داستان چھوڑ آئے___________صوفیہ کاشف

میں نے اسے جانا  جب میں نوے کی دہائی میں  ہائی اسکول میں تھی
۔ہمارے شہر میں اور ہمارے زمانے میں نوے کی دہائی میں ابھی گریڈز اور اولیولز نہیں پہنچے تھے۔یہی کوئی تیس سال پہلے صرف مڈل اور ہائی اسکول ہوتے تھے جن میں سرکاری سلیبس پڑھایا جاتا تھا۔
ہم بھی وہی پڑھتے تھے

میں شہر کے سب سے بڑے سرکاری اسکول میں پڑھتی تھی جو اس چھوٹے سے شہر کے بالکل مڈل میں واقع تھا۔اس میں کئی برآمدے، کئی کئی گیلریاں اور کئی کئی کھیلنے کے میدان تھے.اسکول کے اندر ہی ہاسٹل اور اندر ہی کئی کئی اساتذہ کی رہائش بنی تھی۔ اان براومدوں اور گیلریوں کے سامنے طویل تر سیدھی سڑکیں
اور ہم اتنے کم عمر کہ ان رستوں پر گم سکتے تھے
ا
گیٹ سے کلاس تک پہنچتے تھک جاتے تھے

وہ بھی وہیں تھی۔
لیڈی ڈیانا کٹ ،معصوم بھولا دلنشیں چہرہ، اس سے دوستی کو کئی لڑکیاں ترستیں۔
ایسے اسکول میں جہاں سب مکمل اردو یا پنجابی ملی اردو میں بات کرتے وہ انگلش کے الفاظ استعمال کرتی نظر آتی۔
ہم نویں میں تھے! جب اسکول کے ایک  سالانہ تقسیم انعامات فنکشن کے لئے تیاریاں ہونے لگیں۔ضلع بھر کے اسکول اکٹھے ہونے تھے۔
ہاسٹل میں ڈرامے کی  شوقین طالبات اور اساتذہ اکٹھی ہونے لگیں۔ایک استاد لڈی کروا رہی ہے،دوسری گدا کی پریکٹس۔
نوے کی دہائی میں ٹیپ ریکارڈرز چل رہے ہیں۔چھوٹی چھوٹی لڑکیاں پریکٹس کے ساتھ ساتھ گپیں  لگا رہی ہیں بغیر ضرورت  جھوم بھی رہی ہیں ، مزے  کر رہی ہیں جو یقینی طور پر عام حالات عام دنوں میں سرکاری اسکول کے اندر ایک ناقابل معافی  حرام حرکت مانی جاتی تھی
شاید اب بھی مانی جاتی ہو گی۔
وہیں لڑکیوں کا ایک گروپ لڈی کی پریکٹس میں ناکام ہو گیا ہے۔انکی استانی کا کہنا ہے اب کوئی ٹیبلو کرو

کوئی کشمیر سے متعلق ٹیبلو کرو
کشمیر سے متعلق کوئی بھی کام کرنا ہماری سرکاری ذمہ داری ہوتی تھی
آگے رہنے والی  لڑکیاں  کئی آئیڈیاز کے ساتھ اکٹھی ہیں

وہ آجکل ایک نغمہ چل رہا ہے
اے دنیا کے منصفو!
اس نے کہا تھا!
دوسری بولی ہاں اس پر بناتے ہیں
وہ،  استانی اور ایک اور لڑکی ڈسکس کرتے گئے ،خاکہ بنتا گیا
کرداروں کی بھرتی ہونے لگی۔

ماں کے سامنے تڑپ تڑپ کر بیٹا مرا

ایک بچی ماں بنی۔ایک بچی مرا ہوا بیٹا بنا دی گئی

بھائی کے سامنے تار تار بہنوں کی ردا

عائشہ بہن بنی اور وہ اسکا بھائی بنا دی گئی

وجہ گوری چٹی، سارے لمبے بالوں والی لڑکیوں میں اسکی لیڈی ڈیانا کٹ لڑکا بننے کے لئے فٹ

