♡♤♡♤♡♤♡♤♡♤♡♤♤♡♤♤
2019 میں میں واپس دبئی گئی تومیاں صاحب ہئیر ٹرانسپلانٹ کے لئے ترکی جانے کی تیاریوں میں تھے انکے سر کی لمبی لمبی لٹیں بہت تیزی سے گم گشتہ یاد بنتی جا رہی تھیں۔۔میاں نے مجھے بھی فیاضی سے آفر کی کہ میں بھی بوٹکس کروا لوں۔ میاں کی اس آفر پر میں حیران ہو گئی۔
میں بوٹکس کروا لوں؟
یہ خاصی پریشان کن آفر تھی جو کبھی میرے دماغ کے قریب قریب سے بھی نہ گزری تھی۔ میری عمر چالیس کے قریب ہو رہی تھی اور پاکستان کے آٹھ ماہ کے قیام اور دربدری نے دو تین کلو اضافی وزن مجھ پر لاد دیا تھا پھر بھی۔۔۔ مجھے اس آفر سے کوئی خوشی نہیں ہوئی۔
ایک آدھ بار کی زحمت ہو تو میں سوچتی بھی،آخر کون شائستہ واحدی،نادیہ خان جیسا کم عمر اور خوبصورت نہیں لگنا چاہتا ،چاہے عمریں کچھ بھی ہوں۔مگر ہر چھ ماہ بعد نئے سرے سے سرجری کے لئے جانا ،مسلسل ڈھلتی ہوئی عمر کے خلاف جنگ آزما رہنا ،جبکہ اگلا ہر قدم آپکو اس تبدیلی کی طرف ہی لیجا رہا ہو جس کے ساتھ آپ ہر لمحہ لڑ رہے ہوں،یہ ایک تھکا دینے والی کوشس تھی جو میرے لئے خاصی نا ممکن تھی۔
۔میں وہ خاتون ہوں جس نے جوانی میں بھی کبھی غیر ضروری میک اپ کرنے میں کوئی بیتابی نہیں دکھائی۔میرے چہرے پر پیسٹری والا میک اپ کبھی شاذ و نادر ہی کسی نے دیکھا ہو گا۔جوانی میں بھی شوقیہ ہی کبھی کبھار کیا تو کیا ورنہ خود کو اس کا کبھی محتاج نہیں کیا۔الحمداللہ یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ کم عمری سے ہی احساس تھا کہ مجھے اس غیر ضروری لیپا پوتی کی ضرورت نہیں ہے۔میں اسکے بغیر ہی ہمیشہ ذیادہ اچھی لگتی ہوں۔
اور اگر بالفرض ایسا نہ بھی ہوتا،،،تو مجھ میں کبھی اتنا حوصلہ نہیں رہا کہ میں روزانہ کی بنیاد پر میک اپ کروں ،ہیر ڈو کروں،بالوں کو سیدھے کرتی رہوں اور پھر شام کو میک اپ رگڑ رگڑ کر اتارتی رہوں،جلے ہوئے بالوں پر ہزارہا چیزیں لگا کر انہیں پھر سے ذندہ کرنے کی کوشش کرتی رہوں۔حالانکہ سٹائلنگ کی جتنی مشینیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور جتنا مہنگا سے مہنگا اور خوبصورت سے خوبصورت میک اپ کا ساماں ہے میرے سنگھار میز پر بھرا پڑاہے۔مگر مجھے میں اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ میں گھنٹے صرف اپنی انسانی صورت کو آفاقی بنانے پر صرف کرتی رہوں۔ میں نے اپنی انسانی صورت اور اس کے مکمل مہیا پیکج پر قناعت کرنا سیکھا اور طوفان انگیز حسن کی قیامت خیز کوششوں سے خود کو ہمیشہ دور رکھا
۔
میری تصاویر ہمیشہ کسی فلٹر کے بغیر ہوتی ہیں۔اچھی نہ ہوں تو نہیں لگاتی مگر فلٹر سے خود کو خوبصورت کرنے کی کوشش کبھی تجربے کے لئے کی ہو تو کی ہو،عادتا نہیں کرتی۔
پچھلی عید پر میری بھانجیوں نے میری کچھ تصاویر بنائیں تو ان کے موبائل پر فلٹرلگے تھے اسی میں انہوں نے سجا سنوار کر میری تصویر بنا دی۔۔تصویر تو اچھی آئی مگر میری نہیں لگ رہی تھی کسی باربی ڈول کی تھی۔مجھے اپنے لئے ایسی امیچور تصویر پسند نہیں آئی۔
مجھے اس عمر میں باربی ڈول بننے کا شوق نہیں۔میں ساری عمر اپنے سے کم عمر لڑکیوں کا مقابلہ کرتے نہیں گزار سکتی۔اس لئے میں بڑے سکون سے اپنی عمر کے لوگوں میں رہتی ہوں،اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں سے دوستی کرتی ہوں اور ہمیشہ ایسے لوگوں میں رہتی ہوں اور ان سے ملنا پسند کرتی ہوں جو سیدھے سادھے ،خالص اور تصنع سے پاک ہوں۔
میری ایک بہترین دوست مسز ائیر کموڈور ہیں جن سے دوستی میں نے صرف اس لئے کی تھی کہ پہلی ہی ملاقات میں انہوں نے اپنے جوان بیٹے کو” کھوتا” کہہ کر بلایا تھا۔مجھے انکے اس لفظ پر پیار نہیں آیا بلکہ انکی اس سادگی اور سچائی پر آیا جس میں وہ خوش تھیں۔ورنہ بھلا کون
کسی نئے شخص کہ سامنے اپنے ہی جوان بیٹے کو” کھوتا” کہتا ہے وہ بھی مسز ائیر کموڈور ہو کر!
