باہر سے واپس پاکستان جا رہے ہیں؟بچوں کے اسکول کے بارے میں کیا سوچا ہے؟

اگر آپ کئی سالوں سے  اپنی فیملی کے ساتھ ملک سے باہر رہ رہے ہیں اور اب  کسی بھی وجہ سے بیوی بچوں سمیت پاکستان واپس شفٹ ہونے کا سوچ رہے ہیں تو اپنے خوابوں  کے

ساتھ ساتھ وہاں اپنے بچوں کے مستقبل کےبارے میں بھی ضرور سوچئے

۔کیا یہ فیصلہ آپکے بچوں کے لئے اچھا ہے؟ کیا وہ ایک نئے ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کر سکیں گے؟آپ کے بچے کن اداروں میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں؟ انکا زریعہ تعلیم کیا ہے؟

کیا انکو اردو بولنی پڑھنی اور لکھنی آتی ہے؟

ان تمام باتوں پر غور کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کریں جو آپکو محسوس ہو کہ سب کے لئے مفید ہو۔صرف یہ سوچ کہ بچے ہیں ہو ہی جائیں گے حقائق سے نظر چرانے والی بات ہے۔

انکے مسائل سے نظر چرا کر کئے جانے والا  ہجرت کا یہ  فیصلہ آپکے بچوں کے لئے خاصا تکلیف دہ  اور مشکلات میں دھکیلنے کا باعث بن سکتا ہے۔

عموما ایسے فیصے کرتے والدین صرف اپنے اور اپنے خاندان کے معاشی اور جذباتی مسائل پر غور کرتے بچوں کی ضروریات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔سمجھا یہی جاتا ہے کہ چونکہ اپنا دیس ہمارے لئے سب کچھ ہے تو بچوں کے لئے بھئ  وہ ایسا ہی جذباتی سہارا ثابت ہو گا جبکہ حقیقت اسکے بالکل متضاد ہوتی ہے ۔چونکہ جس طرح آپ اپنی جنم بھومی کو اپنے دیس کے نام سے جانتے ہیں اسی طرح آپکے بچوں کا دیس وہ ملک یا علاقہ ہے جہاں وہ پلے بڑھے اور انہوں نے اپنی اب تک کی ذندگی گزاری۔یہی وہ دیس ہے جسے وہ آنے والے دنوں میں ہمیشہ ڈھونڈتے رہیں گے اور اسکے حساب سے ذندگی گزارنے کی کوشش میں پاکستان میں ناکام ہوتے رہیں گے۔وطن واپسی سے ہو سکتا ہے آپکی ذندگی کا یہ جزباتی خلا بھر جائے مگر اس سے قدو کاٹھ میں کافی بڑا ایک جزباتی  اور نفسیاتی خلا آپکے بچوں کے اندر پیدا ہونا شروع ہو سکتا ہے۔

باہر سے آنے والے بچوں کے والدیں عموما انگلش زریعہ تعلیم کی تلاش میں اکثر اپنے بچوں کو مہنگے تعلیمی اداروں می داخل کروانے پر مجبور ہوتے ہیں جہاں انٹرنیشنل بچے یا انگلش ذریعہ تعلیم بتایا جا رہا ہو۔مگر ایسے تعلیمی اداروں میں داخلہ لیتے ہی انہیں ایک کلچرل شاک کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جس طرح کا پروقار تعلیمی اور تعمیری ماحول وہ پرانے اسکول میں چھوڑ کر آتے ہیں وہ انہیں یہاں دکھائی نہیں دیتا۔اسکے برعکس بچوں میں جسٹس بیبر اور سیلنا گومز کی بھرمار نظر آتی ہے۔پاکستان میں  امیر گھرانوں سے آنے والے نہ صرف اکثریتی  بچے ہالی وڈ کلچر میں ڈوبے دکھائی دیتے ہیں  بلکہ باقاعدہ اسکولز بھی پاپ اور ڈانس ، کنسرٹ کلچر کو فروغ دینے میں آگے  آگے دکھائی دیتے ہیں۔بہت چانسز ہیں کہ جس اسلامی ماحول کا سوچ کر آپ اپنے بچوں کو یورپ امریکہ یا کینڈا سے پاکستان لے کر آ رہے ہیں وہ آپکو یہاں کے کسی بھی اسکول سے نہ ملے۔چونکہ یہاں ماڈرنزم اور ترقی کا تمام تر تصور صرف فیشن، پہسے کی نمود و نمائش  اور، کنسرٹ اور ڈانس  تک محدود ہے۔وہ تعمیری اور تربیتی ماحول جو آپ دیکھ چکے ہیں یہاں پر دیوانے کا خواب ثابت ہو سکتا ہے۔میں ایسے بچوں کو جانتی ہوں جو صرف اپنی کلاس میں اس لئے ستائے گئے کیونکہ انکے پاس اسکول بیگ پرانے تھے۔

