منوڑہ،سمندر اور رسالہ

وہ ایک پھٹا ہوا رف صفحات والا اردو ناول تھا ۔ایسے پھٹا ہوا کہ اس کا نام اور رائیٹر کا نام معلوم نہ ہوا۔وہ میری ایک سہیلی کے پاس تھا جسے لیکر میں نے اسکول میں ہی پڑھنا شروع کیا۔میں نے اسکول میں اتنا بچوں کا ادب پڑھا جتنا میں نے کبھی گھر میں نہیں پڑھا۔کیونکہ میرے گھر میں بچوں کا ادب موجود نہ تھا جبکہ اسکول میں اکثر سہیلیوں کے پاس لازما بچوں کے رسالے موجود ہوتے جو ہم ایک دوسرے سے لے کر پڑھ لیتں۔اور شکر ہے کہ میری کلاس کی سب ہی لڑکیاں اچھی تھیں سب ہی پڑھنے کے لئے ایک دوسری کو کہانیاں اور رسالے پاس کرتی رہتی تھیں۔
مجھے گھر سے صرف اسکول کے امتحانات ختم ہونے کے بعد نونہال یا تعلیم وتربیت ملتا تھا۔
کبھی کبھی امی سے نونہال دلوانے کا وعدہ لیتی اور اس کے لئے کئی کئی روز امی کی ٹانگیں دباتی۔ ،پھر مہینے کے شروع میں روزانہ شام کو اخبار والے کے انتظار میں باہر کھڑی ہو جاتی تا کہ اسے نونہال لانے کا کہہ سکوں۔کہیں وہ چپکے سے اخبار پھینک کر چلا نہ جائے۔اور جب مل جاتا تو ہاتھ میں پکڑے ناچتی پھرتی،چھپا چھپا رکھتی،سنبھال سنبھال!۔
کیا عشق تھا مجھے نونہال کے خوبصورت چمکتے ہوئے کور سے۔دل کرتا اسے چوما چائے چاٹا جائے یا کھا ہی لیا جائے!آج بھی ادریس بک بینک کے کاوئنٹر پر نونہال پڑا ہو تو اسے اٹھا کر دیکھتی ضرور ہوں اور اس رومانس کی کمی محسوس کرتی ہوں جو گیارہ بارہ سال کی عمروں میں اس سے تھا۔دو تین بار خرید کر بھی لائی مگر میرے بچے اردو پڑھ نہ سکے۔وہ اس کی ایسی قدر کر ہی نہ سکے جو انکی ماں کے دل میں تھی۔
جنگ اخبار کے ساتھ جمعرات کو بچوں کا ایک میگزین آتا تھا وہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ میگزین سے ایک آدھ صفحات تک محدود ہوتا چلا گیا تھا ۔مگر میں نے وہ وقت دیکھا ہے جب بچوں کا جنگ باقاعدہ ایک چار صفحات کا رسالہ تھا جسکے ٹائیٹل پر بچوں کے کور فوٹوز لگتے تھے(ایسے جیسے ابھی بھی ڈان کے ساتھ بچوں کا ایک رسالہ آتا ہے جسے میرا بیٹا جمع کرتا ہے)۔
میرے پاس ان رسائل کا ایک ڈھیر جمع تھا۔سارا بچپن اس جنگ اخبار نے ہمارے مطالعہ کو بہت سہارا دیا .بچوں کے رسالے سے شروع ہو کر ادب اور علم سب سے پہلے اسی اخبار اور اسکے رسالوں سے حاصل کیا۔آدھا اردو ادب صرف انہیں رسالوں سے پڑھا جب وہاں باقاعدہ کلاسک افسانے اور ناول چھپتے تھے۔جب رسالہ صرف اشتہارات کے پمفلٹ کا نام نہ تھا۔پھر کالمز بھی پڑھنے وہیں سے شروع کئے جب ارشاد احمد حقانی اسکے ایڈیٹر تھے اور عبدالقادر حسن ،مجیب الرحمن شامی ، منو بھائی ،حسن نثار جیسے نام سب سے پہلے جانے تھے تب تک حامد میر کہیں نظر بھی نہ آتا تھا۔تب جیو کا بھی کوئی وجود نہ تھا!
