ٹھیک ٹھاک،الحمداللہ!____________صوفیہ کاشف


_________________
♧♡♧♡♧♡♧♤♡♧♡♤

“شازی باجی کیا حال ہے؟”
میں نے بستر پر پڑی بہن پر جھک کر اس کے گالوں پر پیار سے ہاتھ رکھ کر پوچھا
“ٹھیک ٹھاک! الحمداللہ!””
چہرے کی سوجن سے آنکھیں سکڑ گئی تھیں۔ہونٹوں کے ایک طرف فالج نے زبان کسی حد تک باندھ دی تھی۔جسم ہلانا تو دور کی بات ہاتھ تک اپنی مرضی سے ہلا نہ سکتی تھی۔کئی کئی روز صورتوں کو پہچاننے سے قاصر تھی کبھی کبھی لفظ تک ڈھنگ سے ادا نہ کر پاتی تھی۔زندہ رکھنے کے لئے ڈرپ لگی تھی جسم سے اخراج کے لئے نالیاں مگر زبان کو گوارا نہ تھا کہ کہے دیکھو جو تمھارے سامنے ہے۔زبان کہتی تھی:
ٹھیک ٹھاک،الحمداللہ!
یہ کوئی بوڑھی اماں،کسی پہنچی ہستی کی داستان نہیں یہ تو میری بڑی بہن تھی  جسکا گیارہ سالہ بیٹا ابھی پوچھتا ہے کہ جنت میں کیا پیزا ملے گا؟
کیا وہاں تک فوڈ پانڈا جاتا ہے؟
جو ابھی پچاس میں داخل ہوتے ہوتے سرطان میں اتر گئی تھی اور وہ بھی ایسے کہ تب تک پتا تک چلا  جب تک وہ تیسرے درجے پر نہیں پہنچ گئی تھی۔
شازی باجی جسے بریسٹ کینسر  تشخیص ہوا تو وہ  دو دن روتی رہی پھر اس نے سر پر کفن باندھ لیا۔
“مجھے میرے بچوں کے لئے ذندہ رہنا ہے!”
اس نے کہا تھا!
اس نے ہمدردی ٹھکرانی شروع کر دی۔لوگوں کو بتانا چھوڑ دیا کہ مجھے کیا ہوا ہے۔حالت بگڑتی جاتی مگر وہ ہمیشہ کہتی میں بالکل ٹھیک ہوں مجھے کیا ہوا ہے!
الحمداللہ!
ہم ان سے ایک فقرے کا حال پوچھتے
کیا حال ہے؟
آلحمداللہ!
اور ہم دوسری باتیں شروع کر دیتے
وہ کمزور نہیں ہونا چاہتی تھیں ہمیں انکی نیت کا احترام لازم تھا!

