تتلیوں اور جگنوؤں کے خواب!


~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

میں بہت چھوٹی تھی جب میں نے  کچھ دیر اکیلے اپنے ساتھ رہنا اور اپنی کمپنی کا مزا لینا سیکھا تھا۔تب جب مجھے یہ بھی نہیں پتا تھا کہ ایک دن یہ باتیں ہمیں کتابوں میں،بلاگز  اور ویلاگز میں، انسٹاگرام پوسٹس میں اپنے بچوں کو سکھانی  اور سمجھانی پڑیں گی۔ایسا بھی نہیں تھا کہ میں انٹروورٹ تھی۔میں بہت سوشل،گپ شپ کی شوقین،بہت سی سہیلیوں والی اسکول و کالج کی مقبول ترین لڑکی تھی۔اکثریت مجھے ادارے کی حسین ترین ،سمارٹ ترین،مغرور ترین لڑکی سمجھتی تھی اور میری دوستی کو ترستی تھی ۔میں اپنی مرضی کی لڑکی کو دوست بناتی تھی،جب چاہے بناتی تھی،جب چاہے چھوڑ جاتی تھی۔اب اتنی مقبولیت پر اتنا خراب دماغ تو بنتا ہی تھا میرا۔لیکن تب بھی مجھے روز رات میں کچھ دیر چاند ستاروں میں رہنا خوبصورت لگتا تھا،اندھیری رات میں چاند،ستارے،ٹھنڈی ہوا،خموشی اور میں اور میرے خیالات، میرے جذبات!
تب میں تیرہ چودہ سال کی اسکول کی لڑکی تھی جب میں اپنے ابا کے گھر روزانہ رات کو چھت پر واک کے لئے جاتی تھی۔صاف ستھری کشادہ چھت پر بیٹھنے کے لئے  کچھ  آوٹ ڈور کرسیاں اور میز  رکھی تھیں۔ اور باقی ہر طرف واک کے لئے  کشادہ جگہ تھی،قریب قریب کسی کے گھر کی دیوار نہ جڑتی تھی اس لئے سیکورٹی کا کوئی مسلئہ نہ تھا اور  گھر والے  جانتے تھے کہ مغرب کے بعد صوفیہ چھت پر ملے گی!
ہلکی ہلکی اداس ہوا
جب نیند چرائے گی
کوئل نے  گیت سنایا
جب بلبل گانا گائے گی
تمھیں یاد ہماری آئے گی!
جب اندھیری رات میں
سفر نہ کوئی ختم ہوا
دور کہیں آسماں پر
ستارہ گر ٹوٹ گرا
  چاند پہ بیٹھی بڑھیا جب
ہلکا سا مسکرائے گی
تمھیں یاد ہماری آئے گی۔
کوئی سوچ سکتا ہے یہ خوبصورت نظم اسکول کی چودہ پندرہ سالہ بچی صوفیہ نے لکھی تھی؟
تب جذبات بھی کتنے سستے تھے،جب چاہتے امنڈ آتے تھے۔جب کوئی بھی ہیرو،کسی فلم ڈرامے کا مظلوم کردار،کوئی راج کوئی راہول، کسی کہانی اور ناول کا کردار تک پیارا لگ جاتا تھا۔ذندگی کتنی آسان تھی۔کسی بھی جذبے کا پلو تھامے نظم  یا غزل لکھ دو! آج جیسے حالات نہ تھے کہ حقیقتیں اتنی ہم پر اتریں   کہ آنکھ بند کر کے گھنٹوں بیٹھے رہو،خواب ہے کہ اترتا نہیں۔اس عمر تک آتے آتے انساں کے خوابوں کےجنگل میں خزاں اتر آتی ہے!
تو تب سے سیکھنا شروع کیا تھا کہ خود سے ملنا اور خود کو وقت دینا گناہ نہیں ہے!
