انا لله و انا الیه راجعون

کئی سال پہلے کی بات ہے،چھ سے سات بجے کے درمیان صبح کا وقت تھا جب میں اپنے سیکٹر کے گرد واک کے لئے نکلی تھی۔ان دنوں ابھی کلومیٹرز کے حساب میں نہیں پڑی تھی ابھی صرف گھنٹے کے حساب سے واک ناپتی تھی اور اس سیکٹر کے گرد کا پورا ایک چکر مجھے ایک گھنٹے کا پڑتا تھا۔
بچوں کو اسکول کی بس پر سوار کراتے ہی میں پانی کی بوتل لئے،سر پر پی کیپ پہنے سڑک پر نکل آتی ساڑھے چھ بجے دھوپ آس پاس پھیل چکی ہوتی تھی اور ساڑھے سات بجے تک جب میں واپس آتی سورج کی دھوپ میری آنکھوں میں پڑ رہی ہوتی۔ایسے میں سن کیپ میرے تھوڑا بہت کام آتی مگر سورج ابھی نیچا ہوتا اور گھر کی طرف آتے بالکل سامنے ہوتا۔

عرب امارات ریت کے پہاڑوں پر واقع ہے جہاں دن بہت لمبے اور گرم ہوتے ہیں۔دھوپ چھ بجے تک نکل کر پھیل بھی جاتی ہےساڑھے چھ بجے بچے تک اسکول کے لئے گھر سے بس پر روانہ ہو جاتے تھے۔
وہ اسکول کی نیئ ڈیوو ائیر کنڈیشنڈ پیلی بس جو جہاں کھڑی ہو جائے وہیں پچھلی ٹریفک کو اسٹاپ لگ جاتا،بس میں ایک نینی بچوں کا خیال رکھنے کو موجود ہوتی۔بچے بس میں سوتے جاگتے اسکول پہنچ جاتے۔یہ اور بات کہ شروع کے کچھ سال ہم پاکستان کے ڈرے ہوئے لوگ اس پر بھی ڈرتے رہتے کہ کہیں بس میں بچوں کو کچھ ضرر نہ پہنچے ۔بہت عرصہ پاکستان سے باہر رہ کر یہ سمجھ آتی ہے کہ سسٹم کو کتنی طرف سے جوڑا اور پکڑا جاتا ہے تب جا کر ابوظہبی جیسی دنیا کی محفوظ ترین ریاست وجود میں آتی ہے۔وہاں جرم ہو جاتا ہے مگر مجرم چھوٹتا نہیں۔عربی ہو کہ عجمی،گورا ہو کہ کالا اس کی چھوٹی سے چھوٹی بےایمانی اور بددیانتی بخشی نہیں جاتی۔تبھی تو اسکولز کی بس میں آدھے گھنٹے کے سفر کے لئے بہت سکون سے صبح صبح بند آنکھوں والے نیند بھرے بچے سوار کر دیے جاتے تھے۔یہاں پاکستان والا حال نہیں تھا کہ پانچ منٹ کی ڈرائیو پر بچے کسی کے ساتھ بھجوانے ذندگی موت کا مسلئہ لگتا ہے۔
بچوں کو بس پر چڑھاتے ہی میں دائیں طرف کی سڑک پکڑ لیتی اور پورے سیکٹر کے گرد چکر مکمل کرتی۔صبح صبح ہر نکڑ سے ہر اسکول کی بس برآمد ہو رہی ہوتی۔یہ الشمخا کا علاقہ تھا شہر سے باہر بسی ہوئی ہاؤسنگ اسکیم سرکار کے خزانے پر پلنے اور بننے والی جہاں عرب لوکل کو بڑے بڑے چھ سے آٹھ کنال کے پلاٹ نہ صرف مفت ملتے بلکہ گھر بنانے اور سجانے کے لئے قرض بھی ملتا۔گھروں کے باہر دو دو کینال کے لان،کارپٹڈ سڑکیں،بجلی پانی کی مکمل بےتعطل فراہمی،سڑک کے پار بڑا مال جس کے اندر ہائپر مارکیٹ سمیت بہت سی ضروری چیزوں کے سٹورز اور کافی شاپس ریسٹورنٹ سب کچھ موجود۔
اتنے بڑے بڑے گھر اور اتنے کھلے رقبے پر کہ علاقہ خالی خالی لگتا،ایسے نہیں کہ ایک گھر دوسرے کی دیوار سے جھانک رہا ہو۔علاقے میں اتنی خموشی ہوتی کہ کلاک کی ٹک ٹک سے کبھی الجھن ہونے لگتی۔سونے سے پہلے میں الارم کلاک کمرے سے باہر رکھتی ورنہ اس کی ٹک ٹک سونے نہ دیتی۔ایسی خموش اور پرسکون ذندگی!

