بیاض از عمر

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی ، ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی
خُدا اگر دِل فطرت شناس دے تُجھ کو ، سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر

___

یقیں کی دُھوپ میں سایہ بھی کُچھ گمان کا ہے
یہی تو وقت مُسافر کے اِمتحان کا ہے

__

وقت ، احباب ، پرچھائیں ، سورج ، کرن ، لوگ ، دُنیا ، خوشی ، چاندنی ، زندگی ………
میرے محبوب اِک تیرے غم کے سِوا ، جو مِلا زندگی سے جُدا ہو گیا

__

پہلے اِک لمحے کی زنجیر سے باندھا مُجھ کو …
اور پھر وقت کی رفتار بڑھا دی اُس نے

__

لمحوں کے تعاقب میں گزر جائیں گی صدیاں
یوں وقت تو مل جائے گا مہلت نہ ملے گی

__

رات تو وقت کی پابند ہے ، ڈھل جائے گی !…
دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کِتنا ہے

__

ہمارے اپنے حصے کا ابھی جو وقت باقی ہے، خدائی میں وہ کتنا ہے خدا جانے
لبالب روغنِ جاں سے چراغوں نےابھی طاق ہوا پر اور کتنی دیر جلنا ہے، ہوا جانے

___

سوچا یہ تھا وقت مِلا تو ٹُوٹی چیزیں جوڑیں گے
اب کونے میں ڈھیر لگا ہے، باقی کمرہ خالی ہے

زندگی کیوں نہ تجھے وجد میں لاؤں واپس
چاک پر کوزہ رکھوں ، خاک بناؤں واپس
دل میں اک غیر مناسب سی تمنا جاگی
تجھ کو ناراض کروں ، روز مناؤں واپس
وہ مِرا نام نہ لے صرف پکارے تو سہی
کچھ بہانہ تو ملے دوڑ کے آؤں واپس
وقت کا ہاتھ پکڑنے کی شرارت کر کے
اپنے ماضی کی طرف بھاگتا جاؤں واپس
دیکھ میں گردشِ ایام اُٹھا لایا ہوں
اب بتا کون سے لمحے کو بُلاؤں واپس

اِنہی ساعتوں کی تلاش ہے جو کیلنڈروں سے اُتر گئیں ،
جو سمے کے ساتھ گُزر گئیں وہی فرصتیں مجھے چاہئیں ۔۔۔۔
کہیں مِل سکیں تو سمیٹ لا مرے روز و شب کی کہانیاں ،
جو غُبار وقت میں چُھپ گئیں وہ حکایتیں مجھے چاہئیں

وقت سے کون کہے
یار ذرا آہستہ
گر نہیں وصل تو یہ خوابِ رفاقت
ہی ذرا دیر رہے
وقفہ خواب کے پابند ہیں
جب تک ہم ہیں
یہ جو ٹوٹا تو بکھر جائیں گے سارے منظر
تیرگی زاد کو سورج ہے فنا کی تعلیم
ہست اور نیست کے مابین اگر
خواب کامل نہ رہے
کچھ نہ رہے
وقت سے کون کہے
یار ذرا آہستہ

مسافر حوصلہ رکھنا سفر کی حد نہیں ہوتی،کوئی سرحد نہیں ہوتی
پسِ کہسار بھی اک دُوسرا کُہسار ممکن ہے،ابھی یہ سوچنا ہو گا

کوئی نہ ساتھ چلا ، راستہ ہی ایسا تھا
مِرے ہی نقشِ قدم میرے ہمسفر ٹھہرے

نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا
کیا بھولا کیسے بھولا کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو
کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا
کیسے دن تھے کیسی راتیں کیسی باتیں گھاتیں تھیں
من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا
اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی
دھندلی چھب تو یاد رہی کیسا تھا چہرہ بھول گیا
یاد کے پھیر میں آ کر دل پر ایسی کاری چوٹ لگی
دکھ میں سکھ ہے سکھ میں دکھ ہے بھید یہ نیارا بھول گیا
ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
ایک نظر کا نور مٹا جب اک پل بیتا بھول گیا
سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ
لہر لہر سے جا سر پٹکا ساگر گہرا بھول گیا