میں ۔۔۔میں کہاں تھی؟ بتاتی ہوں۔۔۔۔۔

فنکشن کا دن آیا
سب کے سب طے شدہ کرداروں کےملبوسات میں
وہ اپنے بھائی کے نیلے رنگ کے کلف لگے  مردانہ شلوار قمیض میں
فنکشن ہوا،لڈیاں ہوئیں،ڈانس ہوئے،ٹیبلو بھی ہو گیا
بہت سارے اسکولز کی ٹیمیں اور اساتذہ، ہمارا سارا اسکول موجود۔
وہ  کشمیر ٹیبلو تیسرا انعام جیتا
مگر شہرت کا پہلا انعام اس کشمیری بھائی کے حصے میں آیا جس نے نیلا کرتا شلوار پہن رکھا تھا۔

اتنا خوبصورت نفیس لڑکا آج تک کسی لڑکی نے اپنے آس پاس نہ دیکھا تھا
سب اسے جنید کے نام سے پکار رہے تھے
کیوں؟ اسکے جیسا ایک ہی نام انکے ذہن میں آتا تھا جنید جمشید
اور گروپ کی لڑکیاں سبکو تاثر دے رہی تھیں کہ وہ واقعی لڑکا ہے
!
چناچہ وقتی طور پر،مذاق مذاق میں اس دن وہ جنید ہوئی
اگلے کئی دن لڑکیاں جنید کو ڈھونڈتی پھریں
ہر کسی کو اس سے ملنا ہے،کوئی چھپ چھپ کر دیکھ رہی،کوئی دیکھ دیکھ آہیں بھر رہی۔کوئی دوستی کی خواہش لئے پھر رہی
شروع کے کچھ دن تو شہرت بہت اچھی لگی
اسکول میں ہر وقت کوئی ملنے کو تیار
پھر اسکی تینوں دوستوں بیزار ہو گئیں

اسکی تو فین ہی نہیں پیچھا چھوڑتیں۔۔۔۔
وہ دوست نہ چھوڑ سکتی تھی
وہ بھی ایسی شہرت سےتھکنے لگی جسمیمں سانس لینے کی جگہ نہ تھی
بندہ مسکرا مسکرا بھی تھک جاتا ہے

اور پھر  وہ سب سے چھپنے اور بھاگنے لگی ۔
وہ   ڈیانا کٹ  اس نے پھر کبھی نہ کروائی تھی۔
اس نے بالوں کا انداز بدل لیا اور جنید کا گلہ گھونٹ  دیا ۔
کسی نے کہا ” تم میں لڑکیاں لڑکا دیکھنے لگی ہیں۔

اس  فقرے نے اسکی آنکھیں کھول دیں
میں  لڑکا نہیں ہوں،لڑکی ہوں!
میں جنید نہیں ،میں صوفیہ ہوں!”
اوراب مجھے میرے حوالے سے پہچانا جانا چاہیے۔
ہاں وہ میں ہی تھی۔

میں وہ  کول  لڑکی تھی جس نے صرف شہرت اور مقبولیت کی خاطر اپنے سکون کا  سودا نہیں کیا تھا
تب بھی جب میں محض تیرا چودہ برس کی  بھولی بحالی بچی تھی

میں وہ مقبول ترین لڑکی تھی جو کئی وجوہات کی وجہ سے ہر دور میں اسکول اور کالج میں  مقبول رہی تھی۔
خوبصورتی۔ایک بار کلاس میں  نام نہاد سا مقابلہ حسن ہوا تو ملکہ حس کا ٹائیٹل ہزار پندرہ سو لڑکیوں میں سے مجھے مل گیا

اسکول کی لڑکیاں روک روک پوچھتیں “ آخر آپکے چہرے پر اتنی معصومیت کیوں ہے؟”