ہر سیکٹر کے اندر کئی کئی مساجد(پورے ابوظہبی میں اذان ایک ہی وقت اور ایک ہی موزن کی ریکارڈ چلائی جاتی۔اس لئے ازان کا وقت ایک منٹ میں ختم ہو جاتا)اور ان کے ساتھ بڑے بڑے پارکس جن کے اندر جھولے،فٹ بال گراونڈ باسکٹ بال کورٹ،باری کیو پارٹی کے لئے بنی جگہ اور واکنگ ٹریک۔۔۔۔یہ امارات کا ڈی ایچ اے نہیں تھا۔یہ عام عرب لوگوں کے رہائشی علاقے تھے اور اسی پیٹرن کے علاقے ابوظہبی شہر کے آس پاس الفلاح،مدینہ خلیفہ، مدینہ زید، الشمخا، شاہاما، راہبہ کے نام سے آباد ہوئے تھے جہاں سرکار ہر سہولت مہیا کرتی تھی۔ مفت ذمین اور آباد کاری کے لئے قرضے۔


میاں صاحب ان دنوں الفلاح پراجیکٹ میں کام کر رہے تھے جو ہمارے بہت قریب واقع تھا جہاں وہ ایک ہزار لگثرری ولاز کے پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے جو اسی طرح لوکل عرب لوگوں کے لئے بنائے جا رہے تھے۔ وہ اس قدر خوبصورت اور لگثری تھے کہ ہمارے جیسے ایشینز تو ساری عمر خواب ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ ایسا ہم پاکستان میں جا کر ہی اپنے لیے بنا لیں۔ہم ابھی تک وہ گھر پاکستان میں بھی نہ بنا سکے ہیں۔ ظاہر ہے اپنے ملک میں بھی ہم غیروں کی طرح رہتے ہیں جہاں ہمیں ذمین سے لیکر بجلی پانی، صاف ستھری سڑک،سیکورٹی مہنگے ترین داموں میں خریدنی پڑتی ہے ایسے ملک میں جہاں آمدنی کی شرح دس فیصد ہو تو خرچ اور بلوں کی شرح نوے فیصد ہو وہاں گھر بنانا ایک ناممکن کام ہی ہو سکتا ہے۔