عموما کہا جاتا ہے باہر سے آنے والے بچے بھولے اور سیدھے ہوتے ہیں۔اس لئے بھی کہ باہر ایسے نظام موجود ہوتے ہیں جن میں کامیاب ہونے کے لئے آپکا دو نمبری جاننا ضروری  نہیں ہوتا بلکہ آپکا سیدھا اور ایماندار ہونا  ہی  آپکی کامیابی کی بنیادی سیڑھی ہے۔  اور ایسے ہی  رویوں کو ہر لیول  اور اسکولز میں فروغ دیا جاتا ہے۔مگر یہی خوبی پاکستان میں قدم دھرتے ہی ایک خامی میں بدل جاتی ہے جب پاکستان میں مہنگے مہنگے اور انٹرنیشنل، پوش  اسکولوں کے بچے آپکے بچوں کو بدھو، زیرو آئی کیو والا تصور کرنے لگتے ہیں۔صرف اس لئے کہ آپ کے بچے آپکی نظر بجا کر آپکا موبائل نہیں اڑا سکتے، وہ اپنے پرانے بیگ کو پسند کرتے ہیں اور صرف اس لئے بدلنا نہیں چاہتے کہ وہ پرانا ہو گیا ہے، آپکے کہے ٹائم پر ٹی وی یا پلے اسٹیشن بند کر دیتے ہیں،کتابیں پڑھتے ہیں ( بھلا آج کل کون کتابیں پڑھتا ہے) والدین کی ہر بات کی تابعداری کرتے ہیں، ہیں۔استاد سے جھوٹ نہیں بھول پاتے ،دوسرے بچوں کی پیٹھ پیچھے انکی برائی نہیں کر پاتے اور  لوگوں کی باتوں اور وعدوں پر یقین کرتے ہیں اور انکے پاس نیا نکور مہنگا آئی فون نہیں ہوتا۔۔وہ چھوٹے چھوٹے کاموں میں ڈنڈی مارنے کے تصور سے آگاہ نہیں ہوتے چناچہ اپنے آس پاس کے معاشرے میں  پاکستانی اصطلاح میں تیز طرار جبکہ درحقیقت  مجرمانہ خصلت کے مالک نہیں ہوتے۔

آپ نے یقینا سوچ رکھا ہو گا کہ آپکے بچے   تربیت اور تعلیم میں پاکستانی بچوں سے بہت آگے  ہیں مگر زرا رکیے، جلد ہی یہاں کا پورا سسٹم آپکے بچوں کو ایک ناکارہ اور بدھو فرد ہونے کا یقین دلا کر یا تو بالکل سماجی  تنہائی کا شکار کر دیتا ہے یا انکو مزاق کا نشانہ بنا کر نفسیاتی مریض بنا دے گا۔

پاکستان کے عام لوگوں اور بچوں نے انگریزی معاشرے صرف فلموں اور ڈراموں میں دیکھے ہیں چناچہ ایسے سیدھے سادے بے نیاز حلیوں والے بچے انہیں انگلیڈ کے کسی چڑیا گھر سے آئے لگتے ہیں کیونکہ یہاں کے بچوں کی نکتہ نظر سے تو باہر بہت ہی ماڈ سکاٹ قسم کے فیشن زدہ جسٹن بائبر قسم کی یو تھ پائی جاتی ہے۔چناچہ ان سا ہونے کی کوشس میں ہمارے اسکولز میں جسٹس بائیبر اور سیلنا گومز کی کاپیاں دھڑا دھڑ پیدا ہو رہی ہیں اور اب یہ بچے اس سیدھی سادھی انسانی شکلوں کو امپورٹد سمجھنے سے قاصر ہیں۔اب یہی  امریکہ برطانیہ ، دبئی کے اعلی اسکولز میں اعلی روایات کے ساتھ پڑھے بچے بجائے کے آس پاس کے ماحول کو کچھ بصیرت  اور کچھ اچھی عادتیں دینے کے قابل ہوتے الٹا اپنی اچھی عادات اور طبیعات کی وجہ سے ستائے جانے لگتے ہیں۔آپکو ہر اسکول کی ہر کلاس میں ایسے دو تین بچے ضرور نظر آئیں گے جنکے والدین خود تو وطن کی محبت کے جوش مارنے پر اپنے گھر کو  لوٹ آئے ہیں مگر  اب انکے یہ بے گھر سے بچے ہمیشہ اپنی کرسیوں پر  اینگری برڈ ، خموش، غصیلے اور تنہا سے نظر آتے ہیں۔ یہ بچے دھڑا دھڑ جھوٹ نہیں بول سکتے،نقل نہیں کر سکتے،منافقت نہیں کر سکتے ، شیخیاں نہیں مار سکتے چناچہ انکا کوئی دوست نہیں بنتا۔انہیں نہ صرف شدید قسم کی سماجی تنہائی اور بلنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ انکی قابلیت اور آگے بڑھنے کی صلاحیت میں شدید تنزلی شروع ہو جاتی ہے۔