تو وہ پھٹا ہوا ناول اس دن میں ختم نہ کر سکی ۔مگر وہ عجیب دلفریب ناول تھا جسمیں کچھ بچے منوڑہ کے غاروں میں کھو جاتے ہیں۔وہ دلچسپ اور ایڈوینچرس ناول تھا جس نے اسکول کی ایسی بچی کے جس نے نہ کبھی منوڑہ دیکھا تھا نہ کراچی کا سمندر کے دماغ میں خوبصورت تخیل پیدا کیا جو آج تک جیتا ہے ۔وہ بچے ان غاروں سے کیسے نکلے، مجھے ساری عمر نہ معلوم ہوا۔کہ جسکا تھا اسے گھر واپس لیجا کر لائبریری واپس کرنا تھا اور وہی ایک ہی دن تھا جب مجھے اسے پڑھنا تھا۔میں اس ناول کو دوبارہ کبھی نہ پڑھ سکی کہ مجھے نہ اسکا نام پتا تھا نہ رائیٹر کا نام۔مجھے آج تک اسکی تشنگی ترساتی ہے۔
آج بچوں کو انکی کتابیں لیکر دیتی ہوں تو اکثر مجھے وہ ناول یاد آتا ہے،وہ ادھوری لذت، وہ تشنگی، وہ لطف جو مکمل نہ ہو سکا!
سوچتی ہوں ہمارے اردو بچوں کے لئے کوئی آج بھی ایسا ادب لکھتا ہے ۔کوئی ویمپی کڈ جیسی پپوسیریز،کوئی ڈورک ڈائری جیسی گڑیا یا پنکی کہانی۔کوئی چھوٹے چھوٹے ایڈوینچر جو اخلاقی سبق پر ختم نہ ہوں مگر انجانے میں بچوں کی سمت کا تعین ضرور کر دیں۔کاش کی کوئی آج بھی ایسا لکھتا ہو۔
میں نے اسکول پڑھاتے پانچوں کلاس کے بچوں سے کہا اردو کہانیاں پڑھا کریں،تا کہ آپکی زباں بہتر ہوں۔بچوں نے کہا اردو میں کہانیاں ہی نہیں ہیں جو ہیں اتنی فضول ہوتی ہیں۔میں نے اگلے دن جا کر بچوں کی لائبریری دیکھی واقعی وہاں انگلش کی کہانیوں کی تو بہت ورائٹی تھی اردو میں دو چار چھوٹے بچوں کی کہانیوں کےسوا کچھ نہ تھا۔تب سے سوچ رکھا ہے کہ مجھے بچوں کے لئے ضرور لکھنا ہے۔اور میں سلام پیش کرتی ہوں ان رائیٹرز کو جو اس اندھیر نگری میں بچوں کے لئے لکھتے ہیں۔
ہماری ساری قوم بہت شوق سے اردو سے انگریزی کی طرف جا رہی ہے۔میں یہ سفر کم سے کم سولہ سترہ سال پہلے کر چکی ہوں۔اور میں آج آپکو ایک فقرے میں اسکا جواب دیتی ہوں۔یہ گھاٹے کو سودا ہے جو ہم رنگین خوابوں میں پڑ کر کر گئے ہیں یا کر رہے ہیں۔کیسے؟
کبھی تفصیل سے لکھوں گی۔مگر یاد رکھیں،اپنی زباں کا کھو جانا اتنا بڑا نقصاں ہے جتنا کسی انسان کا گونگا ہو جانا! آج آپکے بچے صرف انگلش کہانیاں پڑھتے ہیں تو آپکا کل گونگا ہے۔ایک دن آپ بولیں گے مگر آپکی نسلیں سن نہ سکیں گی!آپکے اور انکے درمیان لفظوں کا تعلق ختم ہو جائے گا!۔۔۔۔۔۔۔۔

