ذائقے کی یادیں

میں اب اپنے پچھلے سالوں کے شدید کرب میں مبتلا ہوں۔یہ بات ایک کھلا سچ ہے کہ جیسے جیسے وہ وقت ماضی بنتا جا رہا ہے ویسے ویسے میں اس کی یاد میں دھنستی جا رہی ہوں۔اب میں ان باتوں پر بھی ترستی اور روتی ہوں جو مجھے وہاں رہتے نہ دکھائی دیتی تھیں نہ اہم لگتی تھی۔اب جب وہ وقت ایک ماضی کا حصہ بنتا چلا جا رہا ہے میں روز بروز اس کی یاد میں کڑھتی ہوں۔اور اس کی ایک نہیں کئی کئی وجوہات ہیں۔

ہزار رنگوں کے خوبصورت مناظر اور خوبصورت موسموں کے باوجود،خوبصورت رواں بارشوں کے ہوتے ہوئے بھی،اپنے خاندانوں کے قریب قریب ہوتے بھی،مجھے اب یہ معاشرہ اپنا سا نہیں لگتا،یا جیسا میں سوچتی تھی ویسا نہیں نکلا ۔میں وہاں اجنبی تھی تو یہاں وہاں سے بڑھ کر اجنبی ہوں۔(کیسے،یہ اب میں یہاں پر ذکر نہ کروں گی)

پچھلی بار آپکو گوگل فوٹوز میں تصاویر کا بتایا تھا۔آج بتاوں کہ میرا ایمیل بھی مجھے ابوظہبی کو بھولنے نہیں دیتا۔

جن ہوٹلز اور ریزورٹس میں ریزرویشن کرواتی تھی کہ کہیں بھی جانا ہو ریزرویشن کی ذمہ داری میری ہوتی تھی،اسی لئے اکثر کمرے کی ٹی وی سکرین پر یا روم ٹیلی فون پر مسز صوفیہ کاشف کے نام کا ویلکم نوٹ چل رہا ہوتا تھا۔وہاں سے آج تک ہر پروموشن کے خط میرے نام آتے ہیں۔میرے گھر کے پاس مال میں گیزبو تھا جہاں آخیر ذائقے اور اعلی کوالٹی کے انڈین دیسی کھانے ملتے تھے۔جہاں خاص طور پر میں اکثر فالودہ کھانے جاتی تھی۔کیا کروں اب اس کوالٹی کا فالودہ پاکستان میں نہیں ملتا۔(یاد رہے میں نے کوالٹی کہا ہے ذائقہ نہیں)

انہیں ہوٹلز پر ہمیں انڈین سروس دیتے نظر آتے تھے اور وہ ہمارے ساتھ اتنی ہی تمیز اور عزت سے پیش آتے تھے جتنی سے وہ دوسروں کو ڈیل کرتے تھے۔رنگ برنگی قوموں کے بیچ میں رہنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان بری باتوں کو دوسروں کے کھاتے میں ڈالکر خود کو تسلی دے لیتا ہے کہ ہم اور ہماری قوم ایسی نہیں ہے۔یعنی اس کے پاس خوش فہم ہونے کا ایک جواز ہوتا ہے۔اپنے ملک میں ایک ہی قوم کے بیچ میں رہ کر انسان کو سارا کڑوا سچ ہضم کرنا پڑتا ہے،خوش فہمی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔

پھر سنجیو کمار کا انڈین ہوٹل تھا the yellow chillie جہاں حیدرآبادی بریانی کمال کی ملتی تھی۔وہیں کا ایک چنڈ سیکنڈ کا کلپ تھا جو میرے یوٹیوب چینل پر انڈیا میں وائرل ہوا تھا اور ایک ہی ہفتے میں مجھے دس لاکھ ویوز اور ڈیڑھ ہزار فالورز دے گیا تھا۔اگرچہ اسکے بعد میری تماتر کوشش کے بعد بھی میرا کوئی کام پاکستان والوں نے ڈھنگ سے نہ دیکھا۔اس طرح سے میرے چینل کی مونیٹائزیشن کے لئے میں انڈیا کی مقروض ہوں۔

ہائی ٹی پاکستان میں کچھ اور طرح کی جانی جاتی ہے۔یو اے ای کے تمام بڑے اہم ہوٹلز میں ہائی ٹی میں مین کورس یعنی کھانے نہیں ہوتے۔صرف بیکری کی ورائٹی ہوتی ہے۔اتحاد ٹاورز کے 74 ویں فلور پر آبزرویشن ڈیک پر خوبصورت تمیز دار لبنانی عملے نے ہمارے سامنے اس قدر بیکری کے لوازمات بھر دئیے تھے،کہ مجھے کافی چھوڑ کر موراکن گرین ٹی لینی پڑی کہ اتنا کچھ یک مشت کھا کر وزن بڑھنے کی ٹینشن یقینی تھی۔اور اس موراکن ٹی کی خوشبو ایسی مسحور کن تھی کہ میں کئی دن تک اس کی یاد میں آہیں بھرتی رہی۔