یہیں پر  وہ جزباتی خلا، نفسیاتی مسائل اور محرومیاں جنکا ازالہ کرنے آپ واپس پاکستان میں تشریف لائے ہیں آپکے بچوں کی جھولیوں میں بھرنا شروع ہونے لگتی ہیں۔کہاں بچوں کے وہ اسکول جن میں انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ دھڑا دھڑ اچھے گریڈز میں آگے سے آگے آپکے بچے کامیاب بڑھ رہے تھے اور کہاں اب صورتحال کہ جہاں انہیں کلاس میں

ایک اچھا طالب علم  تو دور کی بات ایک اچھا اور دلچسپ انسان تک کوئی نہیں سمجھتا بلکہ اکثر اوقات انہیں اکثریت اسکے متضاد تصور کرتی ہے۔پتا تب چلتا ہے جب بچہ ایک دم ہیرو سے زیرو ہو کر رہ جاتا ہے اور تعلیمی کارکردگی زیرو کے آس پاس آ کر پھنس جاتی ہے۔

اگر تو  آپکے بچے وہاں پاکستانی یا انڈیں اسکولز میں  پڑھے ہوں اور اردو پڑھنا بولنا اور لکھنا جانتےہوں پھر تو وہ شاید تعلیمی حساب سے نسبتا آسانی سے ان اداروں میں ایڈجسٹ ہو جائیں   چونکہ ایسے اسکولز کا مطلب ہے کہ کم و بیش ایک ہی جیسا سسٹم  اور ایک ہی جیسے بچے دونوں طرف موجود ہے لیکن اگر بچے اعلی قسم کے امریکن اور برٹش اسکولز میں پڑھتے رہے ہوں جہاں اردو کی تعلیم انکے سلیبس کا حصہ نہ رہی ہو،  اور آس پاس دیسی قسم کا ماحول بھی نہ ملا ہو،انکو پاکستان میں لا کر یہاں کے سسٹم کا حصہ بنانے کی کوشش کرنا ایک ظلم سے کم نہیں ہے

باہر سے آنے والے ایسے بچے  خصوصا   جنکو اردو بولنی پڑھنی یا لکھنی نہیں آتی انکے مسائل  اردو سمجھنے والوں سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ایسے بچوں کے لئے پاکستان کا کوئی بھی اسکول  سسٹم قطعی ایک اچھا تجربہ نہیں ہے چاہے آپ جتنا بھی بڑا بڑا کرکے اسکے ساتھ انٹرنیشنل لکھ لیں۔

اساتزہ کی اکثریت انگلش  زبان کی ماہر نہیں ہے چاہے آپ جتنی مرضی بنیادی انگلش بول بول دکھا دیں۔  خصوصا اردو، اسلامیات پاکستان اسٹڈیز یا سائنس وغیرہ کے اساتزہ انگلش پر عبور رکھنے والے نہیں ہیں۔تتیجتا اگر مکمل سبق انگلش میں سمجھا بھی دیا جائے تو بھی استاد کی ادھر ادھر کی گفتگو نوک جھوک وغیرہ بچے کی سمجھنے کی استطاعت سے دور کی چیز رہتی ہے اور بچہ استاد کے ساتھ رابطہ قائم کرنے میں بالکل ناکام رہتا ہے۔ وہ یہ گفتگو  سمجھ پاتا ہے نہ اس میں حصہ لے پاتا ہے بلکہ ایک غیر متعلقہ انسان بن کر رہ جاتا ہے جس سے  استاد سمیت کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

اسکول کی نوکری کے درمیان جب میری   پانچویں کی  کلاس  میں تین سے چار بچیاں ایسی آئیں جو اردو میں گفتگو کرنے سے قاصر تھیں۔اور میں نے انہیں بیک بینچرز کی طرح کلاس میں ایک کونے میں لگا دیکھا تو ایسے ہی بچوں کی ماں ہونے کے ناطے میرا دل کئی ٹکروں میں ٹوٹ گیا۔ ۔برطانوی، امریکی اور آسٹریلوی لہجے میں انگلش بولتی یہ بچیاں جیسے کسی تاج سے اتار کر مٹی میں پھینک دی گئ تھیں۔ایک بچی کا تو  برطانوی لہجہ اسقدر شستہ تھا کہ میری ساری عمر کی انگلش سننے کی صلاحیت بھی کم پڑ گئی تھی۔میں سمجھ سکتی تھی بچی کیسے تعلیمی ادارے سے آئی تھی اور اب یہاں ڈری سہمی اور دبکی بیٹھی تھیں۔پشتو  بولنے والے بچے  اعتماد اور اونچی اواز  میں بولتے اور انگلش بولنے والوں کے منہ سے آواز تک نکلنی مشکل تھی۔۔۔۔ ۔وہ تینوں  میری کسی بھی بات کو اردو میں سمجھنے اور جواب دینے سے قاصر تھیں اور  مجرم بنی سر جھکائے غیروں کی طرح بیٹھی تھیں  ۔ان بچوں کو آگے لانے اور گفتگو میں صرف شریک کرنے میں مجھے کئی دن لگے۔یہ ہمارے انگریزی دان دیسی بچے انگریزی شکلیں، گورے چہرے اور سنہری بال نہیں رکھتے اس لئے دور سے پہچانے بھی  نہیں جاتے۔تو وہ گرمجوشی جو یہاں کے لوگوں میں گوروں کو دیکھ کر پیدا ہو جاتی ہے وہ اس سے بھی محروم رہتے ہیں۔۔

