واپسی________صوفیہ کاشف

  • انسان خدا کی طرف اس لئے نہیں جاتا کہ وہ اس کی رضا چاہتا ہے۔وہ تو اس لئے جاتا ہے کہ وہ اپنی رضا چاہتا ہے۔

  • اللہ سے دل لگ جائے تو جان لیں ،کہ دنیا سے بہت دل ٹوٹ چکا ہے۔
  • اس کے صحن میں بیٹھ کر اس کے لئے رونا ایک خام خیالی ہے۔رونے والا اپنے دکھوں کو روتا ہے ۔

  • اللہ سے دور ہونا چاہتے ہو تو اس دنیا سے بھی دل نہ لگاؤ۔دنیا کے ہاتھوں دل بلآخر ٹوٹتا ہے اور پھر لڑھکتا ہوا وہیں آتا ہے جہاں سے وہ بھاگا تھا۔

ہر تلاش کا اک انجام ہے! محبت کا انجام اس در تک ہے!

تحریر و فوٹوگرافی: صوفیہ کاشف

1 Comment

  1. ہر راہ پہنچتی ہے تِری چاہ کے در تک
    ہر حرفِ تمنا تِرے قدموں کی صدا ہے
    اگر اِس تحریر کے احساس کو سمجھنے کے لئے صاحبِ تحریر سے تعارف لازمی ہے، تو تحریر کے حُسن کو پہچاننے کے لئے مخاطبِ تحریر سے شناسائی ضروری ہے۔ اور اِن دونوں سے آگاہی اُس خواب میں موجود ہے، جس میں ایک سولہ سترہ سال کی کمسن لڑکی آقاﷺ کے روضہ کے قدموں میں بیٹھی درود پاک کا وِرد کرتی ہے۔
    کہتے ہیں، کہ یاد دو طرفہ ہوا کرتی ہے۔ اور یہ کہ خواب میں جو کوئی ہمیں دِکھائی دیتا ہے، وہ دراصل ہمیں یاد کِیا کرتا ہے۔
    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دُعا، کی ، دی اور لی جاتی ہے۔ نیکی کمائی جاتی ہے۔ کلمہ کی شہادت دی جاتی ہے۔ صلوٰۃ قائم کی جاتی ہے۔ زکوٰۃ ، صوم اور حج ادا کئے جاتے ہیں۔
    جبکہ درود و سلام ،پیش کیا جاتا ہے۔
    سفرِ حجاز، ربِ ذوالجلال کے حضور پیش کیا گیا ایک لمحۂ شُکر اور محبوبِ کائنات ﷺ کی شان میں ایک ہدیۂ تبرک ہے۔
    حضرت محمد ﷺ کے بارے میں لکھنے والوں، سیرت نگاروں اور محدثین کی فہرست لامتناہی ہے، لیکن اس میں جگہ پانا باعث ِ عزّت، شرف ِ قبولیت ،عطائے کرم اور خوش نصیبی کی معراج ہے۔
    صوفیہ کاشِف۔ آپ خوش نصیب ہیں۔
    زیرِ نظر تصنیف تحریر نہیں ، توفیق ہے۔
    یہ مکہ اور مدینہ کو اُن ﷺ کے واسطے سے جاننے، ماننے اور پہچاننے کی ایک کوشش ہے، جن کی بدولت الفاظ کو معانی عطا ہوئے ، کائنات کو انسانیت ودیعت ہوئی، حق کو سند عنایت ہوئی اورسوچ کو سمجھ ۔ جِن کی ذات ایمان کا معیار، جِن کی تکریم ایمان کا خلاصہ، جِن کا ادب اعمال کی کسوٹی اور جِن کی راہوں کی دھول پر ہم اور ہمارا سب کُچھ قُربان۔ جِن کا ذکرِ مبارک اللہ کی یاد کا لازم و ملزوم جوہر، جِن کا خُلق قُرآن، جِن کےصدق اور امانت داری کے طفیل ہمیں اسلام عطا ہوا، کلام اللہ پڑھنا نصیب ہوا اور کلمہ پڑھنے کی سعادتیں بخشی گئیں ۔جِن کی عظمت و رحمت کے باب میں قرآن ِ مجید کی سورۃ احزاب کی آیت 56 کے حکم اور اللہ اور اسکے فرشتوں کی سُنت کے مطابق ہمیں درودِ پاک پیش کرنے کی نعمت و توفیق عطا ہوئی، اور جن کا نامِ مبارک ادا کرنے سے پہلے حضرت، پیغمبر، نبی کریم، نبی اکرم، رسولِ اکرم اور رسالت مآب جیسے مقدس سابقوں کا استعمال دُنیا کی ہر تہذیب میں زُبان کا حصہ اور ادب کا خاصہ بنا۔
    تُعانقُهُ الغُيومُ إذا تدلَّى
