خاندان اور معاشرے کا زوال:(Sapians)


وقت کے ساتھ ساتھ ریاست اور مارکیٹ نے اپنی بڑھتی ہوئی طاقت کو روایتی خاندانی اور سماجی گروہوں کو کمزور کرنے کے لئے استعمال کیا۔حکومت نے اپنی پولیس سے خاندانی تنازعات کو کنٹرول کیا اور اس کے فیصلوں کی ذمہ داری عدلیہ کو دی۔مارکیٹ نے اپنے پھیری داروں سے پرانے روایتی رواجوں کو ختم کیا اور اس کی جگہ ہمیشہ بدلتے رہنے والا فیشن رائج کیا۔
لیکن یہ بھی کافی نہیں تھا۔
خانادانی اور سماجی گروہوں کو توڑنے کے لئے ابھی ایک اہم کام باقی تھا۔
حکومت اور مارکیٹس نے عوام کو ایک ایسی خوبصورت پیشکش کی جسے جھٹلانا مشکل تھا۔
فرد بنو!”۔
انہوں نے کہا-
والدین سے پوچھے بغیرجس سے چاہے شادی کرو۔سماج چاہے خفا ہو جائے مگر تمھیں جو اچھا لگے وہی کام کرو۔ہر ہفتے خاندان کی ضیافت میں شریک نہ ہو سکو تو بھی خیر ہے مگر جہاں تمھارا دل چاہے وہاں رہو۔تمھیں اپنے خاندان اور سماج کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ہم،یعنی ریاست اور مارکیٹ تمھارا خیال کرے گی۔ہم تمھاری خوراک ،چھت،تعلیم،صحت،روزگار اور فلاح کی دیکھ بھال کریں گے۔ہم تمھیں پینشن،پناہ اور انشورنس دیں گے۔
رومانوی ادب اکثر ایسے افراد دکھاتا ہے جو ریاست یا مارکیٹ کے خلاف جدوجہد کر رہے ہوں۔ اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی نہیں۔حکومت اور ریاست ہی تو فرد کے ماں باپ ہیں۔ان کے بغیر فرد کا وجود ممکن ہی نہیں۔مارکیٹ ہمیں روزگار،انشورنس اور پینشن دیتی ہے۔اگر ہم کوئی فنی تعلیم چاہتے ہیں تو سرکاری سکول ہمیں مفت کی تعلیم دیتے ہیں۔اگر ہم کاروبار کرنا چاہتے ہیں بینک ہمیں ادھار رقم دیتا ہے۔اگر ہم گھر بنانا چاہتے ہیں تو بینک ہمیں آسان اقساط میں قرضہ دے گا اور کنسٹریکشن کمپنی ہمارا گھر بنا دے گی۔
اگر کوئی جارحیت ہوئی تو پولیس ہماری حفاظت کرے گی۔بیمار ہوئے تو علاج کے لئے انشورنس ہے۔سارے دن کی میڈیکل مدد چاہیے تو مارکیٹ سے نرس ہائیر کر لیں جوعموما دنیا کے دوسرے کونے سے کوئی انجان فرد ہو گی جو اتنی توجہ سے ہماری خیال رکھے گی جتنا کہ آجکل ہم اپنی اولاد سے بھی توقع نہیں کر پا رہے۔
ہمارے پاس پیسہ ہے تو ہم اپنا بڑھاپا سنئیر سٹیزن کے لئے بنائے گئے گھروں میں گزار سکتے ہیں۔ٹیکس لینے والے ادارے ہمیں فرد گردانتے ہوئے ہم سے ہمارے ہمسائے کا ٹیکس نہیں مانگتے،اسی طرح عدلیہ ہمیں ہمارے بھائیوں کے جرائم کی سزا نہیں دے سکتی۔
صوف بالغ مرد ہی نہیں بلکہ عورتیں اور بچے بھی انفرادی پہچان رکھتے ہیں۔تمام تر انسانی تاریخ میں عورت عموما خاندان یا سماج کی ملکیت گردانی جاتی تھی۔ماڈرن حکومت عورت کو ایک فرد کی حیثیت سے دیکھتی ہےجو سماج اور خاندان سے بے نیاز اپنا قانونی اور معاشی حقوق رکھتی ہے۔ وہ اپنے بینک اکاؤنٹ رکھ سکتی ہے۔،اپنی مرضی سے شادی کر سکتی اور مرضی سے طلاق لے سکتی ہے، چاہے تو بغیر شادی کے بھی رہ سکتی ہے۔
لیکن فرد کی آزادی کی ایک قیمت ہے۔ہم میں سے اب بہت سے خاندانی اقدار کے گم جانے کا رونا روتے ہوئے ریاست اور مارکیٹ کی مداخلت کو ناقابل برداشت گردانتے ہیں۔جب اونچے ٹاورز میں رہنے والے ہمسائے اپنے چوکیدار کے معاوضے پر ہی اتفاق نہیں کر پاتے تو وہ ریاست کے خلاف کیا الحاق کریں گے۔
ریاست،مارکیٹ اور فرد کے بیچ کا لیں دین برابری کی بنیاد پر نہیں ہے۔
