میں اپنے گرم حبس زدہ کمرے کے پنکھے کے نیچے کتابیں کھولے اپنی گھومنے والی خوبصورت کرسی پر بیٹھی سوچتی ہوں
اگر جو میں نے 2008 میں وہ فیصلہ نہ کیا ہوتا جو میں نے کیا تھا تو شاید آج حالات مختلف ہوتے!
میرا یہ حبس زدہ گرم کمرہ میری آج ہے،میری یہ خوبصورت .ہلکے گلابی رنگ کی گھومتی کرسی میرا گزرا حسین کل ہے!اس کمرے کے اندر میرا متضاد آج اورکل مل کر رہتا ہے۔کل جو بیت گیا آج جو گزارنے کے لئے ہزار جتن کرنے پڑتے ہیں
کونسا فیصلہ جو میں نہ کرتی تو کیسا ہوتا؟
2008 میں میں ابوظہبی پہنچی تھی۔
مگر اس سے پہلے میں ایک کالج میں ماسٹرز اور گریجویشن کے طلبا کو پڑھا رہی تھی۔ بہت اچھے پیسے ملتے تھے۔پی سی ایس کے لئے رجسٹریشن بھی کروا رکھی تھی۔ ہر طرح سے ایک اچھا کیریئر بننے کا آغاز تھا۔
مگر یہ کہانی میری طرف تھی۔میرے میاں کی کہانی یہ تھی کہ اچھی سرکاری نوکری تھی مگر حرام خوروں کے بیچ بری طرح پھنس چکا تھا۔بیوروکریسی کا یہ عذاب ہے کہ حلال خور خموشی سے اپنی دیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بھی چل نہیں سکتے۔ایک حلال خور سو حرام خوروں کا کھانا خراب کرتا ہے سو باہر اٹھا کر پٹخا جاتا ہے۔
چناچہ پچھلے کئی ماہ سے ہماری تنخواہ بند تھی اور میاں صاحب کئی انکوائریز بھگت رہے تھے۔
ایسے میں انہیں ایک چھوٹی سی نوکری کی آفر ابوظہبی سے آئی تھی اور وہ اپنی سترہویں اسکیل کی نوکری اور پانچ ماہ کی تنخواہ چھوڑ کر چل پڑے تھے۔
میں ابوظہبی میں تھی جب پی سی ایس کے ٹسٹ کی کال آئی تھی۔ نیا نیا پڑھ کر فارغ ہوئی تھی ،اچھا پڑھا تھا ،پھر سال بھر وہی کچھ پڑھاتے علم اور بھی پختہ ہو چکا تھا اس لئے پاس ہونے کے قوی امکانات تھے۔
اگر جو میں واپس جاتی اور پی سی ایس پاس کرتی تو آج پندرہ سال بعد اسسٹنٹ پروفیسر ہوتی،اور اچھی، ڈھنگ کی تنخواہ تو لے رہی ہوتی!
آج میں ایک نیم سرکاری اسکول میں پھر سے پرائمری کی استاد ہوں اور اپنی میڈ سے ڈبل کام کر کے اس سے محض ڈبل تنخواہ لیتی ہوں۔یعنی میری ڈگریاں اس کام میں اضافی ہیں۔مجھ میں اور میری ان پڑھ میڈ میں صرف ورکنگ آورز کا فرق ہے۔
۔
آپ ہمیشہ مجھ سے خوبصورت باتیں سنتے ہیں آج میں آپ کو اپنی مشکل کی صرف ایک کہانی سناتی ہوں۔۔
پندرہ سال اپنے کئے گئے فیصلے کی مد میں میں نے گھر بیٹھ کر بچے،میاں اور گھر پالا ہے،میاں جو کبھی خوش نہیں ہوتا،بچے جو ہمیشہ خفا رہتے ہیں گھر جو ہمیشہ لٹ جاتا ہے!
