مجھ سے پوچھتے ہو
میرے من کا فسانہ
میرا من تو چاہتا ہے
لفظ لفظ میں تیرے
میں سماعتیں بھگو دوں
اور سرور کے یہ لمحے
صدیوں تک پھیلا دوں
تیرے نام کی کہکشاں سے
آسماں سجا دوں
میرے ہاتھ میں ہوں جتنی
عمر کی سب لکیریں
تجھ کو نواز دوں
اور اپنا آپ مٹا دوں
میرا من تو چاہتا ہے
اس عمر میں مجھے
اور کوئی کام نہ ہو
تجھے یوں ٹھہر کر دیکھوں
کہ بصارتیں تھکا دوں
شاہراہوں پر نکلوں
ہر جھوٹ کے فسانے پر
تیرا سچ سجا دوں
تجھے گنوا نہ دے یہ دنیا
تیرا نام میں بنا دوں
رات کے مقبول پل میں
تجھے سیسی ایک دعا دوں
تیری چاہتوں پر ہمدم
میں اپنا آپ مٹا دوں
میں اپنا آپ گنوا دوں
مجھ سے پوچھتے ہو
میرے من کا فسانہ!
____________
صوفیہ کاشف
1999ء

تیرے نام کی کہکشاں سے
آسماں سجا دوں
میرے ہاتھ میں ہوں جتنی
عمر کی سب لکیریں
تجھ کو نواز دوں
اور اپنا آپ مٹا دوں۔
تیری چاھتوں پر ھمدم
میں اپنا اپ مٹا دوں ۔۔۔۔۔۔واہ واہ واہ
مگر ہم سے یہ نہ ہو پائے گا 😀
LikeLiked by 1 person
کیا ہو سکے گا اور کس سے کیا نہیں ہو گا،،یہی چیز انسانوں میں فرق کرتی ہے۔
ویسے یہ کالج کے زمانے کی شاعری ہے جو آج تک کچھ بھی ہوئی ہے۔سوچا اسے بھی ڈال دیتے ہیں ابھی بھی دنیا میں جواں بستے ہیں۔
LikeLiked by 1 person