میری سب سے اچھی بات یہ ہے کہ میں نئی نئی چیزیں دیکھنا کھانا،برتنا پسند کرتی ہوں۔مجھے بنیادی طور پر تنوع پسند ہے۔اس لئے میں نے کبھی کسی ہوٹل،کسی ڈنر ،لنچ یا برنچ پر جا کر بریانی یا کوئی مخصوص کھانا نہیں ڈھونڈا۔میں کانٹینیٹل ،انٹرنیشنل،چائینز،اٹالین،موراکن،ہر مینو میں ہر چیز لازما لیتی تھی۔(اس سے اب آپ میری پاکستان میں تکلیف کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اب وہ مینو اور وہ ذائقے مجھے کہیں نہیں ملتے)۔

پاکستان میں کوئی انٹرنیشنل مینو ملے بھی تو وہ پاکستانی کک کے بنے ہوئے ہونے کی وجہ سے مکمل مختلف ذائقہ رکھتا ہے۔یو اے ای کے تمام بڑے ہوٹلز اور ریسٹورنٹ میں ہر ملک کے کھانے کے لئے اسی ملک کا کک رکھا جاتا ہے اسی لئے ہر کھانا بالکل سٹینڈرڈ ذائقے کا ملتا ہے۔پاکستان میں کتنے لوگ جانتے ہیں کہ چائنیز کہلائے جانے والی کھانے دراصل چائنیز نہیں ہیں صرف چائینہ کا نام پر دھندہ ہیں۔

اسی طرح نئے کھانے کھاتی میں بابا گنوش اور فتوش کی عادی ہوئی،مکرونز پر میں جان دے سکتی تھی،ٹرکش ڈیلائٹ کھا کھا میں نے آدھے دانت گنوا دئیے۔لابریوش کے کروسینٹ اور مفنز سمیت،المرای کا گریک یوگرٹ، کیا کچھ تھا جو وہاں رہ گیا جس کے بغیر چین نہیں آتا تھا اب وہ ہمیں کہیں نہیں ملتا۔(کتنے ہوٹلز،کتنے ریسٹورنٹ میں انکے نام اور مینو لکھتی جاوں تو جانے کتنے صفحات بھر دوں ۔اللہ کی ذات نے ہمیں کسقدر نوازا۔)

شیک شاک کے برگر جس کا ذائقہ پاکستان میں تصور نہیں کیا جا سکتا،چلی کا چپوٹلے اور کاساڈیلا ،کورلیشیس کا تیرامیسو،مگز اینڈ بینز کا ایگ بینڈٹ،، ان دو سالوں میں اکثر ڈشز کے نام اور اکثر ہوٹلز کے نام تک بھول گئے ہیں۔

ابتدائی دنوں میں انسٹاگرام پر ایکٹو تھی یہ سب تصاویر انسٹا پر لگاتی۔فیس بک پر کبھی نہ لگائی2016 کے آس پاس میرا بھی انفلوئنسر بننے کی طرف رحجان تھا اس لئے ان ہوٹلز پر ریویو بھی لکھتی،کھانوں کی تصاویر بھی لگاتیانہی دنوں بلاگر پر ایک الگ سے بلاگ بھی بنایا تھا جس پر کچھ تھوڑا کام بھی کیا مگر جلدی چھوڑ دیا۔۔تب انسٹا پاکستان میں عام نہ تھا۔چناچہ وہاں لگانا آسان لگتا تھا۔فیس بک پر سب مجھے جانتے تھے وہاں لگانا مجھے شوشا اور دکھاوا لگتا۔میں دکھاوے والی خاتون نہیں تھی۔اس لئے یہ سب صرف انسٹا تک محدود تھا۔

