میں اب اپنے پچھلے سالوں کے شدید کرب میں مبتلا ہوں۔یہ بات ایک کھلا سچ ہے کہ جیسے جیسے وہ وقت ماضی بنتا جا رہا ہے ویسے ویسے میں اس کی یاد میں دھنستی جا رہی ہوں۔اب میں ان باتوں پر بھی ترستی اور روتی ہوں جو مجھے وہاں رہتے نہ دکھائی دیتی تھیں نہ اہم لگتی تھی۔مجھے ایک بار کسی نے کہا تھا ابوظہبی کی ذندگی پر بلاگ لکھو اور میں کئی دن سوچتی رہی کہ اس پر کیا لکھوں۔اس میں ایسا کیا خاص ہے ویسا ہی ہے جیسا ہمیشہ سے تھا۔اب جب وہ وقت ایک ماضی کا حصہ بنتا چلا جا رہا ہے میں روز بروز اس کی یاد میں کڑھتی ہوں۔اور اس کی ایک نہیں کئی کئی وجوہات ہیں۔
ہزار رنگوں کے خوبصورت مناظر اور خوبصورت موسموں کے باوجود،خوبصورت رواں بارشوں کے ہوتے ہوئے بھی،اپنے خاندانوں کے قریب قریب ہوتے بھی،مجھے اب یہ معاشرہ اپنا سا نہیں لگتا،یا جیسا میں سوچتی تھی ویسا نہیں نکلا ۔میں وہاں اجنبی تھی تو یہاں وہاں سے بڑھ کر اجنبی ہوں۔(کیسے،یہ اب میں یہاں پر ذکر نہ کروں گی)
پچھلی بار آپکو گوگل فوٹوز میں تصاویر کا بتایا تھا۔آج بتاوں کہ میرا ایمیل بھی مجھے ابوظہبی کو بھولنے نہیں دیتا۔
جن ہوٹلز اور ریزورٹس میں ریزرویشن کرواتی تھی کہ کہیں بھی جانا ہو ریزرویشن کی ذمہ داری میری ہوتی تھی،اسی لئے اکثر کمرے کی ٹی وی سکرین پر یا روم ٹیلی فون پر مسز صوفیہ کاشف کے نام کا ویلکم نوٹ چل رہا ہوتا تھا۔(دراصل ایک لکھاری کی حیثیت سے اپنا نام بنانے سے پہلے جب پہلی بار میں نے اپنا نام یہاں دیکھا تو مجھے انتہائی خوشی ہوئی کہ پچھلے پانچ چھ سال سے میری حیثیت صرف مما اور بیگم کی رہ چکی تھی اور میں اپنے نام کی اہمیت تک بھول چکی تھی۔الرجان روٹانا کے ٹیلی فون پر اپنا نام دیکھا تو میں نے خاص طور پر اس کی تصویر لی تھی۔مجھے بڑے عرصے بعد اپنی جداگانہ حیثیت نظر آئی تھی)وہاں سے آج تک ہر پروموشن کے خط میرے نام آتے ہیں۔میرے گھر کے پاس مال میں گیزبو
Gezbo
تھا جہاں آخیر ذائقے اور اعلی کوالٹی کے انڈین دیسی کھانے ملتے تھے۔جہاں خاص طور پر میں اکثر فالودہ کھانے جاتی تھی۔کیا کروں اب اس کوالٹی کا فالودہ پاکستان میں نہیں ملتا۔(یاد رہے میں نے کوالٹی کہا ہے ذائقہ نہیں)
انہیں ہوٹلز پر ہمیں انڈین سروس دیتے نظر آتے تھے اور وہ ہمارے ساتھ اتنی ہی تمیز اور عزت سے پیش آتے تھے جتنی سے وہ دوسروں کو ڈیل کرتے تھے۔رنگ برنگی قوموں کے بیچ میں رہنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان بری باتوں کو دوسروں کے کھاتے میں ڈالکر خود کو تسلی دے لیتا ہے کہ ہم اور ہماری قوم ایسی نہیں ہے۔یعنی اس کے پاس خوش فہم ہونے کا ایک جواز ہوتا ہے۔اپنے ملک میں ایک ہی قوم کے بیچ میں رہ کر انسان کو سارا کڑوا سچ ہضم کرنا پڑتا ہے،خوش فہمی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