_________________

صوفیہ کاشف

دو فروری

دو ہزار چوبیس

7 Comments

  1. آپ نو نہال پڑھتی تھیں اور میں دھنک جس میں حسن نثار کی کمال کی تحریریں ہوتی تھیں اور اخبار جہاں جو کہ میں کھولتا ہی تین عورتیں تین کہانیاں سے تھا۔ پلیز بچوں کے لیے کچھ لکھا کریں آپ کی تحریر کمال کی ہوتی ہیں۔ کبھی ابن صفی اور عمران کے جاسوسی ناول پڑھے اور ہاں اردو ڈائجسٹ بھی کمال کا تھا

    Liked by 1 person

    1. ابن صفی اور عمران ڈائجسٹ دونوں نہیں پڑھے۔میرے آس پاس کوئی نہ پڑھتا تھا اس لئے کبھی دیکھے ہی نہیں۔بہاولپور میں چچا کے گھر ڈائجسٹ آتے تھے تو جب انکی طرف چکر لگتا انکے سارے گھر سے چن چن کر ڈائجسٹ پڑھ آتی تھی۔امی کا ایک رضیہ بٹ کا ناول ہاتھ لگا تھا تیسرے چوتھے گریڈ میں اور وہ پڑھنے کے شوق میں ہی پڑھ لیا تھا سمجھ تب آئی جب ایف ایس سی میں دوبارہ پڑھا۔اسکول کی بریک میں کھیلتی نہیں تھی بلکہ اپنی کزنز سے انکی اردو کی کتابیں لا کر اس میں سے کہانیاں پڑھتی تھی۔ہر کلاس میں میرا کوئی نہ کوئی کزن تھا چناچہ میں نے پورے دس سالوں کی اردو کی کتابیں ہمیشہ پڑھی ہوتی تھی۔اسی لئے ہر سال دعا کرتی کہ اللہ کرے اردو کی کتاب بدل جائے۔ورنہ بار بار پڑھ کر بور ہوتی۔اب بلکہ بہت کم پڑھا جاتا ہے۔اب توجہ اور بہت سی چیزوں میں بٹ چکی ہے۔تب ہمارے ساری عیاشی کتاب اور رسالے ہی تو تھی۔

      Liked by 1 person

  2. کراچی کی ایک لوک کہانی اور اس پر لکھا گیا لوک گیت

    روزنامہ جنگ، میگزین ڈیسک
    01 اگست ، 2019
    عبدالغفور کھتری

    کسی علاقے میں مقیم آبادی کی ایک بڑی تعداد کے ذہنوں کو متاثر کرنے والا کوئی انوکھا واقع یا کوئی دلدوز سانحہ ان کے ذہنوں سے بآسانی محو نہیں ہوتا۔ وہ واقعہ باعث افتخار ہو تو فخریہ انداز میں اور قابل افسوس ہو تو غمناک انداز میں وہ اسے بیان کرتے رہتے ہیں۔ پھر وقت کی لے پر چلتے چلتے وہ لوک کہانی یا لوک گیت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

    بارہویں صدی عیسوی میں کراچی کی حدود گلبائی کے قریب وقوع پذیر ہونے والا ’مورڑو‘ کا واقعہ آج بھی لوک ادب کی زینت ہے۔

    اسی طرح آج سے ایک سو سال قبل کراچی ہی میں رونما ہونے والا ایک واقعہ کراچی کے لوک ورثے کا ایک حصہ ہے۔ چونکہ اس واقعے کو گزرے صرف سو سال ہوئے ہیں۔ اس لئے اس کے تما م کردار، مقام اور وقوع پذیر ہونے کی تاریخیں اپنی صحیح حالت میں کراچی کی تاریخی کتابوں میں محفوظ ہیں۔

    واقعات کے مطابق 1886ء میں انگلینڈ میں تیار کردہ ’’واٹرنا‘‘ نامی بحری جہاز، نہر سوئز کی بندش کی بناء پر افریقہ کا طویل چکر کاٹ کر کراچی کی بندرگاہ کیماڑی پہنچ کر یہاں لنگر انداز ہوا۔ یہاں سے اس کے پہلے تجارتی سفر پر روانگی کےلئے تیاریاں مکمل تھیں۔

    سمندر میں چلنے والے دیگر جہازوں کی بہ نسبت ٹیکنالوجی کی بناء پر یہ انیسویں صدی کا ایک عجوبہ تھا۔25000ہارس پاور کے انجن اور آٹھ پنکھوں کی مدد سے چلنے والا یہ جہاز 600میٹر طویل اور 150فٹ چوڑا تھا۔

    مائیکل فیڈ نامی ایک انگریز انجینئر نے اس وقت مقناطیس کے ذریعے بجلی بنانے کا تجربہ اس جہاز کو روشن کرنےکےلئے کیا تو سیکڑوں بلبوں کی بدولت بقعہ ٔ نور بنے اس جہاز کو الیکٹرک سے ناواقف مقامی لوگوں نے ’واٹرنا‘ کی بجائے ’بجلی‘ کا نام دیا اور جہازراں کمپنی کے بمبئی اور کراچی کےلئے مقررہ ایجنٹ ’حاجی قاسم آگبوٹ والے‘ کو لاعلمی کی بنا پر مذکورہ جہاز کی ملکیت کی ’سند‘ بھی عطا کر دی۔ یوں یہ جہاز ’حاجی قاسم کی بجلی‘ سے معروف ہو گیا۔