تو یہ سڑک جس پر میں واک کرتی بڑے بڑے کینالوں پر مشتمل گھروں کے گرد واقع تھی جس کے اردگرد اور اندر کارپیٹڈ روڈ چلتی۔دو دو تین تین گیٹوں کے سامنے بڑے بڑے لان یا سبزے اور درختوں سے سجے ہوئے یا جھاڑیوں سے بھرے ہوئے۔جو لوگ سبزے کو جنجال سمجھتے انہوں نے جھاڑیاں نکلوا کر اس پر ٹائل لگوا لی تھی۔ایسی ٹائل والی جگہ کے قریب سے گزرتے گرمی سے سر اور بھی پھٹتا۔
یہ وہ دن تھے جب میں نے تنہا اس پورے علاقے کو ایکسپلور کیا۔سیکٹر کے دوسرے کونے پر پہنچ کر نکڑ سے اسکولز والی گلی شروع ہو جاتی جہاں تین چار بڑے بڑے عالیشان اسکولز واقع تھے۔امارات کے سرکاری اسکولز اور سرکاری ہسپتال کا مقابلہ پاکستان کے پرائیویٹ اسکولز اور کالج سب مل کر بھی نہیں کر سکتے۔ابوظہبی حکومت کا بنایا بہت بڑا سرکاری ہسپتال شیخ زید ہسپتال ہم اپنے آبائی شہر(رحیم یارخان )میں دیکھ چکے تھے اگرچہ اس کی پاکستانی مینیجمنٹ نے اسے گندگی اور بے انتظامی سے pakistanicated
کر لیا ہے۔
اعلی ترین معیار کی بڑی بلڈنگز اور بہترین سہولیات سے مزین یہ ادارے عربوں کی سوچ سمجھ کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ہمارے لوگ عموما عربوں کو بدو کی بجائے بدھو سمجھتے ہیں کہ ان کو کیا کام کا پتا ہے سارا کچھ تو ہم کرتے ہیں۔وہ نہیں سمجھتے کہ جس عرب کو یہ پتا ہے کہ اس نے اپنی عوام کو بہترین اسکولز اور اعلی ترین ہسپتال دینے ہیں اس کے وژن تک آپ مر کر نہیں پہنچ سکتے۔جس عربی کو یہ پتا ہے کہ اس نے آپ سے کیسے کام کروانا ہے وہ بدھو کبھی نہیں ہو سکتا۔ہم پاکستانیوں جیسے ہڈ حراموں سے جو کام کروا لیتے ہیں وہ بدھو کیسے ہو سکتے ہیں۔
ہم پاکستانیوں کو تو یہ نہیں پتا سڑک کیسے صاف کی جاتی ہے۔ابوظہبی اور دبئی صحرا میں واقع ہے جہاں کئی کئی ماہ آندھیاں چلتی ہیں۔پھر بھی شہر سارا شیشے کی چمکتی عمارتوں سے بھرا ہے جس کے شیشے تک صاف ہیں
ہماری سڑکوں پر بھی صفائی والے پھرتے ہیں ہر جگہ ہر ادارے میں موجود ہیں
مگر افسروں کی چاپلوسی میں نوکری پوری کر دیتے ہیں اور افسر بھی صفائی کی بجائے چاپلوسی کروا کر پیسے پورے کر دیتے ہیں۔تبھی تو جھاڑو پھرتا رہتا ہے مگر صفائی ہے کہ ہو کہ نہیں دیتی۔
ان اسکولز کے قریب سے گزرتے میں اکثر سوچتی کہ ان میں جاب مل جائے تو کتنا اچھا ہو۔
مگر مجھے عربی نہیں آتی تھی۔
اور سرکاری اسکولز میں پڑھانے کے لئے عربی آنا لازمی تھی۔
میں چاہتی تو تب عربی سیکھ بھی سکتی تھی۔
مگر ایک تو تب میں کم عقل بھی تھی اور دوسرا مصروف ترین بھی تھی۔بچے ابھی بہت چھوٹے تھے ،گھر کے سب کام ابھی تک خود کرتی تھی،گھر اور بچے دیکھتے ہی سارا دن گزر جاتا تھا۔سو اتنا سوچنے اور کرنے کا کبھی سوچا نہیں۔اب سوچتی ہوں عقل آتے آتے کتنی دیر ہو جاتی ہے۔
سکولز کا کونہ پار کرکے واپسی کا سفر شروع ہوتا ۔میں سیکٹر کے دوسری طرف سے مشرق کو مڑتی تو سورج اب میرے سامنے ہوتا۔باہیں طرف ہائی وے،دائیں طرف ایک ہی رنگ ڈیزائن اور انداز کے بنے گھر!جن میں فرق صرف ان کی گاڑیوں اور گارڈن کا تھا کہ کس نے درخت پودے پر جاں کھپائی ہے کس نے یونہی خاردار جھاڑیوں کو کھلا میدان دے رکھا ہے اور کون ٹائل کا شوقین ہے۔ہر گھر کے سامنے کوڑے کے ڈرم پڑے تھے جن میں فلپینی اور انڈونیشین ملازمائیں کوڑا پھینکتے نظر آ جاتیں۔اس پاس ریت کا صحرا تھا۔
2009 میں جب ہم یہاں شفٹ ہوئے تو ہمیں ہمارا سیکٹر زمیں کی آخری حد لگتا تھا کہ سامنے ہائی وے اور اسکے بعد خالی ریت کے ٹیلے نظر آتے تھے۔میرے میاں اب اکثر میرامزاق اڑاتے ہیں کہ ہم جب سٹی سے واپس آتے تو تم ہمیشہ کہتی تھیں” لگتا ہے دنیا کے آخری کنارے پر آ گئے ہیں۔”
ہمارے دیکھتے دیکھتے ریت کے صحرا میں سے گھر اگنے لگے تھے اور جب 2019 میں ہم نے جب فیملی ٹیکسی پر ائیر پورٹ کے لئے ابوظہبی کو آخری الوداع کیا تو اس صحرا میں ایک اور ہاؤسنگ سکیم وجود میں آ چکی تھی۔ہم آخری کنارے سے شہر کے اندر کی طرف ہو چلے تھے۔
یہ میں نے کیوں لکھا کہ کبھی کبھی خواب میں وہی شاہراہیں اتر آتی ہیں جو دیکھی بھالی لگتی ہیں
میں انہیں اسکولز کے سامنے سے واک کرتے انہیں دیکھتی گزرتی ہوں اور آخری نکڑ سے اپنے گھر کے لئے مڑتی ہوں
مگر آنکھ کھلنے پر خود کو گمشدہ پاتی ہوں

کہاں گیا وہ رستہ؟

کہاں وہ علاقہ؟

جانے کیاں گیا وہ شہر !
جانتی ہوں گھر سے نکل جاو تو وہ تمھارا نہیں رہتا
مکان کسی اور کے گھر بن جاتے ہیں بس تم نہیں رہتے!
میں کبھی واپس جا کر اپنے اس گھر کو دیکھوں تو وہ آج بھی اتنی ہی خوبصورتی سے بسا ہو گا،مگر میرا نہیں ہوگا!وہ سب کسی اور کا ہو گا!
شہر سے نکل جاو تو شہر بستے رہتے ہیں
بس تمھارے نہیں رہتے!