پھر سنجیو کمار کا انڈین ہوٹل تھا the yellow chillie جہاں حیدرآبادی بریانی کمال کی ملتی تھی۔وہیں کا ایک چنڈ سیکنڈ کا کلپ تھا جو میرے یوٹیوب چینل پر انڈیا میں وائرل ہوا تھا اور ایک ہی ہفتے میں مجھے دس لاکھ ویوز اور ڈیڑھ ہزار فالورز دے گیا تھا۔اگرچہ اسکے بعد میری تماتر کوشش کے بعد بھی میرا کوئی کام پاکستان والوں نے ڈھنگ سے نہ دیکھا۔اس طرح سے میرے چینل کی مونیٹائزیشن کے لئے میں انڈیا کی مقروض ہوں۔
ہائی ٹی پاکستان میں کچھ اور طرح کی جانی جاتی ہے۔یو اے ای کے تمام بڑے اہم ہوٹلز میں ہائی ٹی میں مین کورس یعنی کھانے نہیں ہوتے۔صرف بیکری کی ورائٹی ہوتی ہے۔اتحاد ٹاورز کے 74 ویں فلور پر آبزرویشن ڈیک پر خوبصورت تمیز دار لبنانی عملے نے ہمارے سامنے اس قدر بیکری کے لوازمات بھر دئیے تھے،کہ مجھے کافی چھوڑ کر موراکن گرین ٹی لینی پڑی کہ اتنا کچھ یک مشت کھا کر وزن بڑھنے کی ٹینشن یقینی تھی۔اور اس موراکن ٹی کی خوشبو ایسی مسحور کن تھی کہ میں کئی دن تک اس کی یاد میں آہیں بھرتی رہی۔
میری سب سے اچھی بات یہ ہے کہ میں نئی نئی چیزیں دیکھنا کھانا،برتنا پسند کرتی ہوں۔مجھے بنیادی طور پر تنوع پسند ہے۔اس لئے میں نے کبھی کسی ہوٹل،کسی ڈنر ،لنچ یا برنچ پر جا کر بریانی یا کوئی مخصوص کھانا نہیں ڈھونڈا۔میں کانٹینیٹل ،انٹرنیشنل،چائینز،اٹالین،موراکن،ہر مینو میں ہر چیز لے لیتی تھی۔(اس سے اب آپ میری پاکستان میں تکلیف کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اب وہ مینو اور وہ ذائقے مجھے کہیں نہیں ملتے)۔
پاکستان میں کوئی انٹرنیشنل مینو ملے بھی تو وہ پاکستانی کک کے بنے ہوئے ہونے کی وجہ سے بلکل مختلف ذائقہ رکھتا ہے۔یو اے ای کے تمام بڑے ہوٹلز اور ریسٹورنٹ میں ہر ملک کے کھانے کے لئے اسی ملک کا کک رکھا جاتا ہے اسی لئے ہر کھانا بالکل سٹینڈرڈ ذائقے کا ملتا ہے۔پاکستان میں کتنے لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان میں چائنیز کہلائے جانے والی کھانے دراصل چائنیز نہیں ہیں صرف چائینہ کے نام پر دھندہ ہیں۔
اسی طرح نئے کھانے کھاتی میں بابا گنوش اور فتوش کی عادی ہوئی،مکرونز پر میں جان دے سکتی تھی (اسلام آباد کے ایک مہنگے ہوٹل میں مکرونز کو چکھا تو اپنی قوم کی بےایمانی پر یقین آ گیا جو رنگین بتاشوں کو مکرون کہہ کر بیچ دیتی ہے) ،ٹرکش ڈیلائٹ کھا کھا میں نے آدھے دانت گنوا دئیے۔لابریوش کے کروسینٹ اور مفنز سمیت،المرای کا گریک یوگرٹ، کیا کچھ تھا جو وہاں رہ گیا جس کے بغیر چین نہیں آتا تھا اب وہ ہمیں کہیں نہیں ملتا۔(کتنے ہوٹلز،کتنے ریسٹورنٹ میں انکے نام اور مینو لکھتی جاوں تو جانے کتنے صفحات بھر دوں ۔الحمداللہ)