یوں کیسے کٹ سکے گا کڑی دھُوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں

دھوکہ ہے اِک فریب ہے منزل کا ہر خیال
سچ پوچھیۓ تو سارا سفر واپسی کا ہے

….. اداس راہیں ، شکستہ آہیں ، مِرا مقدر ، مِرا اثاثہ
طویل کاوش پس ِسفر ہے ، بہت ہی مشکل مِرا خلاصہ

اجنبی کوئی لاکر
ہمسفر بنا ڈالیں
ساتھ چلنے والوں کی
راکھ بھی اڑا ڈالیں
یا مسافتیں ساری
خاک میں ملاڈالیں
راستوں کی مرضی ہے

منزل تو خوش نصیبوں میں تقسیم ہو چکی
کُچھ خوش خیال لوگ ابھی تک سفر میں ہیں

سفر سے باز رہنے کو کہا ہے
کسی نے کھول کر تسمے ہمارے

شعلۂ عشق بھی ّرکھا کہ نہیں
اپنا سامانِ سفر غور سے دیکھ

آنکھ ٹھہرے ہوئے پانی سے بھی کتراتی ہے …
دل وہ رہرو کہ سمندر کے سفر کو ترسے

گُمشدہ رختِ سفر میں تیری تصویر بھی تھی
ورنہ ہوتا نہیں اِتنا مُجھے سامان کا دُکھ

مِری حیات کے سارے سفر پہ بھاری ہے
وہ ایک پل جو تری چشمِ اعتبار میں ہے

رقص کرنے کا ملا حکم جو دریاؤں میں
ہم نے خوش ہو کے بھنور باندھ لئے پاؤں میں
ان کو بھی ہے کسی بھیگے ہوئے منظر کی تلاش
بوند تک بو نہ سکے جو کبھی صحراؤں میں
اے میرے ہمسفرو تم بھی تھکے ہارے ہو
دھوپ کی تم تو ملاوٹ نہ کرو چھاؤں میں
جس برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
اس کو دفناؤ مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں
حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا
اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں
جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج
بٹ نہ جائے ترا بیمار مسیحاؤں میں
ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے
اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں
وہ خدا ہے کسی ٹوٹے ہوئے دل میں ہو گا
مسجدوں میں اسے ڈھونڈو نہ کلیساؤں میں

