میں آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی جب مجھے ڈاکٹر مبارک علی خان کی دوسری کتاب ” تاریخ اور شعور” پڑھنے کا موقع ملا- مبارک انکل اس دور میں ابو کے قریب ترین دوست تھے- دونوں سندھ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے- ابو کی پہلی کتاب وجودیت اور مبارک علی خان کی دوسری کتاب ایک ساتھ ایک ہی پریس سے شائع ہوئیں- پریس کا نام اگر میں غلطی پر نہیں تو آگہی پبلیکشنز تھا- ابو کی کتاب تو فلسفۂ وجودیت پر تھی جو میری ذہنی سطح سے بہت بلند تھا- شاید آج بھی کسی مدد کے بغیر پڑھنے کی اہلیت نہیں رکھتی لیکن تاریخ اور شعور بہت سادہ اور آسان فہم الفاظ میں لکھی ہوئی تھی- مجھے آج بھی نیلے رنگ کے مختلف شیڈز میں اسکا نرم گتے کا سر ورق یاد ہے- کتاب میں چار مضامین تھے- جس میں سے ایک بہشتی زیورکا تنقیدی جائزہ تھا بلکہ تجزیہ کے بجائے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ کتاب میں موجود عورت بیزاری یا عورت سے نفرت یا حقارت کی تعلیمات کو اس کے کچھ اقتباسات کی مدد سے ہائی لائٹ کیا گیا تھا-
میں بچپن سے حساس دل رکھتی تھی اور مطالعہ کی عادت کے باعث exposure وسیع تھا- اس مطالعہ میں بچوں کے لئے لکھے جانے والے جاسوسی ناولوں کے علاوہ سنجیدہ جرنل نالج اور تاریخ کی کتب بھی ہوتیں لیکن ظاہر ہے کم ہوتیں، خواتین اور پاکیزہ ڈائجسٹ بھی شامل تھے اور سسپنس اور جاسوسی ڈائجسٹ بھی، اخبار جہاں بھی، کلام اقبال اور الف لیلیٰ بھی- کہیں سیپ اور نقوش کے پرانے شمارے بھی مل جاتے- کبھی ریڈرز ڈائجسٹ بھی ہاتھ لگ جاتا- پی ٹی وی ڈرامہ بھی شوق سے دیکھتے اور کبھی کبھی انگریزی فلم بھی بڑوں کے ساتھ بیٹھ کر- کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ذہنی سطح اتنی کم نہ تھی- فکشن کی مستقل تلاوت کی وجہ سے حیدرآباد جیسے چھوٹے سے شہر میں رہتے ہوئے بھی دنیا کا کسی حد تک علم تھا-
اشرف علی تھانوی، ایک دینی عالم جسے آج بھی معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کے اقتباسات میں عورت کے لئے جتنی حقارت اور نفرت مجھے محسوس ہوئی ان اقتباسات نے مجھے ساری زندگی بیچین رکھا-
خصوصاً ایک اقتباس مجھے ہمیشہ یاد رہا جس میں مولانا عورتوں کو تعلیم دینے کے لئے ایک ایسی عورت کی مثال یعنی ماڈل قرار دے کر تعریف کر رہے ہیں جسکا شوہر طوائفوں کے پاس جاتا ہے اور بیوی اپنے ماتھے پر شکن بھی نہیں لاتی بلکہ شوہر کی فرمائش پر طوائفوں کے لئے کھانے بنا کر بھیجتی ہے- آٹھویں جماعت میں اتنا شعور تو نہ تھا لیکن جب بھی اس بارے میں سوچا یہی سمجھ آیا کہ اشرف علی تھانوی نے مرد کے واضح حرام کام پر، ایسے حرام کام پر جس پر دین میں حد جاری ہوتی ہے، اسکو روکنے یا کوئی فتویٰ دینے کے بجائے عورت کو صبر اور خدمت کی تلقین کی جو بہت ہی مضحکہ خیز محسوس ہوتی ہے- کتاب میں ایسے اقتباسات بھی تھے کہ عورت کو گھر سے نکلنے سے پرہیز کرنا چاہیے یہاں تک کہ اپنے والدین سے بھی سال یا چھے مہینے سے (اصل مدت اب یاد نہیں) زیادہ نہیں جانا چاہیے-