شیک شاک کے برگر جس کا ذائقہ پاکستان میں تصور نہیں کیا جا سکتا،چلی کا چپوٹلے اور کاساڈیلا ،کورلیشیس کا تیرامیسو،مگز اینڈ بینز کا ایگ بینڈٹ،، ان دو سالوں میں اکثر ڈشز اور ہوٹلز کے نام تک بھول گئے ہیں۔
ابتدائی دنوں میں انسٹاگرام پر ایکٹو تھی یہ سب تصاویر انسٹا پر لگاتی۔فیس بک پر کبھی نہ لگائی۔2016 کے آس پاس میرا بھی انفلوئنسر بننے کی طرف رحجان تھا اس لئے ان ہوٹلز پر ریویو بھی لکھتی اور کھانوں کی تصاویر بھی لگاتی ۔انہی دنوں بلاگر پر ایک الگ سے بلاگ بھی بنایا تھا جس پر کچھ تھوڑا کام بھی کیا مگر جلدی چھوڑ دیا۔۔تب انسٹا پاکستان میں عام نہ تھا۔چناچہ وہاں لگانا آسان لگتا تھا۔فیس بک پر سب مجھے جانتے تھے وہاں لگانا مجھے شوشا اور دکھاوا لگتا۔میں دکھاوے والی خاتون نہیں تھی۔اس لئے یہ سب صرف انسٹا تک محدود تھا۔
مجھے یاد ہے ایک بار مجھے فائیو سٹار ہوٹل st.regis hotel کی طرف سے ایک انوائٹ آئی تھی۔جو الکوحل ٹیسٹنگ کی تھی۔ظاہر ہے میں نہیں گئی تھی کہ ہم ڈرنک نہیں کرتے۔ابوظہبی کے تقریبا سارے بڑے ہوٹلز آج بھی مجھے انسٹاگرام پر فالو کرتے ہیں۔میری تصاویر سب کے پلیٹ فارمز پر موجود تھیں۔ان کے سوشل میڈیا پر میری تصاویر چلتی رہتی تھیں۔پھر آہستہ آہستہ میں نے اس کام سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔میں اسقدر دکھاوا نہیں کر سکتی تھی جتنا اس کام میں چاہیے تھا۔چناچہ میں نے اس شعبے میں مزید دلچسپی لینی بند کر دی۔
میرا کام فوٹوگرافی تھا ۔میں ہر چیز کو خوبصورت اور بہترین نہیں کہہ سکتی تھی۔میں ہر کھانے کو مزیدار صرف اس لئے نہیں کہہ سکتی تھی کہ مجھے دعوت دے کر کھلایا گیا تھا(۔یہ اور بات کہ میں نے اپنا ہر ریویو اپنے پیسے خرچ کر لکھا تھا) چناچہ جلد ہی اس فیلڈ سے خود کو باہر نکال لیا۔میرے ساتھ والی خواتین آج اس فیلڈ میں نام بنا چکی ہیں۔نکمی سے نکمی بھی بیس تیس ہزار فالور لے بیٹھی ہے میں نے یہ کام ڈیڑھ ہزار پر چھ سات سال پہلے ہی چھوڑ دیا تھا آج بھی میرے فالورز وہی ڈیڑھ ہزار ہی ہیں۔اس کے بعد میرا انسٹا میری شوقیہ فوٹوگرافی کے لئے رہ گیا۔۔میں لکھنے کی طرف چل پڑی شاید مجھے بھی آج کوئی ہزار دو ہزار پڑھنے والے جانتے ہوں۔خوشقسمتی یا بدقسمتی سے میں ہر اس رستے پر چلی جو مقبولیت اور کامیابی کی طرف جاتا تھا مگر اپنے طبعی میلانات کی بنا پر ہمیشہ ایسے رستے بیچ میں چھوڑ گئی۔