    وتتبعُهُ النُّجومُ إذا تعلَّى
    جب وہﷺجھکتا ہے تو بادل اس سے معانقہ کرتے ہیں۔جب وہﷺبلند ہوتا ہے تو ستارے اس کے پیچھے چلتے ہیں۔
    مصنفہ نے کمال ِبیاں سے نہ صرف مدینہ ٔ منورہ اور مکہ مکرمہ کی عمومی تصویر کشی کی ہے، بلکہ اُس دربارِ خاص کی ہوا، مٹی، دہلیز، در و دیوار، مسجد و منبر اور ان سے متعلق لوگوں، چیزوں اور مقامات کو بھی زیبِ قلم کیا ہے، کہ ” جن کی مُٹھی میں صدیوں اور نسلوں کی نبضیں ہیں”۔ خصوصاً پاکستانیوں کی نبضیں، کہ روئے زمین پر موجود یہ واحد خطہ ہے جِس کے قیام کی جدوجہد کے دوران اس کے نام کا مطلب ہی کلمۂ طیبہ کو قرار دیا جاتا رہا، اور کسی نہ کسی وجہ سے جو قوم آج بھی اپنے اس مطلب کی تلاش میں ہے۔
    مسجدِ نبوی میں پہلی حاضری کے احساسات بے پناہ محبت، عاجزی اور عقیدت سے پُر ہیں۔
    “کہ جس سے داخلے کے آداب تک ہمیں معلوم نہ تھے، جھک کر داخل ہوں،چوم کر بڑھیں یا رینگ کر چلیں کہ ہم کیڑے مکوڑوں سے وجود ہماری کیا اوقات تھی کہ ہم اس دروازے پر کھڑے تھے_نبی کے نام کا وہ گھر کے جس کے نور سے آج بھی سورج روشنی مستعار لے کر نکلتا ہے ،کہ جسکے نام پر آج بھی سب تخلیق سر کو جھکاتی ہے ، جسکے وجود پر دن رات نجانے کتنے ہی فرشتے درودوسلام پڑھتے ہیں اور جسکے لئے خدا نے یہ ساری کائنات تخلیق کر دی تھی،اور اس مسجد کے اندر جنت کا حصہ ،کہ جس کے دیس نکالے نے ہمیشہ سے ہم حقیر انسانوں کو بے چین کر رکھا ہے۔”
    جنّت کا تصور تو ہم سب انسانوں کے ذہنوں اور شعور کی کِسی تہہ میں یوں بھی موجود ہے۔ رنگ ونسل اور ملک و قوم سے قطع نظر، ہر انسان اِس دُنیا کی آرائش، زیبائش اور آسائش میں ایک ہی اسلوب اختیارکرتا ہے۔وہ اسلوب ، جو جنت کی یادوں کا حصہ ہے۔ وہ یادیں، جو ہماری روح کی یاداشت میں موجود ہیں۔ قدیم باغات سے لے کر جدید ترین سیاحتی مقامات اور فارم ہاؤسز سے لے کر وِلاز تک، بود و باش اور عیش و عشرت کا نقشہ عین وہی ہے، جو ہم وہاں چھوڑ کر آئے تھے۔
    مسجدِ نبوی میں موجود جنت کا باغ، عِشق اور محبت کا اِک پہر ہی تو ہے۔
    بقلمِ نور الہدیٰ شاہ،
    میں نے کہا: عشقِ پیغمبر کی راہ کیا ہے؟
    اس نے کہا: خلقِ خُدا سے عشق۔ اشرف المخلوقات میں رکھا ہے رازِ عشق۔
    میں نے کہا: مخلوق تو گندی ہے۔ گناہگار ہے۔
    اس نے کہا: عشق میں عاشق بن۔ ابلیس نہ بن۔
    سو جب اللہ کا فرمان آتا ہے کہ میری محبت کے حقدار میرے محبوب ﷺ کی اطاعت کرنے والے ہیں، تو بات واضع ہو جاتی ہے کہ لا الٰہ الا اللہ تو ہر الہامی مذہب میں موجود تھا، پر اسلام محمد رسول اللہ سے ہی مکمل ہوتا ہے۔ اور محمد رسول اللہ کا کلمہ انسانوں کے لئے وہ ضابطۂ اخلاق متعین کرتا ہے، جو خُدا کی منشاء ہے۔
    سکونِ دِل کی دلیل کیا ہے، قرارِ جاں کا سُراغ کیا ہے؟
    ہجومِ دُنیا کی وحشتوں کو سناؤ غارِ حرا کی باتیں