    کراچی سے مانڈوی کچھ، دوارکا، پور بندر، مانگرول اور بھائونگر تک کے روٹ پر اپنے پہلے سفر کےلئے روانہ ہونے پر 1400مسافروں کی گنجائش رکھنے والا ’واٹرنا‘ تقریباً ہائوس فل ہی تھا۔ دراصل ان دنو ں بمبئی، سندھ، کچھ اور کاٹھیاواڑ میں ہیضہ، طاعون اور قحط کی وجہ سے تین سال بہت المناک گزرے اور اب آسودگی ملنے پر ملتوی شدہ شادیاں اور دیگر کاموں کے حوالے سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کراچی سے بمبئی، کچھ اور کاٹھیاواڑ جانا چاہ رہی تھی۔

    جہاز میں سوار ہونے والوں میں 18راجکمار (مہاراجوں کے بیٹے) تھے، جو بغرض ِ شادی کچھ، کاٹھیاواڑ اور بمبئی جا رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک ہزار کے قریب باراتی تھے اور کراچی کے بمبئی سے ملحق ہونے کی وجہ سے400 طالب علم میٹرک کے امتحان دینے بمبئی جا رہے تھے۔

    جمعرات 5نومبر 1886ء کو تقریباً 1400ہنستے مسکراتے لوگوں کو لے کر ’واٹرنا‘ اپنے پہلے یا شاید آخری سفر کیلئے کراچی کی بندرگاہ سے روانہ ہو گیا۔

    آٹھ گھنٹے کی مسافت کے بعد جہاز کے گجرات کی بندرگاہ، بندر، پہنچتے پہنچتے سمندر نے طوفانی کیفیت اختیار کر لی۔ پور بندر میں جہازراں کمپنی کے مقرر کردہ ایجنٹ نے جہاز کے کپتان کو طوفان تھمنے تک مزید آگے جانے کے بجائے بمبئی جانے کی ہدایت کی، مگر ضدی کپتان نے ایجنٹ کی ہدایت کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے سفر کو جاری رکھا اور پور بندر سے مانگرول کی طرف روانہ ہو گیا۔ سمندری کی تیز و تند لہروں میں یہ جہاز کھلونے کی طرح ہچکولے کھانے لگا۔ پوربندر سے نکلنے کے بعد یہ جہاز نہ مانگرول پہنچا اور نہ ا س کی کوئی خبر ملی۔

    طوفانی سمندر کی بے رحم لہروں نے ’واٹرنا‘ کو نگل لیا۔ میٹرک کا امتحان دے کر کامیابی کی صورت میں اگلی کلاسوں کی درجہ بہ درجہ منزلیں سر کرتے ایک کامیاب زندگی کا خواب دیکھنے والے طالب علم اور سر پر سہرا سجنے کی خواہش رکھنے والے راجکمار اور ان کی خوشیوں میں ساتھ دینے والے باراتی۔ سب کے سب نہ جانے کہاں گم ہو گئے۔ یہ معمہ آج تک حل نہ ہو سکا۔

    اس اندوہناک حادثے سے سندھ، کچھ، کاٹھیاواڑ اور بمبئی کے ہزاروں لواحقین سکتے میں آگئے، وہ آج تک اس سانحے کو نہیں بھولے۔ اپنے لوک گیتوں میں آج بھی وہ اس سانحے کو اس طرح یاد کرتے ہیں۔‘‘

    گجراتی سے ترجمہ:

    حاجی قاسم تیری بجلی بیری ہوئی

    بیچ سمندر میں بیری ہوئی

    ناخدا تو نے بات نہ مانی ’پنل کی

    نہ رکھا پاس تو نے اندیشہ ٔ مہارائو

    تو ہوا فقط اپنی انا کا اسیر

    تیرا سفینہ ہوا بیری بیچ منجھدار

    کتنی حسیں صورتیں تہہ آب ہو گئیں

    کتنی مسرتیں غم میں پنہاں ہو گئیں

    کتنی آشائوں کے دیپ بھج گئے

    حاجی قاسم تیری بجلی بیری ہوئی

    بیچ سمندر میں بیری ہوئی

    ’’کراچی کی کہانی تاریخ کی زبانی‘‘ سے ماخوذ آپ کے لئے کاپی پیسٹ کیا ہے

    Liked by 1 person

Leave a reply to sofialog Cancel reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.