“دوام آخری سحر ہے”تبصرہ

میرا سدرتہ کے بارے میں ہمیشہ سے خیال رہا ہے کہ سدرتہ ادب عالیہ کی لڑکی ہے ۔کمرشل ادب سے اس کا ذاتی کوئی تعلق نہیں دکھتا۔سدرتہ کی تحریر ادب عالیہ کی طرح سوچتی اور محسوس کرتی ہے،اسکے سینے میں دل دھڑکتا ہے اور دھیرے دھیرے نبض چلتی ہے۔

“دوام،آخری سحر ہے” بھی سدرتہ کا ایک ایسا ہی شاہکار ہے جس پر سوچ سوچ کر ،دھڑک دھڑک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔آپ اسے جلد بازی میں نہیں پڑھ سکتے اور چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے کام کرتے بھی نہیں نپٹا سکتے۔آپ کو لازما سکون کی گھڑی اور بانیت خشوع وخضوع چاہیے اس کا مکمل لطف لینے کے لئے۔دوام کا ہر کردار اپنی جگہ ایک جیتی جاگتی کہانی ہے جو اپنے ساتھ ایک مکمل داستان رکھتا ہے سو یہ ایک گھمبیر مطالعہ ہے ،فیس بکی ریڈرز کے بس کی بات نہیں۔دوام خواص کے لئے لکھی گئی تحریر ہے اور اس سے خواص ریڈر ہی مزے لے سکے گا جو اپنی نظروں کے ساتھ دل اور دماغ کو جاگتا رکھ سکے۔خالی پلاٹ کی اونچائیاں اور گہرائیاں ناپنے والے شاید اس سمندر کے پار نہ لگ سکیں۔مجھے فخر ہے اس بات پر کہ سدرتہ نے میرے لئے اتنے دل سے تحریر لکھی ہے،اور جب بات دل کی کہی جائے تو پھر اسے دل سے ہی سننا ،جاننا اور پڑھنا چاہیے۔

_____________

صوفیہ کاشف

4 Comments

Leave a reply to sofialog Cancel reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.