    بہت کُچھ تشنہ بھی رہ گیا۔ غارِ حرا، آقاﷺ کی جائے پیدائش (جہاں شاید اب کوئی اور عمارت قائم کی گئی ہے)، جنت البقیع کا ذکر، اور اُس میوزیم کے بارے میں معلومات جو مسجدِ نبوی اور حجرات کا ایک شاندار ماڈل دِکھاتا ہے۔ مصنفہ کے مطابق سفر و حضر کی منصوبہ بندی اور عُمرہ کی ٹائم مینیجمنٹ خود اپنے اندر ایک مکمل موضوع ہے۔ پر جو لِکھا گیا، وہ کمال ہے۔ حرم کے بہتیرے زیارت نامے لکھے گئے، لیکن ہر ایک میں ایک نئی تصویر بنتی ہے، ایک نیا پہلو دِکھتا ہے، ایک نیا منظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے۔ یہ ایسی پیاس ہے، جو بُجھتی نہیں۔
    زیارتِ حرمین ایک بُلاوا ہے۔ یہ مدعو کیا جانا ہے ویسا ہی ہے، جیسا کہ مسجد میں مدعو کیا جاتا ہے۔
    خُدا اپنے گھر بُلاتا ہے۔ آنے کی توفیق دیتا ہے۔ دعوت دیتا ہے۔ صلوٰۃ ایک توفیق ہے، اللہ کے گھر میں سربسجود ہونے کی توفیق۔
    دعوت تو ہم میں سے ہر ایک کو دِن میں بیس مرتبی مِلتی ہے (ہر اذان میں چار مرتبہ صلوٰۃ اور کامیابی کی جانب بُلایا جاتا ہے)۔، پر ہم میں سے کِتنے اُسے سنجیدہ لیتے ہیں، اور کِتنے اُس پر لبیک کہتے ہیں۔ یہ بات اہم ہے۔
    اے اے مِلن کا تحریر کردہ ایک مکالمہ کچھ یوں ہے:
    سوال: لفظ ‘محبت’ کو کیسے بولا جاتا ہے؟
    جواب: لفظ ‘محبت’ بولا نہیں جاتا۔ یہ محسوس کیا جاتا ہے۔
    ایک اور بات بھی اہم ہے۔ ہم مسلمان جیسے بھی ہیں،ایمان کی جس بھی درجے پر ہوں، یقین و عمل کی سیڑھی کے جِس بھی مرحلے پر ہوں، ہم اللہ اور آقاﷺ کی محبت نہ صرف محسوس کرتے ہیں ، بلکہ اس کے اظہار ، اور دفاع کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔
    یہ سفرنامہ اس بات کی ایک مثال ہے۔
    اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم، آج کے مسلمان ، مثالی مسلمان نہیں ہیں۔ پر ہم اللہ اور محمد ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں، اور اپنی تمام پر خامیوں کے باوجود، ہم محمد ﷺ کے نام پر اِکٹھے ہو جایا کرتے ہیں۔
    ہمارے ایمان اور عقیدے کا ایک بنیادی عنصر ہے: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت۔
    یہاں تک کہ ہماری ایک بھی نماز التحیات اور درود پاک کے بغیر مکمل نہیں ہوتی جس میں ہم نبی ﷺ، ان کی آل اور ان کے اصحاب کے لیے درود و سلام بھیجتے ہیں۔
    قرآن کی سورۃ التوبہ کی آیت 24 میں ارشاد ہوا:
    ”اگر تمہارے باپ دادا، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے رشتہ دار، مال جو تم نے حاصل کیا ہے، تجارت جس سے تم ڈرتے ہو، اور جن گھروں سے تم راضی ہو وہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے زیادہ محبوب ہیں اور اس کی راہ میں جہاد کرو تو انتظار کرو جب تک کہ اللہ اس کے حکم پر عمل نہ کر دے۔ اور اللہ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا ۔
    بخاری کی ایک روایت میں ایمان کی کسوٹی بیان فرمائی گئی:
    اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک ایمان نہیں لائے گا جب تک کہ وہ مجھ سے اپنے باپ اور اولاد سے زیادہ محبت نہ کرے۔
    صحابہ کرام کی نظروں میں محبت کے ساتھ ساتھ ان کے احترام کے احساس کی روایات انتہائی خوبصورت ہیں۔
    حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی محبت کیسی تھی؟
    آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم، وہ ﷺ ہمیں ہمارے مالوں، ہمارے بچوں، ہمارے باپ دادا، ہماری ماؤں اور شدید پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے زیادہ محبوب تھے۔
    جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر ہوتا تو امام مالک کا رنگ بدل جاتا تھا۔ وہ اپنا سر جُھکا لیا کرتے۔ایک دن انہیں اس بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے کہا: “اگر تم نے وہ دیکھا ہوتا جو میں نے دیکھا ہے، تو تم میرے بارے میں جو کچھ دیکھا ہے اس پر سوال نہ کرتے۔ میں محمد بن المنقادر کو دیکھا کرتا تھا اور وہ تلاوت کرنے والوں کے استاد تھے، ہم نے ان سے کبھی کسی روایت کے بارے میں نہیں پوچھا سوائے اس کے کہ وہ رونا اور رونا شروع کر دیتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں ان پر (محبت اور احترام کی وجہ سے) افسوس ہوتا تھا۔
    ”ایک انصاری صحابی غم زدہ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اداس کیوں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولے: یا رسول اللہ! میں کسی چیز کے بارے میں سوچ رہا تھا. ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا بات ہے؟ انصاری نے کہا: ہم دن را ت آپکے پاس آتے ہیں، آپ کا چہرہ دیکھتے ہیں اور آپ کے پاس بیٹھے رہتے ہیں۔ کل آپ نبیوں کے ساتھ اٹھائے جائیں گے اور ہم آپ کو دیکھ نہیں پائیں گے۔
    ابو بکر بن مردویہ نے اسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مختلف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے مجھ سے، میرے خاندان اور بچوں سے زیادہ عزیز ہیں۔ کبھی کبھی، جب میں گھر پر ہوتا ہوں، تو میں آپ کو یاد کرتا ہوں، اور میں اس وقت بے چین رہتا ہوں جب تک کہ میں آکر آپ کو نہیں دیکھتا۔جب میں مستقبل کے بارے میں سوچتا ہوں تو میں جانتا ہوں کہ آپ جب جنت میں داخل ہوں گے تو نبیوں کے ساتھ ہوں گے۔ مجھے ڈر ہے کہ جب میں جنت میں داخل ہو جاؤں گا تو آپ کو نہ دیکھ سکوں گا۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کچھ نہ کہا لیکن بعد میں جبرئیل علیہ السلام ان کے پاس آئے اور یہ آیت نازل ہوئی (النساء:69)۔
    اور جو کوئی اللہ اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداءاور صالحین ہیں، اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں ۔
    اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری صحابی کو خوشخبری بھیجی۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن اس کا مقام ان کے قریب نہیں ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا۔
    “المعزمان أحب”
    (ہر کوئی ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن سے وہ محبت کرتا ہے۔)
    انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مسلمان اس سے زیادہ کسی حدیث کو سن کر اتنا خوش نہیں ہوئے۔