مجھے ایسے لوگوں سے شدید پیار ہو جاتا ہے جو جیسے ہوں بالکل ویسے دکھتے ہوں۔جنہیں خود پر کسی ملمع کاری کرنے کا کمپلیکس نہ ہو۔آپ خود بتائیں اس معاشرے میں پیار کے قابل آخر کتنے لوگ رہ جاتے ہیں؟
جو لوگ پہلی ملاقات میں بہانے بہانے سے اپنے اثاثے ،تعلقات،،سٹیٹس کے بارے میں بتانے کی کوشش کریں میں ان سے کبھی دوسری ملاقات ہی نہیں کرتی
۔مجھے ایسے لوگ شدید ناپسند ہیں جنکے پاس دکھانے کو کردار کے سوا سب کچھ ہو!۔۔
۔
سوشل میڈیاز،فیملی وی لاگ،یوٹیوب،ٹک ٹاک ،ڈیپی ،فلٹرز نے ذندگی کی ہر چیز کو ایک جھوٹ کر دیا ہے۔کبھی ایک نورجہاں کی پلاسٹک سرجری مشہور تھی،اب شہناز شیخ اور مرینہ خان کے سوا کوئی عورت نارمل بوڑھی عورت نظر نہیں آتی۔ سب عوام کو یہ سمجھانے میں مصروف ہیں کہ ڈھلتی عمر ایک جھوٹ ہے۔ آپ پچاس ساٹھ ستر سال کی عمر میں بھی سولہ سالہ لڑکی کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔نارمل ہونا غلط ہے، انسان ہونا بیکار ہے۔ذندگی میں سب کچھ تنا ہو چہرا ،اور سمارٹ جسم ہے۔ہمیں سام سنگ کے کیمرے جیسی سموتھنیس (smoothness)
اپنی اصل ذندگیوں میں اصل چہروں پر چاہیے۔۔ہم لوگوں کا اپنے اصل سے رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔
بچپن میں ایک کتاب پڑھی تھی جس کے آخر میں ایک اور ناول کا تعارف تھا جو کچھ یوں تھا
“ یہ 1999 ہے
یہ آج سے بیس سال بعد کی کہانی ہے
انسان نے چاند اور مریخ پر دنیا بسا لی ہے
اب وہاں پر طرح طرح کے سائنسدان اور انسان بستے ہیں
ایک دن چاند اچانک اپنے محور سے نکل کر خلا کے ہیبت ناک اندھیروں میں بھٹکنے لگتا ہے
سائنسدانوں کا ذمین سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے۔
اب انہیں ہر پل اپنی موت کا انتظار ہے”
یہ تعارف اس قدر اثر انگیز تھا کہ میں نے اسے ہزاروں بار پڑھا ۔یہ کس کتاب پر تھا آج مجھے یاد نہیں مگر یہ تعارف لفظ بہ لفظ زبانی میں نے یہاں لکھ دیا ہے.
۔اس ناول کی مستقبل کی تعبیر درست ثابت نہیں ہوئی
مگر پھر بھی یہ سچ ہے!