مجھے یاد ہے ایک بار مجھے فائیو سٹار ہوٹل st.regis hotel کی طرف سے ایک انوائٹ آئی تھی۔جو الکوحل ٹیسٹنگ کی تھی۔ظاہر ہے میں نہیں گئی تھی کہ ہم ڈرنک نہیں کرتے۔ابوظہبی کے تقریبا سارے بڑے ہوٹلز آج بھی مجھے انسٹاگرام پر فالو کرتے ہیں۔میری تصاویر سب کے پلیٹ فارمز پر موجود تھیں۔ان کے سوشل میڈیا پر میری تصاویر چلتی رہتی تھیں۔پھر آہستہ آہستہ میں نے اس کام سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔میں اسقدر دکھاوا نہیں کر سکتی تھی جتنی اس کام میں چاہیے تھا۔چناچہ میں نے اس شعبے میں مزید دلچسپی لینی بند کر دی۔میرا کام فوٹوگرافی تھا میں ہر چیز کو خوبصورت اور بہترین نہیں کہہ سکتی تھی۔میں ہر کھانے کو مزیدار صرف اس لئے نہیں کہہ سکتی تھی کہ مجھے دعوت دے کر کھلایا گیا تھا۔چناچہ جلد ہی اس فیلڈ سے خود کو باہر نکال لیا۔میرے ساتھ والی خواتین آج اس فیلڈ میں نام بنا چکی ہیں۔نکمی سے نکمی بھی بیس تیس ہزار فالور لے بیٹھی ہے میں نے یہ کام ڈیڑھ ہزار پر چھوڑ دیا تھا آج بھی میرے فالورز وہی ڈیڑھ ہزار ہی ہیں۔اس کے بعد میرا انسٹا میری شوقیہ فوٹوگرافی کے لئے رہ گیا۔۔میں لکھنے کی طرف چل پڑی شاید مجھے بھی آج کوئی ہزار دو ہزار پڑھنے والے جانتے ہوں۔

ریزورٹس کے ہر روم میں ایک منی بار ہوتا تھا جس میں دنیا کی بہترین شیمپین، برانڈی وہسکی،جن موجود ہوتی۔ہم سال میں دو چار بار تو ضرور ریزورٹ پہنچتے تھے۔مگر الحمداللہ مجھے فخر ہے ہم نے آج تک ان چیزوں کو ہاتھ نہیں لگایا۔کئی بار ڈنر اور بوفے کی قیمت میں الکوحل کی قیمت بھی ادا کی ،جہاں ہمیشہ ہمارے اردگرد بوتلیں کھل رہی ہوتی تھیں ،مختلف قسم کی شرابوں کے الگ سے اسٹیشن بنے ہوتے تھے،مگر ہم خود جوس اور کولڈ ڈرنک سے آگے نہیں گئے۔الحمداللہ۔خدا نے ہمیں ہمیشہ ماڈرنزم اور فیشنزم کی اس حرص سے محفوظ رکھا ہے جس میں گر کر انسان ہر قدر بھول بیٹھتا ہے۔ہم ہمیشہ ہر جگہ سے اپنے کپڑے سمیٹ کر نکلتے رہے ہیں۔

یہ باتیں آج لکھ سکتی ہوں کہ اب یہ ماضی بنتا جا رہا ہے بالکل ایسے ہی جیسے آج اپنے بچوں کے بچپن کی تصاویر لگا دیتی ہوں۔تب میں نے لگانی چھوڑ دی تھیں۔بس کبھی کبھار بہت دل چاہا بھی،لگائی تو جلد ہی پھر سے ہٹا لی۔اب میرے پاس صرف ان ذائقوں کی ان ناموں کی یاد رہ گئی ہے۔

__________________

29 جولائی 2023

74

۔

5 Comments

  1. Memories are gold.

    Materialism is a reality.

    Comparison is a killer.

    Personal evolution is an ongoing process.

    Happiness is a state of heart; but a heart does not live alone.
    Culinary tastes, art, presentation, fragrances, architecture, quality of life and all other forms of beauty do affect us all.

    Well then, there are things those affect our hearts more than others….
    Time. Good people. Sincerity. Balance. Embracing reality.

    * * * * *

    Time is priceless.
    May you always cherish everything, before its time passes.

    Good people are rare.
    May you be able to keep the real ones close. Close in prayer. Close in company. Close in remembrance.

    Sincerity is blessing.
    May you forever keep it. Cultivate it. Find it.

    Balance is the key.
    May you go for it all the time, without actually striving to make it happen. (Sometimes, letting-go balances the things out)

    Embracing the reality is an art & science.
    May you perpetually adjust to, adapt with, face, fight, rise & shine viz-a-viz your realities.

    * * * * *

    Thankfulness is our primary payback to blessings. Sharing is next.
    May the thankfulness and sharing of blessings always be there in your words and acts.

    Intent is what we can control.
    May the goodness of intent always accompany you.

    There are people, situations and things which are not in our control. In that, still, something is in our power: to be on its righteous side.
    In all such moments when you feel it’s out of control, may you always be on the right side of it all.

    * * * * *

    You are in prayers.

    Liked by 1 person

Leave a reply to shahji555 Cancel reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.