنے سمجھنے والے سب کے سب اپنے حواسوں کے آخری
سانسوں میں ہیں مگر سمجھ نہیں پاتے
کہ کوئی دیدہ بینا ہو تو ہاتھ پکڑ کر روکے اور سمجھائے
کوئی  میلقیادیس آئے جو انکو پکڑ پکڑ کو سونے کی دوا دے کہ یہ حواسوں میں آئیں۔۔۔

تو یہ آخری سورج بھی اس خوبصورت شہر کے بڑے بڑے مالز اور عمارتوں کے پیچھے خموشی سے ڈوب گیا۔ اور دو ہزار پچیس میں داخل ہونے کے لئے ہمیں تنہا چھوڑ گیا۔۔۔
صوفیہ کاشف
31 دسمبر 2025
اسلام آباد

(ٹائیٹل تصویر  پرانی اور دبئی کی بے  چونکہ بلاگ پر مزید تصاویر کی گنجائش نہیں ہے)

7 Comments

  1. صوفیہ، آپ کی کہانی واقعی بہت خوبصورت اور دل کو چھو لینے والی ہے! آپ کی تحریر میں الفاظ کا انتخاب، جذبات کی گہرائی اور بیان کی روانی بےحد متاثر کن ہے۔ ایسے ہی لکھتی رہیں، آپ کی تحریریں قارئین کے دلوں میں جگہ بناتی رہیں گی۔ بہت داد!

    Like

  2. جب تک میں گاڑی نکال کر سب سے اونچی سڑک پر پہنچی 2024 کا سورج خالی شفق چھوڑ کر خود گہرئیوں میں اتر چکا تھا۔۔۔۔۔۔کبھی لوٹ کر نہ آنے کے لئے——واہ واہ واہ

    Like

Leave a reply to sofialog Cancel reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.