ہم تند و تیز نہہں ہوتے ہمیں ذندگی تند وتلخ بنا دیتی ہے ورنہ کون ہے جو مسکرانا نہیں چاہتا، کسے خوبصورت نظارے حسین نہیں لگتے ،کون موسیقی کو شور کہہ سکتا ہے۔۔۔
میں چاہے اپنی تحاریر کی وجہ سے جہاں چاہے بیٹھوں میری حیثیت اس وقت محض ایک پرائمری ٹیچر کی ہے اور پاکستان میں آپکی حیثیت ہی سب کچھ ہے
پندرہ سال بعد میں نے اپنا کیرئیر پھر سے صفر سے شروع کیا ہے۔اور یہ بہت مشکل ہے،۔۔اتنا مشکل کہ اعصاب شکن ہے۔
ہم پاکستانیوں کو ایک عادت ہے ہم کبھی وہ کام دوسروں سے نہیں لیتے جو ہم اس نوکری کے مقاصد میں لکھتے ہیں۔
جیسے ہم شوق سے کہتے ہیں ماوں کا کام بچوں کی تربیت ہے مگر بیوی بنا کر اس ماں سے گھر کی ساری مزدوری اس طرح کرواتے ہیں کہ پھر وہ تربیت کے قابل نہیں رہ جاتی۔اور یہی ہمارے نزدیک عورت کی معراج خدمت ہے۔بچوں کی تربیت کا زکر صرف طعنے دینے کے کام آتا ہے۔
بدقسمتی سے آج بھی ہم اپنی لڑکیوں کو اصغری اکبری کی کہانیاں بڑے شوق اور اعزاز سے پڑھاتے ہیں،اصغری جو اپنے زمانے کے ڈائجسٹ کی ایک ہیروئین ہے اور بچوں کی تربیت سے لے کر گھر کے ہر چھوٹے بڑے کام تک ،تابعداری سے فرنمابرداری تک ہر فن مولا ہے اور اسے اس کرشمے کے لئے گھر کے کسی فرد کے تعاون کی ضرورت نہیں پڑتی۔مردوں کے لئے یہ ایک خوبصورت احساس ہے کہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔کچھ بھی ان کے گلے نہیں پڑتا سارا ڈھول عورت کے گلے میں بندھا رہتا ہے۔
آج بھی ہمارے ڈرامے ایسی ہی اچھی عورت دکھا رہے ہیں۔آج بھی ہمارے لکھنے والے اسی آفاقی عورت کو پوموٹ کر رہے ہیں جس کا گھر کے کسی دوسرے فرد پر کوئی حق نہیں نہ کسی کا اس کی طرف کوئی فرض
۔
اسی طرح استاد کا کام بھی تعلیم و تربیت ہے مگر ہم اس سے چپراسی سے لیکرڈاکومنٹ کنٹرولر تک کا،گراونڈ کوآڈینٹر سے لے کر ایڈمن تک کا، ہر کام کرواتے ہیں اتنا کہ پھر وہ استاد نہیں رہ جاتا۔۔
سو جب میں رات کو سوتی ہوں تو تھک کر چور ہوتی ہوں مگر میرا کام پورا نہیں ہوتا اور اسی پرانے دن کے بوجھ تلے ایک نیا دن کا آغاز ہو جاتا ہے
دل گھبرا جاتا ہے،وہ جو کام ختم ہونے کا اطمینان قلب ہے وہ دل کو مل نہیں پا رہا اور اعصابی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے.مجھے پڑھنے کا وقت تک نہیں مل رہا۔پہلے جہاں تین کتابیں ایک ساتھ پڑھتی تھی وہاں اب ایک بھی ہفتے کے آخر میں دو صفحات پڑھ پاتی ہوں۔
مجھے یقین ہے
آغاز ہے یہ انتہا نہیں ہے
مجھے شروعات صفر سے کرنی ہی ہوگی۔ میں ہزار ماڈرن انگلش کا ادب پڑھ لوں ایم فل کی ڈگری مجھے وہ نصاب پڑھ کر پاس کر کے ہی ملے گی۔