    صحابہ کرام نے آقا ﷺ سے محبت، اُلفت اور احترام کے اعلیٰ ترین معیار متعین فرمائے۔ یہ روایات اِتنی خوبصورت ہیں، کہ انسان بے اختیار سوچتا ہے، کہ کیا کوئی کِسی کو ایسے بھی ، اِتنا بھی اور اِتنی چاہ سے بھی چاہ سکتا ہے۔
    ان کی آوازیں (اللہ کے حکم کے مطابق) آقا ﷺ کی آوازسے بلند نہیں تھیں۔ وہ آقا ﷺ کی عزت اور حرمت کی وجہ سے ان کے سامنے کچھ نہیں بولتے تھے۔ وہ احترام اور محبت کی وجہ سے بہت جھجک والے تھے، یا کچھ بھی بولنے سے پہلے بہت بار تولنے والے، کہ کہیں وہ بات غیر ضروری یا نامناسب نہ ہو۔ ان کی آقا ﷺ سے محبت اس قدر تھی کہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہوں تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے اور میری آنکھوں میں پانی آ جاتا ہے۔
    آنکھیں بلا تعطل زیارت کرنا چاہتی تھیں، لیکن لحاظ ، عزت و احترام اور جھجک آ جایا کرتی تھی۔
    ابن شمصہ مہری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے اس وقت ملنے گئے جب ان کی وفات قریب تھی۔ وہ (یعنی حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ) بہت دیر تک روتے رہے اور اپنا چہرہ دیوار کی طرف موڑ کر کہنے لگے: پھر میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی محبوب نہ تھا اور میری نظر میں ان سے بڑھ کر کوئی اور نہیں تھا۔ میں کبھی بھی ان کے چہرے کی پوری جھلک دیکھنے کی ہمت نہیں کر سکا کیونکہ میں ان کے لئے احترام رکھتا تھا۔ لہٰذا اگر مجھ سے اس کی خصوصیات بیان کرنے کے لیے کہا جائے تو میں ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ میں نے ان کے چہرے کو کبھی پوری طرح نہیں دیکھا۔
    نافع روایت کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ جب بھی ابن عمر رضی اللہ عنہ شہیدوں کی قبر کی طرف جاتے تھے تو اپنی اونٹنی کو اس سے دور کر دیتے تھے اور جب ان سے اس کے بارے میں پوچھا جاتا تھا تو آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کو اس علاقے سے گزرتے ہوئے دیکھا اور مجھے ڈر ہے کہ شاید میرے اونٹ کے پاؤں اس نشان کو روند دیں گے جہاں ان کے اونٹ نے قدم رکھا تھا۔
    حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلی نماز پڑھی۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر والوں کے پاس گئے اور میں بھی ان کے ساتھ گیا جب وہ (راستے میں) کچھ بچوں سے ملے۔ آپ ﷺ نے ان میں سے ہر ایک کے گالوں کو تھپتھپانا شروع کر دیا۔ آپ ﷺ نے میرے گال کو بھی تھپتھپا اور مجھے آپ ﷺ کے ہاتھ کی ٹھنڈک یا خوشبو ایسی محسوس ہوئی جیسے اسے کسی عطار کے خوشبو والے بیگ سے نکالا گیا ہو۔
    ایک مرتبہ اُسید بن حُضیر رضی اللہ عنہ نے کسی موقع پر خوش طبعی کی تو آقا ﷺ نے آپ کے پہلو میں ایک چھڑی چبھوئی، آپ نے اس کا بدلہ لینا چاہا تو جانِ عالَم ﷺاس پر راضی ہوگئے ، لیکن آپ نے عرض کی: آپ کےبدن پر کُرتا ہے،حالانکہ میرے بدن پرکُرتا نہیں تھا،سرورِ ﷺنے کُرتا بھی اٹھادیا، کُرتے کا اُٹھانا تھا کہ آپ رضیَ اللہُ عنہ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے لِپَٹ گئے، کروٹ کو بوسہ دیا، اور عرض کیا: یَا رسولَ اللہ! میرا مقصد یہی تھا۔