اور یہی معصوم اتنی بہادر کہ اسکول کے زمانے میں تیرا چودہ سالہ عمر میں رومانوی شاعری لکھتی۔شاعرہ مصورہ !
اس اسکول کی چھوٹی سی ایک دنیا میں میری مقبولیت کے کئی رنگ تھے جب نہ ا نسٹا تھا نہ فیس بک ۔
ہر لمحہ کا کیمرہ نہ ہر لمحہ کا سوشل میڈیا!
گر جو یہ آجکا زمانہ ہوتا تو کیسا رنگ برنگے ہوتا
مگر جس نے دیکھا ہے اسے خبر ہے تب بھی اس سے ذیادہ ہی حسین تھا۔کیا ہوا اگر ساری دنیا نے دیکھا نہیں
میں نے دیکھا ہے
میں نے اس ذندگی کو جییا ہے اچھے اور برے تمام رنگوں کے ساتھ
اگرچہ بہت گئے دنوں کی بات ہے
مگر میں نے دیکھی ہے!

۔———–
اب میں ایک بورنگ ماں ہوں جسے کوئی بات سمجھ نہیں آتی،جو اپنی نوجوان بیٹی کے مسائل سمجھ نہیں پاتی۔
ہمارے بچوں کو لگتا ہے ہم انتہائی  بورنگ لوگ ہیں جنہوں نے ذندگی میں کوئی رنگ کوئی خواب،کوئی جزبہ،کوئی چوٹ کوئی زخم نہیں دیکھا
ہم صدیوں سے اتنے ہی بور اور بیکار لوگ رھے ہیں۔
وہ نہیں سمجھ پاتے کہ ہم تو بچوں کو بناتے بناتے اتنے بیکار ہو گئے ہیں
.
بی اے انگلش کی کلاس میں سٹیج پر امجد اسلام امجد کی نظم پڑھی
کیا ہی ڈوب کر شاعری پڑھتے تھے
ایک ایک لفظ پر روح اتر آتی تھی
اب ذندگی میں اتنے ڈوب چکے ہیں کہ تیرنا تک بھول گئے
شاعری کی کتابیں کوئی گم گشتہ محبت بن کر الماری کے ایک کونے میں پڑی رہتی ہیں۔کون کھولے،کون خواب اوڑھے زخموں کو کھرچے
ذندگی کی تیز دھوپ نے خواب دیکھنے والی آنکھیں اندھی کر چھوڑی ہیں۔اب نظم سمجھ میں آتی ہے،نہ الفاظ یاد کرنے کا وقت ہی ملتا ہے
محبت کرنے والے
ندگی جب کاٹ چکتے ہیں
تھکن کی کرچیاں چنتے
وفا کی اجرکیں پہنےسمے کی رہگزر کی آخری سرحد پر رکتے ہیں
تو کوئی ڈوبتے ساندوں کی ڈوری تھام کر
دھیرے سے کہتا ہے۔۔
یہ سچ ہے ناں ____
ہماری ذندگی ایک دوسرے کے نام لکھی تھی
دھندلکا سا جو آنکھوں کے قرب و دور پھیلا ہے
اسی کا نام چاہت ہے
تمھیں مجھ سے محبت تھی
تمھیں مجھ سے محبت ہے!
میں کلاس کے اسٹیج پر پڑھ رہی تھی

سب نے خوب سراہا۔ایک کلاس فیلو نے کہا” میں تو تمھارے تاثرات ہی دیکھتی رہی،ایسی ڈوب کر پڑھتی ہو”
ہاں ۔۔۔۔وہ جو ڈوب کر پڑھتے تھے
وہ لوگ وہم و خیال ہوئے!
آج جو لوگ باقی ہیں
وہ وہ نہیں کچھ اور ہیں
انکو ہاتھ نہ لگاو
انہیں مت چھیڑو!
!