دوسری شروعات میری پرائمری اسکول سے ہی ہو گی۔
میں آس پاس دیکھتی ہوں مجھے اپنے ساتھ والے سب اونچی کرسیوں پر جمے نظر آتے ہیں
مگر میں انکی کرسیوں کو اپنے سفر میں حائل نہیں کر سکتی،یہ میرا رستہ ہے اور اگر یہ اتنا لمبا ہے تو مجھے اسے پار کرنا ہی ہوگا
آج ایک ٹیچر نے مجھ سے پوچھا۔
میم آپ کھانا جا کر بناتی ہیں؟
میں نے کہا نہیں! میرے پاس کچن میڈ ہے وہ کھانا بنا کر رکھتی ہے
سب ٹیچرز کا منہ کھلا رہ گیا
ہیں ؟ یہ کیسی پرائمری کی استانی ہے جس کے پاس کھانا بنانے کی ماسی بھی ہے پھر بھی اسکول کی انتہائی معمولی تنخواہ والی اور انتہائی غیر ضروری محنت والی نوکری کرتی ہے
یہ نوکریاں یا تو نوجوان لڑکیاں کرتی ہیں یا کم تنخواہ دار طبقہ کی ضرورت مند عورتیں۔
یہی معیار ذہن میں رکھ کر ہم کام کا اور تننخواہ کا تعین کرتے ہیں
ہم نے چار بندوں کا کام اس ایک استانی سے نکلوانا ہے تاکہ ایک تنخواہ جائے
چار نہ جائیں
استحصال الگ ہے
مستقبل کا سودا الگ خراب!
ہم ٹیچر اور اسکول کی میڈ میں بس دس ہزار کا فاصلہ رکھتے ہیں
ہم ماوں کو بچے کا ساتھ گزارنے کے لئے دو گھنٹےنہیں دیتے
ہم استاد کو طلبا کے لئے فراغت نہیں دیتے
پھر ہمیں شکایت بھی ہے کہ ہماری نسلیں گھاس پھونس اور خاردار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہیں رہ گئیں
جو تربیت کے مقام تھے انکو ہم نے مزدور بنا ڈالا
تربیت کہاں سے آئے گی؟
مجھے قرآن کی وہ آیت یاد آتی ہے جو کہتی ہے کہ اگر مگر شیطانی حیلے ہیں۔
اگر ایسا ہوتا،اگر ویسا ہوتا۔۔۔۔۔۔الفاظ صحیح یاد نہیں مگر مفہوم یہی ہے اور میں نے خود پڑھ رکھا ہے۔
تو وہم اور گمان کچھ بھی ہوں
ایسا ہو جاتا،ویسا ہو جاتا،
اس سے فرق کچھ نہیں پڑتا
فرق تو یہ پڑتا ہے کہ اب کیا کرنا ہے؟
اور دیر سے ہی صحیح مگر سفر کا آغاز کرنا ہے!
یہ بات طے ہے،
ابھی ذندگی کے متوقع آگے جانے کتنے سال ہیں
بچے پل چکے
اگلے سال بیٹھ کر نیٹ فلیکس کے سیزن نہیں دیکھ سکتی
تو پھر مجھے پرائمری سے دوبارہ آغاز کرنا ہی ہے!
چاہے کتنا ہی مشکل ہو
لیکن آنے والے وقت کو یہ شکوہ نہیں ہونا چاہیے
کہ آج اگر یہ کر لیتی
تو آنے والا کل ضرور بہتر ہوتا!
خداضرور آنے والا کل آج سے بہتر لائے گا!
انشاءاللہ!
________________

A perspective…
https://www.mukaalma.com/179424/
LikeLike
حقیقت پسندی اور مثبت سوچ کی عکّاس تحریر۔ لکھتی رہئے گا۔ پروردگار نیک مقاصد میں کامیاب کرے۔
LikeLiked by 1 person