مغربی معاشرے کے لوگ ملٹن کو پیغمبر کہتے تھے
، وہ شاعروں اور ادیبوں کو پیغمبر سمجھتے ییں
کیونکہ انکی حساس طبیعت گزرتے اور آتے موسموں کی بو اور خوشبو سونگھ لیتی ہے۔
انکی کہی باتیں اور تعبیرات اکثر صحیح ثابت ہوتی ہیں۔
یہ 2024 ہے
ہم چاند پر جا پہنچے ہیں
اپنی زمیں سے ہمارا تعلق ٹوٹ چکا ہے
ہم خلا کے اندوہناک اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔
ہمیں کس کا انتظار ہے۔۔۔۔
مرینہ خان اور شہناز شیخ کو میں داد دیتی ہوں کہ جنہوں نے ثابت کیا ہے کہ صرف انکے ڈرامائی کردار ہی مختلف نہ تھے وہ حقیقتا دوسروں سے مختلف بہادر خواتین ہیں۔جن میں ذندگی کے ہر مسلئے کو خوش آسلوبی سے نپٹنے اور سہنےکا حوصلہ موجود ہے،ورنہ کسی اور میں اتنی ہمت نہ تھی کہ جب سب چہرے کی سرجریاں کروا کر دھڑا دھڑ جوان ہو رہی تھیں تو وہ انکے بیچ بیٹھی بوڑھی امائیں لگتیں۔
بڑھاپا ہماری نظر میں اپنی قدر ومنزلت کھو چکا ہے۔
سفید بال ہمارے لئے کم وقعت ہو چکے ہیں،ذندگی بھر کے تجربات سے ملنے والی بصیرت کی اب کسی کو ضرورت نہیں رہی۔۔
قدرتی ہونا بے قدری کا شکار ہے،نارمل ہونا اور رہنا ہماری اقدار سے نکل گیا ہے۔
میاں کی یہ پر کشش آفر مجھے لبھا نہ سکی اور میں نے اسے ردی کی ٹوکری میں اچھال دیا۔ ۔میں باقی عمر فطرت سے لڑتےنہیں گزار سکتی جب ذندگی میں لڑنے کے لئے اور بہت بڑی بڑی جنگیں موجود ہوں۔
Unnatural deeds do breed Unnatural troubles.
غیر فطری کام غیر فطری مشکلات کو جنم دیتے ہیں۔شیکسپیئر نے کہا تھا۔
اکسویں صدی جھوٹ کی صدی ہے جسمیں ہمیں ڈیپی سے لیکر یو ٹیوب کے فیملی ڈرامے تک جھوٹ ہی جھوٹ نظر آتا ہے۔ہر کوئی خوبصورت ترین ،حسین ترین،امیر ترین دکھنے پر مجبور ہوا پھرتا ہے۔
ایک سال پہلے ہم جھیل سیف الملوک گئے جو غیر ملکی سیاحوں سے بھری ہوئی تھی۔جگہ جگی گوری چٹی گلابی رنگ کی،تنگ جینز اور چھوٹی ٹی شرٹس پہنے انگریز خواتین دیسی مردوں اور لڑکوں کے ساتھ پھر رہی تھیں۔مگر جس کے بھی پاس سے گزرتے وہ دیہاتی لہجے میں اردو بولتی دکھائی دیتی۔سارے پاکستان کی عورت اور لڑکی انگریز،یورپی،امریکی ہونا چاہتی ہے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔انڈین اور پاکستانی میں یہی فرق ہے انڈین دنیا بھر میں کہیں بھی چلا جائے وہ انڈین دکھنا چاہتا ہے۔کوئ فنکشن کوئی ایونٹ دنیا کی کسی بڑی سے بڑی ماڈرن جگہ پر ہو وہ اپنے کھٹے پیلے کپڑے نکال کر پہنتا ہے،انڈین لہجے میں انگلش بولتا ہے۔جبکہ پاکستانی کچھ بھی لگے مگر پاکستانی کبھی نہیں لگنا چاہتا!اسے آخسفورڈ لہجے میں انگلش بولنی ہے اور انگریزوں کے جیسا دکھنا ہے۔
ہمیں اپنے بھورے اور کالے بال پسند نہیں،ہمیں اپنے گندمی رنگ سے نفرت ہے،ہمیں باربی کی صورت چاہیے اور سنیپ چئٹ کے فلٹر جیسی لک،اور کیم کارڈیشن جیسے کپڑے۔۔۔
ہمارا اپنا آپ جانے کہاں کھو گیا ہے۔
میں باہر رہتی تھی تو میرے بال بھی ہر وقت رنگے رہتے تھے۔یہاں آئی تو کوئی عورت اصل بالوں کے رنگ کے ساتھ نظر نہ آئی۔میں نے تب سے دوبارہ بال نہیں رنگے۔مجھے سب جیسا دکھنا پسند نہیں ہے!