امی کے گھر کسی نے آنا ہوتا کسی کی دعوت ہوتی،ساری بہویں بیٹیاں چھوڑ کر ایک نام
شازیہ کو بلالو
وہ اکیلی آتیں اور دس لوگوں کا کام اکیلے کر دیتیں۔
ہم نے جب خواب دیکھنے سیکھے تھے انہوں نے تب سے ہی ماں بننا سیکھ لیا تھا
ماں کے حصے کا کوئی کام ہو اس نے سب بانٹ لئے تھے پھر ایسے کہ آہستہ آہستہ اس نے ماں کو تخت پر بٹھا کر خود ماں بن گئی تھی
اور ہم سب نیچے والے اپنے برابر والی کے عہدے کی تبدیلی سے پریشان تھے
وہ کبھی کسی کام میں ہمارا ساتھ نہ دیتیں
وہ ہر حال میں میرے اماں ابا کی پارٹی تھیں
اور ہم سب ان سے چھوٹوں کو اسی بات کی تکلیف تھی۔
“رات کو فلم یا ڈرامہ لگے گا۔امی ابی کو نہ بتانا چھپ کر دیکھیں گے”
ہم پانچ ایک پارٹی ہو جاتے
انہیں کسی چیز سے غرض نہیں تھی
وہ  اکیلی پارٹی بن کر دیکھنے سے انکاری ہو جاتیں،کان سر لپیٹ کر سو جاتیں
اور صبح صبح لازما امی کوخبر کر دیتیں
کوئی کسی کے خلاف گواہی ہو
شازیہ سے پوچھو وہ کسی بھی قیمت پر بکتی نہ تھی
نوے کی دہائی تھی میس اسکول کی بچی تھی ٹیپ ریکارڈرز  پر گانے سننے کو جان نکلتی تھی
ہمارے اوپر کے پورشن میں ابی کے دوست کی فیملی رہتی تھی
بڑی عید کا دن تھا امی ابی حج پر گئے تھے
اوپر والی آنٹی اپنے گاوں
عید پر گانے سننے کو دل کرتا تھا ذرا عید اور آزادی کو دو گھڑی انجوائے تو کیا جائے
ہمارا ریکارڈرچھوٹا سا تھا
اوپر والی آنٹی کے پاس ڈیک نما تھا
دبا کر باجی کی منت کی ،کوئی گھنٹہ بھر منت کے بعد اجازت ملی کہ اچھا تھوڑی دیر کے لئے اوپر سے ریکارڈر لا کر سن لو
خوشی سے بے حال میں نے  ابھی لا کر چلایا بھی نہی تھا کہ ان کے ضبط کے بندھن چھوٹ گئے
بس اتنا ہی بہک سکتی تھیں وہ
فٹا فٹ اٹھایا اور اٹھا کر واپس رکھ کر تالا لگا آئیں
مگر ابھی تو اجازت لی تھی
نہیں بس،اجازت بدل گئی!
دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے
اماں ابا کا حکم اور نصیحت سے انہوں نے ہلنا سیکھا ہی نہ تھا
ان میں اس گمراہی کی صلاحیت ہی نہ تھی
ہم نے خوب دیواروں میں سر مارنا ،لڑنا جھگڑنا، مگر وہ نہ ڈرتیں۔وہ کبھی کسی سے نہ ڈریں، عمر بھر نہ ڈریں
پچاس سال کی ہو کر بھی بھائیوں بہنوں بھابیوں کو جھاڑ دیتیں
تم سے یہ نہیں کیا جاتا”
تم سے وہ نہیں ہوتا”
تم اماں کے لئے یہ نہیں کر سکتے”
“خبردار اگر تم نے کوئی ایسی حرکت کی ورنہ میں مار مار کر منہ توڑ دوں گی”۔

ہم اس عمر میں بھی ڈر جاتے۔انکا کوئی پتا نہیں، انہوں نے توڑ بھی دینا ہے۔
ہم بھائیوں بھابیوں کا لحاظ کرتے مگر انکے لئے کچھ بھی محترم نہ تھا جو ضابطہ اخلاق توڑے گا وہ اسی طرح ڈانٹ کھائے گا جیسے وہ بچپن میں کھاتا تھا۔کوئی کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو گیا اگر وہ زیادتی کر رہا تو اسی طرح مار کھائے گا جیسے وہ آج بھی وہی چھوٹا سا بچہ ہے
ہم نے کب سوچا تھا کہ یہ زہر لگنے والی باتیں اتنی قیمتی لگنے لگیں گی کہ مجھے ان پر لکھنا پڑ جائے گا
جو باتیں ہمیشہ جارحیت اور بدمزاجی لگتی تھیں وہ ایک دم کردار کا ایک ایسا رخ بن کر سامنے آئے گا سب کو ہکا بکا کر چھوڑے گا۔

