نارسائی

صوفیہ کاشف


~~~~~

ہماری ذندگیوں میں محبت نہیں ہوتی۔صرف محبت کا ڈر ہوتا ہے،محبت کے نام کا چارہ ہوتا ہے۔دنیا کے اس خطے کے لوگ محبت نہیں کرتے لیکن کسی مقصد کی تکمیل کے لئے اسکا نام ضرور استعمال کرتے ہین۔باپ نے یٹیوں کو ذندہ گاڑنا ہو،بھائیوں کی ذندگیوں پر قربان کرنا ہو،شوہر نے حقوق ضبط کرنے ہوں،کلاس فیلو نے یا استاد نے نفس کی تسکین کرنی ہو ہر جگہ اسکا نام کرنسی کی طرح استعمال میں آئے گا۔اسی کرنسی سے اس خطے کی عورت کا لین دیں ہوتا ہے۔
کیسا خواب تھا جس سے اسکا جاگنے کو من نہ کرتا تھا۔ بستر میں ادھر سے ادھر کروٹ لیتی اور پھر پڑ جاتی۔نیند اور نشہ اسقدر گہرا تھا کہ اٹھنا بھی چاہتی تو اٹھ نہیں پاتی۔ اور پھر سو جاتی اس خواب سے نکلنے کی ہمت نہ تھی۔
اس خواب میں وہ بہت سے خزانے تھے جو اسکی اپنی ذندگی میں کہیں وجود نہ رکھتے تھے۔جیسے توجہ،جیسے اچھی تعلیم ،جیسے محبت لٹانے والا باپ،جیسے سنبھال رکھنے والا بھائی۔جیسے پھولوں کی طرح رکھنے والا شوہر،جیسے کہ محبت!
کتنے سال جی چکی تھی وہ؟ چھ دہائیاں،ساتھ سے ذیادہ سال۔۔۔۔۔۔اور خواب میں وہ جوانی تھی جو کبھی اسکی جوانی میں بھی اتری نہ تھی۔اس خطے کی ہر عورت کی طرح اسکے نصیب بنجر تھے ان میں محبت،توجہ کے پھول کبھی نہ کھلتے تھے۔
محبت اسکی ذندگی میں ایسی نایاب تھی کہ اگر آج غلطی سے اسکے خواب میں اتر آئی تھی تو اب اس خواب سے اٹھنا نہ چاہتی تھی۔حقیقت کی اس ظلمت میں پھر سے اگنا نہ چاہتی تھی۔
وہ مدھر خواب کیا تھا؟
کوئی تھا جو اسکی توجہ کا طالب تھا،کوئی ایسا جسکی زندگی صرف اسکی توجہ کی طلب میں گھومتی تھی۔جسکا سارا وجود اسکے دھوپ سے کھلتا اور مرجھائے تھا۔بس اتنی سی بات تھی مگر ایسا تھا جیسے خواب کی ساری سرحد خوشبو اور رنگ سے بھری ہو،جیسے ہر طرف گلاب کھل اٹھے ہوں۔جیسے نکلتے سورج کی نرم نرم زردی ٹیولپ کی قطار در قطار لہروں کے چہروں کو روشن کرتی ہو,جیسے گلابی اور زرد بدلیاں آسماں کی نیلگوں سرحد میں رنگ بھرتی ہوں۔جیسے بہار سے بھری وادیوں میں اک شفاف میٹھے پانی کی ندی جھومتی بکھرتی ہوں اور ذندگی کی نمی سے ہر سب رنگی تخلیق کو سیراب کرتی ہو۔ جیسے ۔جیسے مدھر موسیقی ہر سمت گونجتی ہو! جیسے زندگی اسکی جنت سی حسین ہو!
ساٹھ سال ذندگی میں کب آیا تھا اسکی ذندگی میں ایسا کوئی لمحہ؟ سولہ سے لیکر ساٹھ تک جب اس دنیا کا کوئی فرد مح اسکی توجہ کا طالب رہا ہو؟
کبھی نہیں
جب کسی کے دن کا سورج اسکی نظر کے ساتھ نکلتا اور چڑھتا یو؟
کبھی نہیں!
ہاں مرد نے باپ بن کر ظلم بہت کئے تھے محبت کا کہہ کر۔بیٹا اس جہنم میں اتر جا کیونکہ مجھے تمھاری فکر ہے ۔بیٹا یہ زہر کا پیالہ پی لو کیونکہ یہ تمھیں محفوظ رکھے گا۔ہم تمھیں اس لئے اس کنویں میں اتارنا چاہتے ہیں کیونکہ ہم تم سے پیار کرتے ہیں
یا پھر شوہر جب عورت کو ہاتھ سے نکتے دیکھتا ہے تو پاوں پڑ جاتا ہے محبت کے وہ ترانے گانے کی کوشش کوٹا ہے جسکے اسے ہجے تک معلوم نہیں۔
اور ان بغیر ہجوں کی محبت کے لئے عورت مفت میں بکتی چکی جاتی ہے
اپنے روزگار کا بستہ اتار کر پھینک دیتی ہے
اپنی عزت نفس کا تمغہ قدموں میں رکھ دیتی ہے
اور بیڑیاں اٹھا کر اپنے گلے میں جکڑ لیتی یے ایسی تاثیر محبت کی جھوٹی کرنسی کی ہے اگر جو اصلی ہوتی تو کیا کر جاتی۔
ایسی بے ہجوں کی محبت سے پیدا ہوئے تھے بغیر محبت کے بچے۔برائلر چکن بھی کبھی دیسی مرغی کو جنم دے سکتی ہے؟
زبانی محبت سے جنم بچے اصل محبت کے معانی وراثت میں نہیں پاتے۔یہ نسل در نسل کا فاقہ ہے جو ہر اگلی نسل کو پچھلی سے بڑھ کر سہنا پڑتا ہے۔یہ فاقہ ہر حال میں عورت کے مقدر میں ہی اترتا ہے۔
دارالامان کے کمرے میں بے رنگ بستر پر پڑی وہ کروٹ لیتی اور دوسری سمت پڑ کر سو جاتی۔اسے اس فریبی دنیا میں نہیں اٹھنا تھا۔

—————–

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.