پہلے سال یہاں رمضان گزارا تو میں نے سر پر ڈوپٹہ رکھ لیا مگر پورا رمضان مجھے پھر کوئی احتراما سر پر ڈوپٹہ رکھے خاتون نظر نہ آئی۔مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوا کہ ہم اب پروٹوکول سے بھی گئے۔میں تنگ جینز پہننے والی خاتون تھی تب سے میں نے سر سے ڈوپٹہ نہیں اتارا۔مجھے ایسے فیشن پسند نہیں آتے جسے اپنا کر انسان ریوڑ میں شامل ہو جائے!
۔
ہم سے اپنے چہرے پر ایک مہاسہ،ایک جھری برداشت نہیں ہوتی،کچھ لوگ سرجریاں کروا کروا پاگل ہو رہے ہیں،باقی انکو دیکھ دیکھ حسرتوں سے منہ نوچ رہے ہیں کہ کاش اس عمر میں ہم بھی ان کے جیسے دکھتے۔ ۔لوگ بڑھاپے کی نارمل صورت کو پہچاننے سے انکاری ہونے لگے ہیں۔ ۔ہم بھول چکے ہیں کہ اس دنیا میں کچھ بھی کبھی مکمل نہیں ہوتا!
اس دنیا میں کاملیت کا کوئی وجود نہیں
اگر کہیں دکھائی دے رہی ہے تو محض نظروں کا دھوکہ کہ اس کے پیچھے بھاگنا خود کو تھکا دینا ہے
ہاتھ یہ پھر بھی نہیں آئے گی!
کیونکہ یہ دنیا کاملیت کے لئے نہیں بنی تھی۔
کاملیت تو جنت میں تھی جہاں سے ہم دھکے دے کر نکالے گئے تھے۔۔۔۔
یہاں توہر چیز آدھی ادھوری ہی ممکن ہے!
یہ ذندگی کی بہت اہم فلاسفی ہے
مگر ہماری آنکھوں سے مکمل اوجھل ہے!
سکرین پر ہمیں کامل تصاویر دکھائی جاتی ہیں اور ہم اسے حاصل کرنے کے لئے شیطان کے ہاتھوں بکنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں
پرانے وقتوں میں ایک ملکہ کے پاس ایک ایسا آئینہ تھا جو اسے ہر وقت یہ بتاتا رہتا تھا کہ وہ دنیا کی خوبصورت ترین عورت ہے
آج ہم سب کے ہاتھوں میں وہ آئینے ہیں جو ہمیں ہر وقت حسین ترین دکھنے کی عیاشی دے رہے ہیں
اور ہم صدیوں سے حسن کو ترسے اس میں ڈوب مرے ہیں۔
ذندگی کی تعبیریں کچھ دہائیوں پہلے کیا تھیں
آج ہر سچ کی تعبیر بدل چکی ہے۔
لگتا کچھ اور تھا دراصل کچھ اور نکلا ہے!
پھر ہمیں دجال کب آئے گا ،کہاں سے آئے گا کی خبر بھی چاہیے!
وہ دجال جو ہماری ہر خواہش پوری کرے گا!
ہم رٹا لگانے والے لوگ جو دل سے ان الفاظ کے معانی تک نہیں جانتے جنہیں ہم نےازبر کر رکھا ہے۔
ہماری نمازیں ختم ہو جاتی ہیں مگر ہم نے کیا کیا ہے ہمارے دل کو خبر تک نہیں ہو پاتی۔ہم زباں سے اللہ کو پکارتے ہیں مگر ہمیں ہر اس چیز سے عشق ہے جو دجال کی جائداد میں آتی ہے!
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
____________
صوفیہ کاشف
یکم اپریل دو ہزار چوبیس
تصاویر منجانب اے آئی !
۔

Bohat umda aur intehai gehrai ki hud tak ki sahi baat ki ha ap ne.
Shahnaz Shaikh aur Marina Khan ka hawla bilkul sahi deya ha ap ne.
LikeLiked by 1 person
. بہت عمدہ تحریر ماشاء الله….کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
LikeLiked by 1 person
Kahan hein? Itne arsa se gaib?
LikeLike
الحمدللہ حیات ہیں ۔ذندگی سے نبرد آزما ہیں۔
پوچھنے کا شکریہ! جزاک اللہ خیر
دعاوں میں یاد رکھیے
LikeLike
Pakistan ya Dubai?
LikeLike
Kahan gaib? Aap ki YouTube videos bhi deikh lein. Bahut umda. Please likhti rha kerein. Khush rahin abad rahin
LikeLiked by 1 person
بہت شکریہ!
انشاءاللہ لکھنے کا سلسلہ جاری رہے گا بس حالات و واقعات لکھنے کی رفتار کم یا ذیادہ کرتے رہتے ہیں۔اپنی دعاوں میں یاد رکھیں۔
LikeLiked by 1 person