تو وہی شازی باجی اب میرے سامنے بستر پر پڑی تھیں سرطان سینے سے جو پھیلنا شروع ہوا تو پھر نہ رکا تھا۔لاکھوں کے ٹیکے لگ گئے،سرجری ہو گئی، کیمو تھراپی سے گزر گئیں، ۔سنا کہ  بریسٹ کینسر ختم ہو گیا مگر پھر یہ ہوا کہ جگہ جگہ چکرا کر گرنے لگیں۔
ابھی کھڑی تھیں
ابھی سوکھی لکڑی کی طرح گر گئیں
سر اور منہ پر چوٹیں لگنے لگیں ،نیل پڑنے لگے، مگر زبان اور لہجے کی وہی روانی
ٹھیک ٹھاک ہوں، الحمداللہ!”
ہم نے ایک سے دو بار حال پوچھ لینا تو بگڑ جاتیں۔
“ٹھیک تو ہوں مجھے کیا ہوا ہے!”
کہاں کہاں سے گزر گئیں اور مان کر نہ دیا کہ مجھے کیا ہوا ہے۔
تب پتا چلا کہ سرطان سینے سے دماغ تک پھیل چکا تھا۔انہیں وہیل چئیر پر لایا لیجانے لگا مگر گرنے سے بعض نہ آئیں۔
آنکھوں کے سامنے اندھیرا اترتا اور جہاں ہوتیں وہیں گر پڑتیں کبھی سیڑھیوں پر،کبھی ہسپتال کے برآمدے میں,کبھی غسل خانے میں!
رمضان کے  ایک دن گرئیں تو پھر نہ چل سکیں۔بستر کی ہو کر رہ گئیں۔
ہمیں کہہ دیا ٹانگ پر چوٹ لگ گئی ٹھیک ہو جائے گی
بڑی عید پر پتا چلا نچلا حصہ دراصل مفلوج ہو چکا ہے اسکے حصے کی حرکت برین کینسر کھا گیا تھا۔
ہم انکے چلنے کا انتظار کرتے رہے اور وہ مفلوج ہو کر بستر پو پڑیں ہمیں ٹھیک ٹھاک ،الحمداللہ!”بتاتی رہیں۔
ڈاکٹر کب سے جواب دے چکے تھے۔اب صرف جتنی ذندگی تھی اس میں خوش اور محفوظ رکھنے کی ہدایت تھی۔
بڑی عید منا نے پہنچے  تو چہرہ سیاہ پڑ چکا تھا اور جسم مکمل مفلوج ہو چکا ہونٹوں کے ایک طرف کا  حصہ بھی مفلوج تھا۔