میں یہ بھی سوچتی رہی کہ مولانا نے عورت کو تعلیم دینے کے لئے یہ کتاب لکھی تو ایک کتاب مرد کو تعلیم دینے کے لئے بھی لکھ دیتے- خیر اس دور میں ان سوالات کا جواب دینے کے لئے مولانا زندہ نہیں رہے تھے-
(برسبیل تذکرہ ایک اتفاق کا تذکرہ کرتی چلوں کہ سندھ یونیورسٹی میں ابو کے شعبه فلسفہ کے چئیرمین اس دور میں پروفیسر ڈاکٹر فاروقی صاحب تھے جو مولانا اشرف علی تھانوی کے پوتے تھے- دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ انکا گھرانہ ہمارے گھرانے کے مقابلے میں نسبتاً ماڈرن تھا- )
مضحکہ خیزی کے علاوہ مولانا تھانوی کی یہ تعلیمات صریح اسلامی احکامات کے بھی خلاف تھیں- انکی تعلیمات مرد کو حرام کاری کا کھلا لائسنس دے رہی تھیں اور اس حرام کاری کی صورت بھی وہ عورت کو خلع لینے کا مشورہ دینا تو دور کی بات کسی قسم کے احتجاج کرنے یا میکے یا سسرال سے مدد لینے کے بجائے صبر اور خدمت کا مشورہ دے رہے ہیں- ترغیب کے لئے مولانا کا یہ بھی کہنا تھا کہ دیکھو ایسی عورت کی دنیا کیسی تعریفیں کرتی ہے اور جب شوہر کا دل پلٹے گا تو وہ بیوی کا دیوانہ ہو جائے گا- (پتا نہیں یہ آخر الذکر انکشاف ان پر کیسے نازل ہوا تھا- ایسے دلائل بچوں کو بہلانے کو تو دیئے جا سکتے ہیں لیکن دماغ رکھنے والی عورت کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ وہ ان دلائل کو قبول کرے، خود حماقت کی نشانی ہے مگر پھر وہی بات کہ ایسے مردوں کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ عورت دلیل کی زبان نہیں سمجھتی )
برسوں بعد زاہدہ حنا کا ایک افسانہ پی آئ ائے کے رسالے رابطہ میں پڑھنے اک اتفاق ہوا جس میں بہشتی زیور جس قسم کا مرد تشکیل دے رہی تھی اور وہ جس طرح اپنی بیوی کی زندگی کو جہنم بنا رہا تھا اور اس دور کے مذہبی طبقات اس مرد کے مفادات کا جس طرح تحفظ کر رہے تھے کو فکشن کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کی گی تھی-
اصل بات جو میں کہنا چاہ رہی ہوں وہ یہ ہے کہ آج کے دور میں مذہبی طبقات میں عورت کے بارے میں جو نظریات دیکھتے ہیں وہ در اصل صدیوں کی محنت کے بعد تشکیل دیئے گئے ہیں- اور کبھی کہیں کوئی توانا آواز ہمیں مذہبی حلقوں میں ان نظریات کے خلاف نظر نہیں آئ- یہاں تک کہ مذہبی خواتین رہنماؤں کی طرف سے بھی- میں کئی دفعہ ایک پروگریسو سمجھے جانے والی دینی جماعت کی بعض خواتین (سب سے نہیں)رہنماؤں سے بات کرتے ہوئے انکی خود اپنی صنف کے لئے نفرت کو محسوس کر کے بے حال ہوئی ہوں-