گریجویشن کا مشاعرہ تھا۔سامنے سارا گرلز کالج بیٹھا تھا
پورا گراونڈ لڑکیوں سے بھرا تھا
اوپر سٹیج پر ہم تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے
اردو ادب کی ہیڈ آف  ڈیپارٹمنٹ ضدارت کر رہی تھیں

پرنسپل صاحبہ مہمان خصوصی تھیں
میں  انگلش ادب سے تھی
میں نے اپنی نئی غزل پڑھی

جو تعبیر نہیں رکھتے وہ خواب کیوں آتے ہیں
مسافر کے رستے میں سراب کیوں آتے ہیں
حاصل نہیں وہ مسافر تو کھو کیوں نہیں جاتا
گر ملنا ہے تو الجھانے حالات کیوں آتے ہیں

سارا کالج تالیوں سے گونج اٹھا
اتنی تالیاں اتنی تالیاں
میڈم کو کہنا پڑا
ایک بار پھر پڑھ دیں
مقرر ہوا
اگلا شعر پڑھا
اسی خدا کے بندے ہیں گر یہ محنت کش بھی تو
ہاتھوں میں لے کر کوڑے نواب کیوں آتے ہیں
پھر تالیاں
اور تالیاں
پھر  پرنسپل کو مقرر کہنا پڑا
گوشت کا ہی ٹکرا ہے گر یہ ننھا سا دل
اس معصوم پر  نہ جانے عذاب کیوں آتے ہیں

تالیوں کا شور ایک دفعہ پھر پاگل ہونے لگا
پرنسپل کے پاس مقرر کروانے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا

پر صوفیہ سلو نہ تھی۔
ہر فقرہ پہلے سے اگلے لیول کا تھا۔

اک جیسے جب چہرے ہیں،اک جیسے دل دماغ
اس دنیا میں کچھ لوگ پھر نایاب کیوں آتے ہیں۔

اگر وہ لان تھا تو پھٹ پڑا۔ لڑکیاں تالیاں بجا بجا پاگل ہو گئی تھیں اور ٹیچرز مقرر کروا کروا۔
میں نے صحیح معانی میں وہ مشاعرہ لوٹ لیا تھا
تو وہ جو قافیے جوڑتی تھی ،لہریں بناتی تھی
،
جسے کیمسٹری کے فارمولے جوڑنے  سے ذیادہ دلچسپ لفظوں کا وزن برابر کرنا لگتا تھا
جسے ایک لائن پر دوسری لائن لگانا دنیا کا سب سے اہم کام لگتا تھا۔
وہ شاعرہ گریجویشن کے ساتھ فنا ہو گئی
میرا شاعرہ ہو نا بہت  بڑا عذاب تھا۔اردگرد آدھے درجن بہن بھائی تھے
اور گھر کی چار دیواری میں جہاں لڑکی کا شاعری پڑھنا ہی گناہ تھا وہاں میں شاعری کرتی تھی
میں کتنی بڑی مجرم تھی
چناچہ مجھے ہر بار مجبور کرنے کے لئے شاعری کا طعنہ دیا جاتا
وہی بہن بھائی جو مجھ سے فرمائش پر شاعری لکھوا کر لے کر جاتے ،دھمکیاں بھی دیتے
ابھی دکھاتی ہوں ابی کو”

ایک دن بس ہو گئی
میں نے چولہے پر رکھ کر شاعری سے بھرے اپنے تین چار ڈائری نما دیوانوں کو آگ لگا دی
کوئی چار سو پانچ سو کے قریب نظم اور غزل
نئی اور پرانی
سب جلا دی
“جاو اب بتا دو!”
استحصال کی حد ہو گئی تھی
اجلتی شاعری کے سرہانے بیٹھی کتنی دیر روتی رہی
یہ وہ شاعرہ تھی جو اس دن  چولہے پر جل گئے!
ایسے توڑا جاتا ہے ہمیں
ہر موڑ پر ایک فرد مرتا ہے اور دوسرا جنم لیتا ہے
گریجویشن کے بعد جب دو سال تک سائیسکاسزکا سامنا  کیا
تو لفظوں کو جوڑنا تو دور کی بات
لفظ تک بھول گئی تھی
اس میں شاعرہ،مصورہ،شوخ،چنچل ،سب کے سب وجود جل سڑ گئے !