وہ شہر بھی اب پہلے سے کئی درجے بہتر ہو گا،پھل پھول رہا ہو گا،دن بدن حسین ترین ہو رہا ہو گا!

شہروں اور گلیوں کو,دیواروں اور مکانوں کو کسی سے غرض نہیں ہوتی!انہیں جو آباد کر دے وہ انہیں کے ہو جاتے ہیں۔
میں نے انہیں جیا ہے اپنی جوانی کے پندرہ سالوں میں دن رات ان کو جیا ہے۔
میں نے وہاں بچوں کو جنم دیا ہے،پال پوس کر (اللہ کی رحمت سے) پروان چڑھایا ہے

،میں نے وہاں لکھنا سیکھا، ماڈرن انگلش ادب کی کتابیں پڑھنا سیکھا،جینا سیکھا،گھر بنانا اور بسانا سیکھا برتن دھونے،کھانے بنانے سیکھے
کیمرہ سیکھا،عکاسی سیکھی،سورج اور چاند کی انتہائی رنگ دیکھے اور بہت قریب سے بہت دیر تک دیکھے دیکھے۔

جو میں ان کے ساتھ تھی شاید پھر کبھی ہو نہ سکوں،جو کچھ مجھے ان سے ملا آج بھی میرے ساتھ میرے وجود کا حصہ ہے۔مگر وہ جگہیں،وہ علاقے،وہ صبحیں،وہ شامیں،شاید پھر کبھی نہ ملیں!وہ سب جو میرے وجود میری حیات کا ایک حصہ تھا اب نہیں رہا!
وہ جگہیں وہ لمحے، وہ وقت جو کبھی ہم تھے،مر چکا ہے۔انسانوں کی طرح ہر چیز ہر لمحے ہر وقت کی موت لکھی ہے۔تو جب وہ مر جائے پھر خالی یاد رہتی ہے،یوں لگتا ہے اسے کبھی دیکھا تھا،یہ وقت کبھی جییا تھا،اپنا اپنا لگتا ہے، کہیں دیکھا تھا،،،،کہاں ،کب؟ سراغ تو ملتا ہے،ہاتھ کچھ نہیں آتا!
جیسے مرنے کے بعد ہزار یاد کرو انسان گئے ہوئے کو چھو نہیں پاتا!
بس کبھی کبھی وہ خواب میں آ کر بتاتا ہے،کبھی میں بھی تمھاری حیات کا حصہ تھا!
جو آج ہیں وہ کل نہیں رہیں گے
جو آج ہے وہ کل چھن سکتا ہے!
ذندگی میں ہر چیز کے لئے ایک دن موت لکھی ہے! جس کے بعد نیا کچھ ضرور ہو گا،مگر شاید وہ پھر نہیں ہو گی!
لوگ پوچھتے ہیں میرے سٹیٹس پر انا للہ و انا الیہ راجعوں کیوں لکھا ہے؟
اسی لئے کہ میں جان چکی ہوں۔یہاں میرا کچھ نہیں ہے!
میں کچھ پکڑ نہیں سکتی!
میں کچھ بھی تالے کی الماری میں نہیں چھپا سکتی!
سب ایک دن چلا جائے گا!
ہر چیز کسی اور کی ہے اور ایک دن مجھ سے چھن جائے گی!!

دنیا کی ہر چیز ایک روز مر جائے گی!
اور یہ لائن میرے دل کو صبر دیتی ہے!
انا للہ و انا علیہ راجوں!
___

تصاویر

صوفیہ کاشف
ستمبر 17
2023

6 Comments

  1. انا للہ و انا علیہ راجعون. پلیز تصحیح کر لیں ۔ یادیں زندگی کا بہترین سرمایہ ہیں۔ آپ انتہائ خوشقسمت ہیں کہ آپ نے ابوظہبی میں بہترین لائف انجوائے کی۔

    Liked by 1 person

  2. May Allah ease the hardships of all of us who are struggling in life.

    May Allah fill our hearts with patience, courage and shukr.

    May Allah send us from his creations, the guardians of hope and faith, so that they must help us become who we are destined to.

    May Allah make us the sources of help, assistance and gratitude for our fellow men & women, who feel dejected, disappointed and hopeless.

    Aameen.

    Liked by 1 person

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.