مبارک علی خان اور زاہدہ حنا ظاہر ہے دونوں سیکولر ہیں- ان دونوں کو اس کتاب میں موجود عورتوں کے لئے نفرت اور حقارت نے اتنا ڈسٹرب کیا کہ دونوں نے کم از کم اتنی ذمہ داری محسوس کی کہ اسکے مندرجات کے بد صورت حصوں کو سامنے لے کر آئیں اور تنقید کا دروازہ کھولیں- مگر میں نے آج تک نہیں دیکھا کہ ہر وقت آپس میں دست و گریباں مذہبی حلقوں کی جانب سے اس کتاب کے بارے میں کبھی کوئی تنقید سامنے آئ ہو- کسی نے اسکے مندرجات کے بارے میں یہ چاہے نہ کہا ہو کہ یہ عورت کے خلاف ہیں مگر کم از کم یہی اعتراف کیا ہو کہ یہ خلاف اسلام ہیں-
بات بہت تلخ ہے مگر اسکو کیے بغیر چارہ بھی نہیں کہ مرد اور عورت کے بارے میں ہمارے معاشرے کے نظریات مجموعی طور پر ایسے ہی علماء کے تشکیل کردہ ہیں- ہمارا معاشرہ آج بھی ان خلاف اسلام نظریات پر استوار ہے جن میں مرد کو ہر طرح کے ازدواجی جرائم کا کھلا لائسنس دیا جاتا ہے اور عورت کو گھر میں قید جذبات سے عاری روبوٹ سمجھا جاتا ہے –
بہشتی زیور کو تو چھپے سو سال سے زائد کاعرصہ گزر گیا ہے لیکن مسلمان عورت کے لئے انکے دینی رہنما آج بھی یہی مشورے کار آمد سمجھتے ہیں-
فرحت ہاشمی گلاسگو یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہیں- حدیث کی سند کے موضوع پر پی ایچ ڈی اسکالر ہیں، ان سے جب انکی کوئی فولوور شوہر یا سسرال کے نا روا رویہ کی شکایت کرتی ہے تو وہ اسے صبر کا ہی مشورہ دیتی ہیں- انکا دوسری طرف کے لئے کوئی مشورہ یا نصیحتیں کم از کم میں نے نہیں سنیں-
اگر اس معاملے میں کسی دینی رہنما کا معاملہ مختلف ہے تو وہ مولانا طارق جمیل ہیں جنہوں نے واشگاف الفاظ میں اس امر کا اعتراف کیا کہ ہمارا سسرالی معاشرہ (شاید نظام کہنا چاہ رہے ہیں) بہت ظالم ہے- وہ شاید واحد رہنما ہے جو اپنی ایک کتاب میں ایسے مرد کے کردار کو سامنے لائے جو خود بھی سگریٹ کی طرح سلگتا رہتا ہے اورعورت کو بھی زندگی بھر جلاتا ہے-
آج کے پروگریسو سمجھے جانے والے دینی اسکالر سوشل میڈیا پر خاندانی اور سماجی معاملات پر مشوروں کی آڑ میں عورتوں کو ویسی ہی تعلیم دینے میں مصروف ہیں جیسی اشرف علی تھانوی نے سو سال پہلے دی تھیں-
کچھ مہینوں پیشتر فیس بک پر ایک نسبتاً پروگریسو دینی سماجی شخصیت نے جو مستقل سماجی موضوعات پر بلاگنگ کرتے ہیں شادی شدہ عورتوں کو مشورہ دینے کے لئے ایک پوسٹ ڈالی- پوسٹ کا لب لباب یہ تھا کہ اگر آپکا شوہر گھر اور بچوں کا خرچہ ذمہ داری سے اٹھاتا ہے- پھر اگر وہ اپنے موبائل پر کسی اور عورت سے عشق لڑانے میں لگا رہتا ہے تو آپ اس میں دخل نہ دیں بلکہ شکر ادا کریں کہ وہ ذمہ داری سے مالی معاملات کو تو دیکھ رہا ہے کیونکہ اگر آپ علیحدگی اختیار کریں گی تو اسکا نقصان آپ ہی کو ہو گا- یاد پڑتا ہے کہ ذیل میں کچھ نقصانات بھی دیئے گئے تھے کہ وقتی علیحدگی کی صورت میں بھی بچوں کے ساتھ میکے میں بھائی بھابی کیا سلوک کریں گے- (ظاہر ہے وراثت کا حق تو آپ نے مسلمان عورت کو دینا نہیں ہے کہ والدین کا گھر عورت کا گھر بھی مانا جائے )
