قیامت نامہ___________صوفیہ کاشف

اے کاش زندگی ! تو ایسی نہ ہوتی جیسی کہ ہم نے دیکھی
اے کاش کہ شاخوں پر پھول کھلتے اور وادیوں میں جھرنے گرتے
پرندے گیت گاتے
اور بارش کی بوندیں رقص کیا کرتیں
اے کاش میری مٹھی میں درد بھری ریت نہ ہوتی
اور سر پہ خون آلود رات نہ ہوتی
ہر صبح کی سنہری کرنیں میرے آنگن میں اترتی اور اور ہر شام  تمام تر دھندلکے سمیٹ کر ڈوب جاتی
محض ایک سکوں آویز نیند میں چھوڑ کر
ایک دلکش خواب کی سرحد میں دھکیل کر!
اور اب یہ قصہ ہے کہ خواب پریشان کا ساتھ ہے
اور بستر سلوٹ در سلوٹ رت جگوں کے عادی ہیں
دنوں میں تپتے سورج اور ابلتے پانی کی ندیاں ہیں
پیاسے کو زہر آمیز پانی میسر ہے اور مرتے کو محض ایک ہچکی
کیا  صرف مجھ پر قیامت اتر چکی ہے
یا تمام شہر ہی آخری سرحد میں اتر چکا ہے

______________

1 Comment

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.