اپنے لئے جی نہ سکیں تو کچھ تھوڑا سا ہی  اپنے لئے بھی جی لینا____گناہ نہیں ہے!
!
شاعری کی وجہ سے مشکلیں بہت جھیلیں،پہرے بھی لگے،زنجیریں بھی مگر خود کو یہ سمجھا دیا۔
کہ شاعری گناہ نہیں ہے!
گانا اور مسکرانا گناہ نہیں ہے!
سوچنا اور محسوس کرنا گناہ نہیں ہے!
یہ ہماری بشریت کے تقاضے ہیں،یہ ہمارے انساں ہونے کی گواہیاں ہیں۔
ہمیں فرشتے بننے کے لئے نہیں اتارا گیا۔ہمیں انساں رہنا ہے
ہمارا سارا وجود ہی غلطی کرنے اور سیکھنے آگے بڑھنے پر کھڑا ہے۔!
اور جب بات آج کی اور ہماری عورت کی ہو تو مجھے تو یہ لگتا ہے کہ ہماری عورت کے لئے یہ عین ثواب کی باتیں ہیں!
کس قدر گھٹی ہوئی سانس ہے ہماری عورت کہ خالی سانس  تک لیتے ڈر جاتی ہے ہے،خواب دیکھنے جرم بن جاتے ہیں،سچ کہتے اور سنتے کانپ جاتی ہے کہ اتنے سچ کہاں لے کر جائے گی،
اس معاشرےکی عورت ایک جھوٹ ہے جس کے اندر اسے قید کر دیا گیا ہے!
اور وہ اپنے اس جھوٹ سے پیار کرنے،اس سے نبھاہ کرنے اور اس کا دفاع کرنے پر مجبور ہے!
میں پچھلے تیس سال سے خود پر نافذ کردہ ان گناہوں کو چن چن کر اتار رہی ہوں مگر  یہ گناہ اتنے ہیں کہ آج بھی آگے ایک طویل سفر نظر آتا ہے
ذرا ایمانداری سے دل پر ہاتھ رکھیں کیا خدا کا پہلا تعارف آگ اور جہنم سے نہیں ہوا؟
زبان جلانے آگ میں پھینکنے سے شروع ہو کر؟
کہانیوں کتابوں کے کرداروں کی بات چھوڑیں،فلم اور ڈراموں کے کرداروں کی بھی چھوڑیں  اپنی بتائیں کتنے لوگوں نے بچپن میں جلال سے پہلے رحمان کو جانا تھا؟
انسان ہونا گناہ نہیں ہے!
مگر خود کو وہی انسان رکھ لینا جو خود سے بن گیا گناہ ہے۔اپنی جگہ سے حرکت نہ کرنا اپنے آپ پر اپنی ذندگی پر اپنے لوگوں میں مثبت تبدیلی کی طرف نہ جاتے رہنا گناہ ہے!
(ہمیں گناہ ثواب مزہبی باتیں لگتی ہیں ،میں انہیں کامیابی و ناکامی گردانتی ہوں۔میں نے دیکھا ہے ہر گناہ میں سے ناکامی نکلتی ہے اور اور ہر ثواب کے انجام پر کامیابی۔مجھے یہ ذندگی کامیابی سے گزارنے کی اصلاحات لگتی ہیں مرنے کے بعد کیا ہو گا کی داستان نہیں!)
ہمیں  سکھایا جاتا ہے روایت سے جڑ کر رہنا ثواب ہے!روایت سے آگے جانا گناہ ہے۔
مگر ذندگی نے مجھے سکھایا ہے روایت سے جڑے رہنا غفلت کی اور غلاظت کی شناخت ہے،کھڑے پانی کی پہچان ہیں جس میں کیڑے مکوڑے،غلاظت اور بیماریاں تیرتی ہیں۔۔۔
روایت سے آگے بڑھنا ہی تعلیم و تربیت ہے،یہی اصل ذندوں کیطرح ذندہ رہنا ہے۔بہتے پانی کی طرح جو ذندگی کی علامت ہے جس کی اندر ذندگیاں بستی ہیں۔