اس امر سے قطع نظر کہ جس طرح عورت کی ایجنسی اس سے چھین لئے گئے ہے، بچوں والی عورت کو واقعی طلاق کی صورت میں بے پناہ سماجی، معاشی اور جذباتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیا ایک دینی سماجی رہنما کو ایسا مشورہ عورت کو سوشل میڈیا جیسے پلیٹ فارمز پر دینا چاہیے- کیا ایسے مشوروں سے ان مردوں کا حوصلہ نہیں بڑھے گا جو واضح غلط کام کر رہے ہیں؟ جو نہیں کر رہے انکو بھی لائسنس دیا جا رہا ہے کہ عورت کا تو کام ہی چپ رہ کر برداشت کرنا ہے-
بہشتی زیور صرف ایک مثال ہے ورنہ اصل میں برصغیر میں جس نام نہاد اسلام کی علماء صدیوں حفاظت کرتے رہے وہ در حقیقت ازدواجی زندگی میں عورتوں کے کردار بارے میں یہی نظریات رکھتا ہے-
اس میں عورت کی حیثیت جذبات سے عاری ایک روبوٹ کی ہے جسکا کام بیڈ روم میں مرد کی راحت کا سامان کرنا، کچن میں سارے گھرآنے کی ضرورت کا سامان کرنا، بچے پیدا کرنا تو شامل ہے لیکن اس Hinduized یا ہندو مت زدہ اسلام کے لٹریچر میں اس عورت کی جذباتی، جنسی، سماجی ضرورت پوری کرنے کی سوچ مشکل سے ہی ملے گی-
دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ باجیاں اور امریکا میں کئی دھائیوں سے مقیم باجیاں بھی اکثر اسی اسلام کی تبلیغ کرتی ہیں- کبھی کبھی یہ خواتین اس میل اورینٹڈ male oriented معاشرے میں پھیلے نظریات کی حمایت میں خود مرد سے بھی بہت آگے نکل گئی ہیں-
امریکا میں مقیم ایک معروف خاتون کالم نگار جو شاید نوائے وقت کے لئے مستقل لکھتی ہیں نے تو پچھلے دنوں یہاں تک کہہ دیا کہ عورت کی تخلیق کا مقصد صرف مرد کو خوش کرنا ہے- اسے صرف اور صرف مرد کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے- یعنی عورت کا کوئی آزاد وجود نہیں ہے- اسکے خواب، خواہشات، شخصیت، جذبات اور ضروریات کا کوئی جواز نہیں ہے- الا ماشا الله
ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے
ان خاتون کے نظریات کے تناظر میں اب ذرا ان الفاظ پر غور کریں
“woman is destined by nature to please and to be subjected to man.”
کاش ان کالم نگار خاتون کو جو امریکا میں بیٹھ کر دھواں دار کالم لکھتی ہیں اور عورت سے اپنی نفرت اور حقارت کا اظہار کرتی ہیں کوئی بتا سکتا کہ یہ الفاظ قران کے نہیں بلکہ 1789 میں فرانس کے’’ڈیکلریشن آف دی رائٹس آف مین اینڈ سٹیزنز‘‘ ہیں جسے اقوام متحدہ کے موجودہ ’’یونیورسل چارٹر آف ہیومن رائٹس‘‘ کی اساس سمجھا جاتا ہے-
(جاری ہے)
(
تزئین فرید Tazeen Farid
حیا ڈے مبارک(تیسری قسط)____________تزئین حسن

بہن جہاں تک یاد پڑتا ہے، مردوں کے لئے بہشتی گوہر نامی کتاب لکھی تھی مولانا نے۔
LikeLiked by 1 person
شاید مردوں اور شوہروں کو خوش کرنے کے لئے! اسی لئے جہیز میں دینے کی روایت ڈالی گئی!
LikeLike