مگر حال پوچھو تو وہی ” الحمداللہ “

ہم انکی صورت دیکھتے اور انکا “الحمداللہ “دیکھتے
اگلے کچھ دنوں میں حالت تیزی سے بگڑنے لگی
کبھی تمام دن بے ہوش ہی پڑی رہتیں کبھی ہوش میں آتیں تو کسی کو پہچان ہی نہ پاتیں
کبھی بولتیں تو الفاظ بھول جاتیں، کبھی آواز۔
آواز نکالنے کو بڑا زور لگانا پڑتا
مگر نہیں رکا تو ایک” ٹھیک ٹھاک، الحمداللہ” نہ رکا کہیں۔
بوتلوں اور نالیوں پر آگئیں
چوبیس گھنٹوں میں کہیں چند منٹ کا ہوش آتا ،پھر بے ہوشی میں اتر جاتیں
بیس، اٹھارہ سترہ، سالا بیٹیاں سنبھالتیں
منتوں مرادوں سے مانگا  گیارہ سالہ بیٹا بلاتا رہ جاتا
وہ بے ہوشی میں ایسے اتر جاتیں جیسے انہیں اب اس دنیا سے کوئی غرض ہی نہ تھی
کون تھا ،کہاں تھا؟
ایک امی اور ابی کی آواز تھی جو وہ بےہوشی میں بھی سن لیتیں
“جی ابی!”
“ہاں جی امی!”
باقی سب کچھ انکی پہچان سے اتر گیا تھا
آس پاس ،بہن بھائی بچے شوہر سب اکٹھے ہوئے رہتے پر انہیں اب اور کسی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔۔
ہم جاتے انکو پیار کرتے ،چومتے ،دعائیں کرتے واپس آ جاتے!
سب جانتے تھے مگر کہنے سے ڈرتے تھے
وہ کینسر کی جنگ بہت تیزی سے ہار رہی تھیں اور روز تھوڑا تھوڑا مر رہی تھیں
جمعہ کو منہ اندھیرے  فجر سے ذرا پہلے ہمیں میری بھانجی عائشہ کا  فون آتا ہے
“مما اٹھ نہیں رہیں”۔
انکی بچیوں کو رات بھر جاگتے رہنے کی عادت تھی۔ان کے ساتھ بیٹھے بیٹھے گھڑی بھر میں شازی باجی کے خراٹے سناٹے میں بدل گئے تھے۔
ہم انکے گھر سے پینتالیس منٹ کے فاصلے پر تھے۔
یہ فاصلہ طے کرکے انکے پاس پہنچے تو وہ فجر سے ذرا پہلے ہی کینسر سے اپنی جنگ ختم کرکے ہم سے بہت دور جا چکی تھیں۔
وہ جسے ہم ایک عام سی باجی سمجھتے تھے وہ ہمیں سمجھا گئی کہ صبر ہوتی کیا بلا ہے
شکر کیا کیسے جاتا ہے!
آخری ماہ میں حالت ایسی تھی کہ ہم  تیمارداروں سے چھپانے لگے تھے کہ میری بہن کی عزت کم نہ ہو جائے
آج اس چہرے کو کسی سے چھپانے کی حاجت نہ رہی تھی
وہ فخر سے مسکرا رہا تھا کہ میرے جیسا چمکتا کوئی چہرہ دیکھا ہے تو بتاو

وہی چہرہ جس پر مہینوں سے  تکلیف ڈیرے ڈالے بیٹھی تھی اب  ایسا ڈھیلا اور پرسکون پڑا تھا جیسے اسے کبھی کچھ ہوا ہی  نہیں تھا۔
کوئی سوجن نہ کوئی تکلیف
کینسر جیسے ایک دم سے انکے جسم سے نکل گیا تھا۔
کھلے کھلے چہرے پر مسکراہٹ مسکرا رہی تھی!
ڈاکٹر نے کہا جلدی دفنا دو
“بہت سخت گولیاں کھائی ہیں انٹرنل بلیڈنگ کا خطرہ ہے”
اور ہم  انکا جنازہ  صبح چار سے  نماز جمعہ تک  لئے بیٹھے رہے،نہ چہرے کی بشاشت میں کمی آئی، نہ جسم اکڑا!
،وہ  کفن لپیٹے مسکراتی رہیں!
جیسے کہہ رہی ہوں

” ٹھیک ٹھاک،الحمداللہ!”
________

صوفیہ کاشف

23 جولائی 2024

6 Comments

  1. آج اس چہرے کو کسی سے چھپانے کی حاجت نہ رہی تھی
    وہ فخر سے مسکرا رہا تھا کہ میرے جیسا چمکتا کوئی چہرہ دیکھا ہے تو بتاو🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲

    Liked by 2 people

  2. اتنے عرصہ بعد؟؟؟؟؟؟؟آپ اور آپ کی فیملی کیسی ہے۔ دعاوں میں یاد رکھیں۔ میری طرف سے ڈھیروں دعائیں۔ خوش رہیں آباد رہیں سدا سکھی رہیں آمین ثم آمین

    Liked by 2 people

    1. یہی میری حالیہ ذندگی کی کہانی اور حالات ہیں۔ایسے حالات میں لکھنے لکھانے کی ہمت کہاں رہتی ہے۔صبر جمیل نصیب ہو گا تو ذندگی کی طرف لوٹیں گے۔باقی سب الحمداللہ ٹھیک ٹھاک ہے۔

      Liked by 1 person

  3. بے شک ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ
    کر جانا ہے۔
    پروردگار جانے والی کی جھیلی ہر تکلیف عبادت کی طرح قبول فرمائے۔

    Liked by 1 person

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.