آہستہ آہستہ  ایک لڑکی ایک عورت،بیٹی،بیوی ،ماں کی حیثیت سے ذندگی کے مختلف مراحل سے گزرتے سیکھا کہ خود کو سنوار لینا خود کی پرواہ کرنا گناہ نہیں ہے!باپ بھائی اور شوہر کے برابر چلنا کسی کی بےحرمتی نہیں کرتا،سر اٹھا کر چلنا کسی کی تذلیل نہیں کرتا میری  ہستی کی الگ شناخت کا اعلان کرتا ہے!
جھکے کندھوں، مڑی ٹڑی، چادروں کے اندر گھسی کبڑی عورت ہمارے ہاں شریف عورت ہونے کی نشانی ہے۔ہمارے ہاں عورت کا انساں ہونا،اشرف المخلوقات میں شامل ہونا جرم سمجھا جاتا ہے!
عورت کا انساں ہونا گناہ نہیں ہے!
اپنے شوق رکھنا اور خواب جینا
زمیں پر رہ کر ستارے دیکھنا اور کہکشاوں کے تعاقب میں نکلنا گناہ نہیں ہے
شوہر کے قریب پو کر بیٹھنا،اس کا ہاتھ پکڑنا ہمارے معاشرے نے گناہ تصور کر لیا ہے،یہ گناہ نہیں ہے ثواب ہے،غیر ضروری لوگوں کا آس پاس ہونا اور رہنا گناہ ہے!
بھلا میاں بیوی کے بیچ میں ساس سسر،نند بھاوج اور دیور جیٹھ کا کیا کام ہے؟
بچے کو کھانا دینے سے پہلے کھانا کھا لینا گناہ نہیں ہے بلکہ عین باعث ثواب ہے کیونکہ اس سے بچے میں بھی کھانے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔۔
گھر اور میاں بچے سنبھالتے خود کو بھی سنبھال لینا گناہ نہیں ہے کہ بچے اپنے آپ سے پیار کرنا سیکھتے ہیں۔
صاف ستھرا رہنا اور سمارٹ رہنا گناہ نہیں ہے!
اپنے لئے بھی بہترین لینا،بہترین
کھانا،بہتررہنا گناہ نہیں ہے!
گھر گندا صاف رکھنا عورت کا کام نہیں اس سے پہلے خود کو صاف رکھنا ایک انسان کا کام ہے۔
کبھی باقی سب کی چیزیں جوڑے لیتے دو جوڑے اپنے لئے اپنی پسند کے لے لینا بھی گناہ نہیں ہے ضروری نہیں ہر چیز مجاذی خدا کی مرضی کی پہنی جائے۔۔
اپنی مرضی کے وقت پر اپنی مرضی کی جگہ بیٹھ کر اپنی مرضی کے خوبصورت قیمتی کپ میں چائے پی لینا گناہ نہیں ہے۔بلکہ میں تو بہت سالوں تک اپنے لئے چائے کے کپ ہمیشہ سے الگ سے لاتی رہی ہوں مہنگے سے مہنگا خوبصورت سے خوبصورت کپ یا مگ،صرف ایک،صرف میرے لئے،اپنے ناشتے کے لئے ایک خوبصورت پلیٹ بمعہ کپ تا کہ جب بچے میاں سب اپنے اسکول و کالج نکل جائیں تو تنہا میز پر بیٹھ کر اپنی ایک پلیٹ اور کپ میں اپنی پسند کا ناشتہ۔۔۔۔یقین کریں یہ گناہ نہیں ہے!
کچھ چیزیں صرف اپنے لئے، سستی نہیں مہنگی!
ہر وقت گزارے کی کیفیت میں خود کو رکھنا جب کہ باقی سارے گھر کی ہر ہر چیز کو بہترین رکھنا ہماری عام عورت اپنی ماں سے خود بخود سیکھ جاتی ہیں۔ہم پاکستان کی عورتیں نسل در نسل بکریاں پیدا ہوتی رہتی ہیں !
،کوئی کیا کہے گا کیسی عورت ہے۔۔۔۔۔۔۔اس کے آگے جتنے فقرے لگتے ہیں سب جھوٹ ہیں،فریب ہیں آپکو بیمار،مفلوج   اور کنٹرول میں رکھنے کے لئے گھڑے گئے ہیں،اس فقرے کو دماغ سے کھرچ کر نکال ریں،ذندگی آسان ہو جائے گی۔کسی گلی میں چلتے ٹھیلے والے،مزدور،سبزی والے،کسی کولیگ،کسی باس کی جرات نہیں کہ وہ کسی عورت کو جج کرے ۔ہماری عورت سڑک پر چلتے ہر مرد کو شریف اور تابعدار لگنے پر مجبور نہیں ہے!
سامنے والے کو تھپڑ،جوتا مارنا سیکھیں!ہر مرد کی تعظیم آپ پر فرض نہیں ہے۔
میں نے عرب امارات میں بہت انڈین عورت دیکھی۔انڈین اور پاکستانی عورت دور سے الگ نظر آ جاتی ہیں۔انڈین عورت سٹریٹ سمارٹ ہے،مرد بنکر کندھے اور سر اٹھا کر چلتی ہے،ایک سیکنڈ میں ڈرانے والے پر گالی سے لے کر گھونسوں تک سب کچھ انڈیل دیتی ہے۔پاکستانی عورت ،ڈری ہوئی،سہمی ہوئی،سر جھکا کر جسم جوڑ کر چلنے والی ہزاروں لوگوں کے بیچ بھی ہراساں ہو جاتی ہے کیونکہ اسے گھر کے اندر بکری بنانے کی تربیت دی جاتی ہیں۔وہ جنکی معاشرت ہم اپنی سمجھ کر اپنائے بیٹھے ہیں وہ ہم سے کئی میل آگے نکل چکے ہیں۔تعلیم و تربیت سے انہوں نے رواج و معاشرت بدل لی ہے ہم آج بھی وہی گلی سڑی بدبو دار معاشرت سینے سے لگائے بیٹھے ہیں جس میں عورت مرد کے ماتحت آتی ہے۔
جس میں عورت کھڑی ہو کر عورت کی غلامی کی حمایت کرتی ہے،اس کے خواب نوچنے کی وکالت کرتی ہے۔وہ پچیس سال پہلے” دل والے دلہنیا لے جائیں گے” میں سمرن کے ماں نے سوچا تھا میری بیٹی بڑی ہو کر اپنی خوابوں کا سودا نہیں کرے گی۔ہماری عام مائیں آج بھی یہ نہیں سوچ رہیں۔ہم آج بھی بیٹیوں کو خوابوں کے سودے پر اکسا رہے ہیں۔۔
کیا کچھ لکھوں،کہاں تک لکھا جائے کہ تیس سالوں سے یہ سبق سیکھ رہی ہوں مگر معاشرت نے اتنی زنجیریں لپیٹ رکھی ہے کہ کاٹے جاتے ہیں پر ختم نہیں ہوتیں،کچھ تو ساتھ ساتھ دوبارہ سے جڑتی جاتی ہیں۔
ذندگی کے ہر ایک قدم پر ایک نئی زنجیر توڑنی پڑتی ہے،اس دیس کی عورت کی آزادی آسان نہیں ہے۔۔