ریاست اور مارکیٹ اپنے باہمی مفادات اور حقوق کی خاطر نبرد آزما رہتے ہیں،اور فرد واحد ناخوش ہے کہ ان سے جو کچھ لیا جا رہا ہے اتنا ہی لوٹایا نہیں جا رہا۔اکثر اوقات مارکیٹ افراد کا استحصال کرتی ہے جبکہ ریاست اپنی فوج،پولیس،اور بیوروکریسی سے عوام کا دفاع کرنے کی بجائے اس کو سبق سکھاتی ہے۔
پھر بھی حیرت انگیز طور پر یہ گٹھ جوڑ جاری رہتا ہے۔اس سے ہزارہا سالوں کی انسانی سماجی روایات کو کچلا گیا ہے۔ایک کیمیونٹی کی طرح رہنا سیکھتے اور رہتے انسان نے ہزارہا سال لگائے تھے جسے صرف دو ہی صدیوں میں توڑ کر افراد میں بدل دیا گیا ہے۔اس سے بہتر کلچر کی طاقت کو کوئی چیز واضح نہیں کر سکتی
جدید منظر سے چھوٹے خاندان مکمل طور پر غائب نہیں ہوئے۔ریاست اور عوام نے کمیونٹی سے ان کا اہم کردار تو چھین لیا مگر کچھ نہ کچھ جزباتی کردار ابھی باقی ہے۔ابھی بھی قریبی خاندان اپنے افراد کی کچھ بنیادی ضروریات پوری کرتے ہے جنہیں مہیا کرنے سے ریاست قاصر رہتی ہے۔
پھر بھی خاندانی روایات میں ریاست اور مارکیٹ کی مداخلت جاری ہے۔مارکیٹ ہمارے جزباتی اور رومانوی منظرنامے کی مسلسل تشکیل میں مصروف ہے۔
روایتی طور پر جہاں پہلے خاندان رشتے طے کرتے تھے اب مارکیٹ رومانوی منظرنامے کی تکمیل کا بہت مہنگا طریقہ بتاتی ہے ۔پہلے دلہا اور دلہن اپنے خاندان کے بیچ گھر کے درمیانی کمرے میں ملتے تھے اور رقم ایک باپ سے دوسرے باپ کے ہاتھ میں جاتی تھی۔آجکل جوڑے ریسٹورنٹ اور بارز میں بنتے ہیں اور رقم محبوب جوڑے کے ہاتھوں ویٹرز کے ہاتھوں میں جاتی ہے۔صرف یہی نہیں اس سے بھی کہیں ذیادہ رقم فیشن ڈیزائینرز،جم مینیخرز،ڈائیٹیشنز،کاسمیٹیک اور پلاسٹک سرجن کے اکاونٹس میں جاتی ہے جو ہمیں مارکیٹ کے نظریے کے مطابق خوبصورت دکھنے کے قابل بنا کر ان کیفے اور بارز میں لاتے ہیں۔
ریاست بھی افراد کے بیچ تعلقات پر گہری نظر رکھتی ہے خصوصا والدین اور بچوں کے بیچ۔بہت سے ممالک میں والدین بچوں کو سرکاری اسکولز میں بھیجنے کے پابند ہیں۔اور اگر وہاں پرائیویٹ اسکولز موجود ہیں تو بھی سرکار ان کی جانچ پڑتال کرتی رہے گی۔بچوں کو ڈانٹنے اور سختی کرنے والے والدین اپنے بچے گنوا سکتے ہیں۔ضرورت پڑنے پر ریاست ان کے والدین کو گرفتار بھی کر سکتی ہے اور بچوں کو کسی دوسرے والدین کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔۔
بہت سے معاشروں میں والدین کی اتھارٹی مقدس ہے۔شروع میں والدین کی تابعداری اس قدر مقدس تھی کہ والدین چاہے تو شیر خوار بچوں کو قتل کر دیں یا بیچ دیں یا کم عمر بچیوں کی شادی بڑے بوڑھوں سے کر دیں۔آجکل والدین کی اتھاڑتی آخری سانسوں پر ہے۔نوجوانوں کو والدین سے ذیادہ سے ذیادہ آزادی مل رہی ہے جبکہ بچوں کی ذندگی میں کچھ بھی غلط ہونے کا بوجھ والدین کے کندھے پر بڑھتا جا رہا ہے۔ فرائڈ کی عدالت میں مام اور ڈیڈ کی معصومیت ثابت کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا عدالت میں سٹالن کو بے قصور ثابت کرنا۔__
♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤ ۔۔
یوول نوح حراری
Sapians
ترجمہ و تلخیص:صوفیہ کاشف

3 Comments

  1. فرد اور ریاست، عورت اور مرد، والدین اور اولاد، آجر اور اجیر کے درمیان تعلق کچھ ایسے مقامات کی مثالیں ہیں جہاں انسانی عقل کو وحی کی رہنمائی نصیب نہ ہو تو المیے جنم لیتے ہیں۔

    Liked by 2 people

Leave a reply to sofialog Cancel reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.