سب کچھ تو ٹھیک ہے۔۔
گھر کی چھت ہے، بچے ہیں، شوہر کے پاس نوکری ہے۔۔
حتیٰ کہ خود اس کے پاس بھی نوکری ہے۔۔
ریل پیل نہ سہی، زندگی کے تمام سُکھ میسر ہیں۔۔
تین وقت کھانا بنتا ہے۔۔
فرمائشی پکوان بھی آئے دن بنتے رہتے ہیں۔۔
مہمانوں کی آمد و رفت سے چہل پہل بھی لگی رہتی ہے۔۔
ہفتے میں پانچ دن نوکری کے بعد دو دن کی چھٹی بھی مل جاتی ہے۔۔
مگر عجیب عورت ہے۔۔
کبھی اس کی آنکھوں میں برف پوش پہاڑوں کی چوٹیاں اتر آتی ہیں،
کبھی دور بہتی ندیوں کا پانی اسے کھینچنے لگتا ہے۔۔
کبھی اس کی انگلیاں رنگوں سے کھیلنے کو بیتاب ہو جاتی ہیں۔۔
اونچی آوازیں، نفرین اور تمسخر بھرے لہجے اسے بغاوت پر اکساتے ہیں۔۔
تو امن، آشتی اور نرم آوازوں بھری جنت ڈھونڈنے کو دنیا سے بھاگ جانا چاہتی ہے۔۔
اور کبھی بچوں کی قلقاریاں اور کھلکھلاہٹیں اس کے دل کی دنیا آباد کر دیتی ہیں۔۔
تو نئے سرے سے وہی زندگی جینے میں جت جاتی ہے۔۔
کہیں پرانے دوستوں کی مجلس دل میں دھمال ڈال دیتی ہے۔۔
تو کہیں نئے اور پرانے رشتے قدم زنجیر کر دیتے ہیں۔۔
کبھی کافی کی مہک اور کسی کافی شاپ کا خاموش کونا دل میں کھلبلی مچا دیتا ہے۔۔
تو گھر پر ہونے والی بھری پری دعوتیں قدم بھاری کر دیتی ہیں۔۔
کبھی اسے خواب میں اپنا آپ ہزاروں لوگوں کے ہجوم سے بات کرتا دکھائی دیتا ہے۔۔
اور کبھی وہ ہر زخمی دل پر مرہم رکھتی دکھائی دیتی ہے۔۔
تو زندگی کی روزمرہ کی گونج اسے پھر سے جگا دیتی ہے۔۔
کبھی انسانوں کی رونق سے فرار ہو کر قدرت کی بانہوں میں قرار چاہنے لگتی ہے۔۔
تو کبھی یکسانیت سے اکتا کر دھمال ڈالنا چاہتی ہے۔۔
اب اتنا وقت کون لائے جو اس کے خوابوں میں جھانکے اور ان کی تکمیل کا بوجھ ڈھوتا پھرے۔۔
جب آرام بستر کی شکنیں سامنے دکھائی دے رہی ہوں تو ہواؤں اور پہاڑوں کی نہ سنائی دینے والی سرگوشیاں بھلا کون سنے۔۔
جب اس کے ہاتھوں کی حرکت سے اتنے کام سمٹ جاتے ہوں،
گھر لمحوں میں سنبھل جاتا ہے،
تو اس کے پر اور پرواز کی خواہشیں کیا معنی؟
آخر عورت تو زندگی نبھانے کے لیے ہی ہوتی ہے نا۔۔ نئے نئے خواب دیکھنے اور زندگی کی نئ نئ پرتیں کھولنے کا اضافی کام کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔۔
جب سب ایسے ہی خوش ہیں، تو پھر اسے کیوں یہ بے تابیاں چین نہیں لینے دیتیں؟
عجیب ناشکری عورت ہے۔۔
اچھی بھلی شکر و قناعت کے قابل زندگی میں نئی ہلچل لانے کی کوشش میں رہتی ہے۔۔
نہ خود سکون سے رہتی ہے، نہ کسی کو رہنے دیتی ہے۔۔
یہ بھی بھلا کوئی بات ہوئی کہ انسان ہونے کی خواہش بھی دل میں پال لی جائے؟
ایسی عورتوں کے ساتھ کون خوش رہ سکتا ہے۔۔
جنہیں دوسروں کے حقوق ادا کرتے کرتے اپنا حق لینا بھی یاد آ جاتا ہے۔۔
جو شادیاں کر کے بھی اپنے خواب عزیز رکھتی ہیں۔۔
جنہیں ایک جگہ رکنا راس نہیں آتا۔۔
آگے ہی آگے جانا چاہتی ہیں۔۔
نئے نئے رنگ تلاش کرنا چاہتی ہیں۔۔
جب اچھی بھلی قابلِ قبول حقیقت سامنے کھڑی ہو تو
کون دل و دماغ میں کلبلاتے خوابوں کا تعاقب کر کے ہلکان ہوتا ہے۔۔
دستبرداری کا راستہ چن کر زندگی آسان کرنا کتنا بہتر خیال ہے۔۔
اتنی ذمہ داریوں کا بوجھ جن کاندھوں پر ہو۔۔
انہیں خواب نگر میں رہنا کہاں زیب دیتا ہے۔۔
اور عورت تو ہوتی ہی حقیقت نگر کی باسی ہے۔۔
اُسے خواب خواب کر کے بلند پرواز ہونے کی آزادی کون دے۔۔
پھر تو وہ زندگی سے ہی الجھ پڑتی ہے۔۔
ناشکری کہیں کی۔۔
—————
عمارہ احمد