2003
میں ایک نئی صوفیہ کاشف کا جنم ہوا تھا
ایک سڑی ہوئی،دکھی حسینہ،ایک غموں کی ماری روح
جسمیں کسی مقابلے میں حصہ لینے کا چارہ نہ تھا
تمھارا ایم اے انگلش پاس ہو جائے گا”
انگلش کے استاد کہتے رہتے
مجھے لگتا کبھی نہیں ہوگا
ذندگی کا یہ امتحان کبھی بھی پاس نہیں ہو گا
دھیرے دھیرے سب امتحان پاس ہونے لگے
شادی نہیں ہوگی!
سوہنی شکل جو باقی تھی اس کے بل پر شادی بھی ہو گئی
صوفیہ کاشف بن گئی
بچوں سے ڈرتی تھی
بچے بھی!
ابوظہبی چلے گئے
ایک کے بعد ایک امتحان پاس ہوتا رہا
ذندگی چلتی رہی!
دھیرے دھیرے سب امتحان کم یا ذیادہ نمبروں سے پاس ہو گئے
جو رہ گئے وہ بھی ایک دن ہو جائیں گے
اب میری بیٹی کہتی ہے
میں اسکے مسائل سمجھ نہیں سکتی
میں کیوں سمجھ نہیں سکتی؟
کیا میرے خوابوں کی پرواز کبھی ٹوٹ کر نہیں گری؟
کیا مجھے کبھی بند رستے نہیں ملے؟
کیا میں نے کبھی عزم و ارادے کی سرحد کو نہیں چھوا؟
کیا ہم نے مقاصد نہ بنائے نہ راہیں کھودنے کی کوشش کی؟
کیا ذندگی میں کامیابی کا میں نے کبھی ارمان نہیں کیا؟
سب کچھ کیا!
قافلے نکلتے رہے کارواں لٹتے رہے
ہم بند دروازے  دیکھ کر رستے بدلتے رہے!
اتنا تو سمجھتے ہیں کہ خواب لٹ جائیں تو کیسا تکلیف دہ لمحہ ہوتا ہے
خصوصا جب آپ اونچی اور لمبی پروازوں کے عادی رہے ہوں
پندرہ سال ابوظہبی میں شیخوں سی ذندگی گزار کر
آج پاکستان میں عام بنکر بھی رہ  رہے ہیں
یہ امتحاں ہماری ذندگی کا پہلا تو نہیں ہے!
مگر ابھی ہمارے بچوں کو یہ بات کہاں سمجھ آئی گی
ذندگیاں ہمارے گرد بھی کسقدر  رنگین تھیں
مگر ہم بلیک اینڈ وائٹ ہو ہو کئی بار بیٹھے!
بہت تیز دوڑنا ہمیں بھی خوب آتا تھا
پھر بھی ہم کوسوں تک رینگتے رہے
ذندگی نے سکھا دیا ہے
کبھی لہروں کے اوپر اور کبھی لہروں کے اندر سانس روکے
تیرتے رہنا ہی اصل جدوجہد ہے
خالی ریس کچھ نہیں ہے
کبھی بھاگنا تو کبھی رکنا بھی آنا چاہیے
ذندگی رخ بدل بدل کر ملتی ہے
اس کے ساتھ رخ بدل لینا ہی دراصل اصل ذندگی ہے
_________
صوفیہ کاشف
آٹھ اگست دو ہزار چوبیس
With some parts of me!

2 Comments

  1. رصوفیہ سلو نہ تھی۔
    ہر فقرہ پہلے سے اگلے لیول کا تھا
    واه واه واه شروع مىں ھنسایا اور آخر میں خون کے آنسو رلائے۔ 🥲🥲🥲

    Liked by 1 person

Leave a reply to shahji555 Cancel reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.