یونہی اپنے آپ میں مبتلا، مِری ساری عُمر گزر گئی
مجھے جس کا ڈر تھا وہی ہُوا، مِری ساری عُمر گزر گئی
کئی غم زدوں کے تھے قافلے، کئی دلبری کے تھے سلسلے
میں کسی کی سَمت نہیں گیا، مِری ساری عُمر گزر گئی
کبھی سِلتے سِلتے اُدھڑ گیا، کبھی بنتے بنتے بگڑ گیا
کوئی مجھ کو شکل نہ دے سکا، مِری ساری عُمر گزر گئی
جو بڑی اٹھان کا شخص تھا، عجب آن بان کا شخص تھا
وہی شخص مجھ میں بکھر چکا، مِری ساری عُمر گزر گئی
کسی ماہ وَش کی نگاہ میں، کسی خانقاہ کی راہ میں
یونہی در بَہ در، یونہی جا بَہ جا، مِری ساری عُمر گزرگئی
مِرا اختیار نہیں میں تھا، میں تلاش ِ نان ِ جَِویں میں تھا
کوئی لمحہ اپنا نہیں جیا، مِری ساری عُمر گزر گئی
مِری حرفِ غم کی سپاہ تھی، کبھی آہ تھی، کبھی واہ تھی
یہی شور مجھ میں رہا بپا، مِری ساری عُمر گزر گئی
کئی ناشنیدہ خیال تھے، مِرے پاس کتنے سوال تھے
مگر اِس سے قبل کہ پوچھتا، مِری ساری عُمر گزر گئی
میں تلاش ِ شہر ِ دِگر میں ہوں، میں ازل سے ایک سفر میں ہوں
میں کسی بھی گھر میں نہیں رہا، مِری ساری عُمر گزر گئی
مِرا اصل عین ِ شہود تھا، کہ میں خود وراے وجود تھا
نہ خودی ملی، نہ خدا ملا، مِری ساری عُمر گزر گئی
مِرا اور ہی کوئی طَور تھا، مِرا ایک اپنا ہی دَور تھا
مِرا دَور مجھ کو نہیں ملا، مِری ساری عُمر گزر گئی
مِرے اپنے جوگ بجوگ تھے، نہ یہ شہر تھا، نہ یہ لوگ تھے
سو میں خود میں چھپ کے پڑا رہا، مِری ساری عُمر گزر گئی
مِری کج نوِشت عبارتیں، مِری کم وفور عبادتیں
کوئی کام ٹھیک نہ کرسکا، مِری ساری عُمر گزر گئی
میں اسیر ِ بادہءِ عشق تھا، میں فقیر ِ جادہءِ عشق تھا
میں گزر چکا، میں گزر گیا، مِری ساری عُمر گزر گئی
ہر اک انجمن میں پڑھے گئے، مرے شعر خوب سنے گئے
مِرا غم کسی نے نہیں سنا، مِری ساری عُمر گزر گئی
میں ہوں آپ اپنا شریک ِ غم، مجھے اعتراف بَہ چشم ِ نم
مرا حق نہ مجھ سے ہوا ادا، مِری ساری عُمر گزر گئی
مِری اُن صفات کا کیا بنا؟ مِرے ممکنات کا کیا بنا ؟
میں کہاں گیا؟ مِرا کیا بنا،؟ مِری ساری عُمر گزر گئی
مِرا اختتام قریب ہے، تُو نئی غزل کا نقیب ہے
سو تری ہوئی یہ سخُن سرا، مِری ساری عُمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں
یہی خوف دل میں رہا سدا، مِری ساری عُمر گزر گئی

ہے شوق سفر ایسا کہ اِک عمر سے ہم نے
منزل بھی نہیں پائی ….. رستہ بھی نہیں بدلا

پڑاؤ اتنے ہیں راستے میں ، اداسیوں کا غبار وافر
سفر تو کٹنا ہے ، کٹ رہا ہے ، صعوبتوں کا شمار وافر
شکستہ دل تھے ، رہے ہمیشہ ، جنون ہی وجہِ وبال ٹھرا
ہے تیری چوکھٹ فریب منزل ، بھٹک رہےہیں سوار وافر
یہ دھوپ چھاؤں کے کھیل جیسی ہے اپنی اُفتاد کُن طبیعت
نظر کی وحشت کا جذب اول ، محبتوں کا خُمار آخر
وفا شعاروں کی محفلوں سے نظر کے ابرِ کرم کی حد تک
عقل تذبذب کی رہ گزر ہے، دِلوں کو ہے بس قرار آخر

اِک پل جو ہو تیرے ساتھ کا ، میری عمر بھر کو سمیٹ لے ..
میں فنا، بقا کے سبھی سفر اسی ایک پل میں گزار دوں

ہوا تو ہم سفر ٹھہری سمجھ میں کس طرح آئے ……
. ہواؤں کا ہماری راہ میں دیوار ہو جانا

میرے قرطاسِ عمر پر اس نے
ہرکٹھن رہ ، سفر سفر لِکھی

…. محوِ سفر رہے ہیں قَدم اور قَلم سَدا
رُک پاتےگر کہیں تو کوئی گھر تراشتے

اِک نام کی اُڑتی خوشبو میں اِک خواب سفر میں رہتا ہے …
. اِک بستی آنکھیں ملتی ہے اِک شہر نظر میں رہتا ہے

_______________

انتخاب:عمر الیاس

2 Comments

Leave a reply to Legacy of Thoughts Cancel reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.