بدن کی گھپّا سے باہر چند لمحے_______احمد نعیم

اپنے سرپھرے جنون کے ہاتھوں

ایک دن وہ

بدن کی تنگ گھپّا سے باہر نکل پڑا

اندھے غار سے نکلتے ہی

آنکھیں چندھیاں گئیں

روشنی کا سیلاب

آوازوں کا ہجوم

سروں کا سمندر

بھاگتے قدم

مرتے تڑپتے انسان

روندتے پیر

دھڑکتے دل

شور شور شور

وہ تن تنہا اکیلاڈرپوک

الٹے قدموں واپس پلٹا

صدیاں بیت گئیں

لیکن وہ اب تک باہر کے شور سے بہرا پڑا ہے  

____________

کلام:احمد نعیم

5 Comments

  1. دِل کشمکش ِ رنج و محَن سے نہیں نکلا
    یہ چاند ابھی اپنے گہَن سے نہیں نکلا

    معتُوب سا ‘ مصلُوب سا ‘ زندانیٔ غم سا
    …… اِنسان ابھی قید ِ بدن سے نہیں نکلا

    Liked by 1 person

    1. انساں قید بدن سے نکل جائے تو انساں کیسے رہے؟انساں تو ہے ہی بدن سے ورنہ یا جن ہوتا یا فرشتہ۔ایک بدن میں دونوں وجود بھرتا ہے خدا تو ایک انساں بنتا ہے!اور انساں جو اب انساں رہتے رہتے تھک چکا ہے!

      Like

Leave a reply to sofialog Cancel reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.