ریزورٹس کے ہر کمرے میں ایک منی بار ہوتا تھا جس میں دنیا کی بہترین شیمپین، برانڈی وہسکی،جن موجود ہوتی۔ہم سال میں دو چار بار تو ضرور ریزورٹ پہنچتے تھے۔مگر الحمداللہ مجھے فخر ہے ہم نے آج تک ان چیزوں کو ہاتھ نہیں لگایا۔کئی بار ڈنر اور بوفے کی قیمت میں الکوحل کی قیمت بھی ادا کی ،جہاں ہمیشہ ہمارے اردگرد بوتلیں کھل رہی ہوتی تھیں ،مختلف قسم کی شرابوں کے الگ سے اسٹیشن بنے ہوتے تھے،مگر ہم خود جوس اور کولڈ ڈرنک سے آگے نہیں گئے۔الحمداللہ!خدا نے ہمیں ہمیشہ ماڈرنزم اور فیشنزم کی اس حرص سے محفوظ رکھا ہے جس میں گر کر انسان ہر قدر بھول بیٹھتا ہے۔ہم ہمیشہ ہر جگہ سے اپنے کپڑے سمیٹ کر نکلتے رہے ہیں تو یہ اللہ کا ہی کرم ہے۔
یہ باتیں آج لکھ سکتی ہوں کہ اب یہ ماضی بنتا جا رہا ہے بالکل ایسے ہی جیسے آج اپنے بچوں کے بچپن کی تصاویر لگا دیتی ہوں۔تب میں نے لگانی چھوڑ دی تھیں۔بس کبھی کبھار بہت دل چاہا بھی،لگائی تو جلد ہی پھر سے ہٹا لی۔اب میرے پاس صرف ان ذائقوں کی اتنی کہانیاں اور تصاویر ہیں کی میں لکھنے اور لگانے لگوں تو لوگ میرا باقی سب کام بھول جائیں اور مجھے صرف فوڈی کے نام سے یاد کریں۔اب میں وہ کہانیاں صرف تھوڑی تھوڑی کرکے کبھی کبھار یہاں بیان کر سکتی ہوں۔شاید کہ کوئی اس موضوع میں بھی دلچسپی لے
29 جولائی 2023
تصاویر کے لئے لنک۔اس صفحہ پر اب تصاویر کی جگہ نہیں ہے۔

آپ کامضمون پڑھا اچھا لگا.. میں اور میری فیملی 28 سال بعد پاکستان آیے ہیں اب 2 برس ھونے کو ھیں
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئ پاکستان کو ریورس گیر میں ڈال دیا گیا ھے آج ایاذ امیر کا کالم میرے جملوں کی گواھی دے گا. کون سی برائ ھے جو معاشرے میں غیر موجود ھے اور سماجی طور پر ھم ایک ناکام معاشرہ بن چکے ہیں ایک
غیر مہذب سوسائٹی ھیں جنہیں دنیا کا کوئ ملک ویزہ دینا پسند نہیں کرتا اور اس پر بغلیں بجاتے ہیں
LikeLiked by 1 person
بہت افسوس ہوا یہ جان کر کہ ہمارے جیسی غلطیاں اور لوگ بھی کرتے ہیں۔میں نے پورا سفرنامہ لکھا ڈان پر پھر اپنے پیسوں سے کتاب چھپوائی تا کہ لوگ جان سکیں کہ ہم باہر رہنے والے اپنی محبت اور خوابوں سے دھوکہ کھاتے ہیں۔مگر بدقسمتی سے ہر بندہ یہی سمجھتا ہے کہ یہ ہمارے ساتھ نہیں ہو گا۔ہوتا سب کے ساتھ یہی ہے۔ریورس گئیر بھی بہت چھوٹا لفظ بولا آپ نے یہ معاشرہ اور ملک کبھی اتنا چلا ہی نہیں کہ پیچھے مڑنے کی جگہ ہو۔
LikeLike
آپ کھانے اور تصاویر ضرور لگائیں آپ کی تحریر کمال کی ہوتی ہیں
LikeLike