
اپنے سرپھرے جنون کے ہاتھوں
ایک دن وہ
بدن کی تنگ گھپّا سے باہر نکل پڑا
اندھے غار سے نکلتے ہی
آنکھیں چندھیاں گئیں
روشنی کا سیلاب
آوازوں کا ہجوم
سروں کا سمندر
بھاگتے قدم
مرتے تڑپتے انسان
روندتے پیر
دھڑکتے دل
شور شور شور
وہ تن تنہا اکیلاڈرپوک
الٹے قدموں واپس پلٹا
صدیاں بیت گئیں
لیکن وہ اب تک باہر کے شور سے بہرا پڑا ہے
____________
کلام:احمد نعیم

❤❤❤
LikeLike
واہ۔
LikeLiked by 1 person
دِل کشمکش ِ رنج و محَن سے نہیں نکلا
یہ چاند ابھی اپنے گہَن سے نہیں نکلا
معتُوب سا ‘ مصلُوب سا ‘ زندانیٔ غم سا
…… اِنسان ابھی قید ِ بدن سے نہیں نکلا
LikeLiked by 1 person
👍👍👍
LikeLiked by 1 person
انساں قید بدن سے نکل جائے تو انساں کیسے رہے؟انساں تو ہے ہی بدن سے ورنہ یا جن ہوتا یا فرشتہ۔ایک بدن میں دونوں وجود بھرتا ہے خدا تو ایک انساں بنتا ہے!اور انساں جو اب انساں رہتے رہتے تھک چکا ہے!
LikeLike