
“ہمیں تتلیوں کے دیس جانا ہے”
ننھے آنگن کی حدوں سے ادھر
روٹھی ہنسی ،جھلملاتی آنکھوں سے
پھولوں سی مسکراہٹ
خوشبو سی سانسوں کے ساتھ
ممتا کے میٹھے لمس سے نکل کر
بابا کی محفوظ گود سے اتر کر
ہمیں تتلیوں کے دیس جانا ہے!
جہاں کوئ دکھ نہ ہو ،کوئ درد نہ ہو
نشتر نہ ہو کوئ،کہیں زہر نہ ہو
دلنشیں چہروں میں بھیڑئیے نہ ہوں
بلبلاےی ہوئ جہاں کوئ سحر نہ ہو!
مسیحائی کے روپ میں عفریت نہ ہوں
الجھی ہوئی تقدیر نہ ہو،
مرجھایا ہوا نصیب نہ ہو!
کوڑے کے ڈھیر پر جہاں پھول نہ ملیں
کلیوں کو نوچتے عفریت نہ ہوں!
ذائقوں میں لپٹی موت نہ ملے،
سڑکوں پہ بکھرتی جانیں نہ پائیں!
کتابوں میں لپٹی قبر نہ ملے!
لہو رنگ بھیگی خبر نہ ملے!
ذندگی کے ترانے سبھی گنگنائیں!
خوشبو کا پالیں،کلیاں بچائیں!
ہر سمت مسکراہٹوں، محبتوں کا بسیرا ہو
جس دیس میں ہر سویرا ،اجلا سویرا ہو!
جہاں پرندے چہچاتے ہوں
بلبلوں کے نغمے ہوں
اور چشمے پاس بلاتے ہوں!
ندیاں ہوں سب شہد سی
جھلملاتے کنارے ہوں
حیات کے سُر اٹھاتے
سب کے سب ہمارے ہو !
کہکشاں رہگزر ہو
مسکراتا ہر سفر ہو!
خواب ہوں سب روشن روشن
جہاں چلتی ہوں مہکی پون
دیکھے نہ تھے ابھی میری آنکھوں نے
مجھے ان سپنوں کے دیس جانا ہے
جگنوؤں کے نگر
ہمیں تتلیوں کے دیس جانا ہے!
_______________
صوفیہ کاشف
ڈاکٹروں کی غفلت سے وفات پانے والی ایک بچی رمشہ کے لئے 1999 میں لکھی گئی ایک نظم
ابوظہبی

آ جائیں کینیڈا پھر 😜
LikeLike