ہاں مگر کچھ سانس،کچھ توجہ،کچھ وقت ہم خود کو دینا سیکھ سکتے ہیں۔خود سے پیار کرنا سیکھ سکتے ہیں۔خود سے پیار کرنا سیکھیں۔یقین کریں یہ کام کوئی دوسرا  آپ کے لئےکبھی نہیں کرے گا!
________________
صوفیہ کاشف
سترہ نومبر دوہزار تئیس۔

7 Comments

  1. We evolve as individuals, and as society.
    The process is ongoing, continuous and eternal – till our existence here.

    We all have been through a lot, tested with limits (sometimes seemingly more than that!), rubbed & polished… This is one part.

    The next part is when we look at our experiences deep, analyze and infer conclusions.

    There’s still another part: Of us being and becoming examples for others. The part your blog-post talks about…

    In all our haves & have-nots, wills & will-nots and shoulds & should-nots, I think balance is the challenge.
    We may say we can never fully achieve this heavenly attribute, yet balance is what keeps us sane, lets us be in appropriations, keeps us moving objectively, and keeps us alive.

    Thank you, Sofia – for this post. This not only is an account of courage & resilience, but also a narrative & mission-statement for survival in an unforgiving world today.

    They say, if you’re not happy at where you are; move. You’re not a tree.

    And as Kavita Ramdas puts it so well…
    “We need women who are so strong they can be gentle, so educated they can be humble, so fierce they can be compassionate, so passionate they can be rational and so disciplined they can be free.”

    Jeeti rahein.

    Like

      1. ہاں مگر کچھ سانس،کچھ توجہ،کچھ وقت ہم خود کو دینا سیکھ سکتے ہیں۔خود سے پیار کرنا سیکھ سکتے ہیں۔خود سے پیار کرنا سیکھیں۔یقین کریں یہ کام کوئی دوسرا آپ کے لئےکبھی نہیں کرے گا!
        ____________💯💯💯💯💯💯💯💯

        Liked by 1 person

  2. ایک ماہ سے کمنٹ کرنے کا آپشن نہیں آرہا۔ کب موو ہو رہی ہیں کینیڈا؟ پاکستان کو تو فوج بیوروکریسی اور سیاستدانوں نے تباہ کر دیا۔ جب میں سعودی عرب گیا تو ایک ڈالر دس روپئے کا تھا اور دس تولے کی سونے کی بار ۱۸۰۰ ریال کی تھی۔ سوزوکی ساٹھ ہزار کر اور کرولا تین لاکھ کی۔ آٹھ لاکھ میں گارڈن ٹاؤن میں ایک کنال کی کوٹھی لی تھی

    Liked by 1 person

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.