    جب قرآن کی سورۃ الحجرات میں ارشاد ہوا: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر یہ اثر پڑا کہ وہ جب آقا ﷺ سے بات کرتے تھے تو اس طرح بات کرتے تھے جیسے راز یا سرگوشی میں کیا جاتا ہے، اور آقا ﷺ اکژان سے اپنی بات دہرانے کے لیےکہتے تھے۔
    اے اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
    ہم آپ کے پیارے صحابی رضی اللہ عنہ کے ذرہ برابر بھی نہیں ہیں۔
    ہم آپ کے لئے ان کی محبت کے اظہار کی گرد کو بھی نہیں پہنچتے۔
    ہم کمزور لوگ ہیں…. ۔
    ہمارے تصورات مسخ ہو چکے ہیں…. ہمارے اعمال بدتر ہیں۔.
    ہمارے الفاظ ہمارے خیالات سے میل نہیں کھاتے، اور ہمارے اعمال ہمارے الفاظ سے مطابقت نہیں رکھتے۔
    ہم آپ سے محبت کے تقاضوں میں کاہل ہیں، آپ کا حوالہ دینے میں غیر احتیاط پسند ہیں، اور آپ کی پیروی کرنے میں سُست ہیں۔
    ہم چیزوں پر بلاوجہ سوال اٹھاتے ہیں – یہاں تک کہ واضح ہدایات پر بھی۔
    ہماری آنکھیں اس وقت بھیگ جاتی ہیں جب ہم آپ ﷺ سے آپ کے صحابۂ کرام کی محبت کی سطریں پڑھتے ہیں۔ لیکن ہمارے دل مکمل موم نہیں ہوتے۔ ہم نفرت اور جنونیت کے زہر سے خود کوپُر محسوس کرتے ہیں ۔ یہ وہ زہر ہے، جو ہمیں عشروں سے مذہبی تعصب، تنگ نظری اور نرگسیت کے طور پر سکھایا گیا ہے۔
    ہم واقعی سبق بھول گئے ہیں۔
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے مجھے سب سے زیادہ پسند کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو میرے بعد آئیں گے لیکن ان میں سے ہر ایک کو اپنے اہل و عیال اور مال کی قیمت پر بھی میری ایک جھلک دیکھنے کی شدید خواہش ہوگی۔
    ہم اللہ سے دُعا کرتے ہیں، کہ ہمیں اس روایت میں مذکور لوگوں میں شامل فرمائے۔
    ہم اللہ سے مغفرت مانگتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمندہ ہیں۔
    جب جنونی، وحشی ہجوم نے اسلام کی آڑ میں نازیبا باتیں اور نامناسب کام کیے تو ہم اٹھ کھڑے نہیں ہوئے۔
    جب اللہ اور رسول کے نام پر فساد برپا کیا گیا، تو ہم نے اس کی مخالفت نہیں کی۔
    جب جابر سلطانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے کی ضرورت تھی تو ہم کلمہ حق کےنقصانات اور صاحبِ امر کے مسائل پر گفتگو کرتے رہے۔
    ہم اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرنے میں کمزور ہیں، کہ سب سے ہمت کا کام اپنی غلطیوں کو قبول کرنا ہے۔
    اے اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔
    ہم اللہ تعالیٰ سے مغفرت، اس کی نعمتوں کی برکت اور اچھے اعمال کی توفیق مانگتے ہیں۔ ہم معافی اور رحمت مانگتے ہیں ۔
    ہم اچھے رہنماؤں اور دانشمند بزرگوں کی نعمت مانگتے ہیں۔
    ہم نگاہِ کرم مانگتے ہیں۔

    Like

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.