   چناچہ کلاس میں خموشی سے بیٹھے یہاں کے طلبا اور اساتذہ  ان کو    نا سمجھ  اور بیوقوف بچے سے ذیادہ کچھ نہیں لگتے۔ایسے میں تیس کی کلاس کا لیکچر یاد کر کے آنے والے استاد کو چالیس منٹ کے دوران پتہ تک نہیں چل پاتا کہ کونسا بچہ کن مسائل کا شکار ہے اور اسے کتنی توجہ کی ضرورت ہے۔چناچہ ایسے بچے عموما  انتہائی کند زہن بچوں کی طرح ٹریٹ کئے جاتے ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان سے کبھی باہر نہ جا سکنے والے اساتذہ بھی ان بچوں کو اتنا ہی بدھو اور کم عقل گردانتے ہیں جیسے یہ بچے وہاں بھی ایسے ہی آخری بینچوں پر بیٹھ کر آ گئے ہوں۔یہیں سے ان بچوں کے مقدر سے کھلواڑ ہو نے لگتا ہے

اگر آپ گلف ممالک سے بغیر شہریت کے واپس آتے ہیں تو صورتحال اور بھی گھمبھیر ہے کیونکہ امریکی یا برطانوی شہریت کے ہوتے آپ آئی جی سی ایس اور اولیول میں اردو کے لازمی پرچے سے بچ جاتے ہیں مگر اگر آپکی شہریت پاکستانی ہی ہے تو آپ آدھے تیتر اور آدھے بٹیر والی حالت میں ہیں اور آپکے مسائل بھی آپکی حالت ہی کی طرح دگرگوں ہیں۔اب اس لیول پر اردو کا پرچہ آپکے لئے لازمی ہے اور وہ جو کچھ  آپ اب  تک  اپنے بچے کی بہترین اسکولنگ پر خرچ کرتے رہے ہیں وہی آپکے اب گلے پڑنے لگا ہے۔۔

اب کہنے کو ہر اسکول میں ایسے بچوں کے لئے  ایزی اردو کا چورن بیچا جا رہا ہے۔” جی جی۔۔۔ہم سکھا لیں گے اردو!”

مگر اس ایزی اردو میں بچوں کو سکھایا کیا جا رہا ہے؟

پانچویں، چھٹی ،ساتویں،آٹھویں یا نویں جماعت کے بچوں کو گریڈ ون اور ٹو کی اردو سے شروعات کروانے کا یہاں کوئی نظام موجود نہیں ہے۔کوئی ایک بھی کلاس ایسی اضافی نہیں ہے جو ایزی اردو کا ڈیپارٹمنٹ کہلائے،ایک استاد جو صرف ایسے بچوں کے لئے وقف ہو۔ وہی ریگولر اردو کلاس لینے والی ٹیچر کی زمہ داری ہے کہ وہ ان دو تین باہر کے بچوں کو ساتھ ساتھ ایزی اردو سکھائے۔۔۔۔یعنی اگر استانی صابہ چل چلاو ہیں تو پورا سال ایسے بچوں کو دو تین بار ہی دیکھ سکیں گی اور اگر کچھ محتاط ہیں تو روز آپکے بچے کی کاپی پر دو لفظ لکھ دیں گی کہ اب اسکے نیچے بیس دفعہ لکھو یا چند لفظوں کے نیچے لائن لگا دیں گی کہ اسکی توڑ جوڑ کرو! آ گئی بچوں کو اردو!

ظلم تو یہ ہے کہ اسکولز کی اکثریت کے پاس ایسے بچوں کو اردو سکھانے کے لئے کوئی اپروڈ سلیبیس تک نہیں ہے

کام پورا کرنے اور دکھانے کی خاطر ادھر ادھر سے مار کر دو چار ورک اشیٹس نکالی جاتی ہیں ۔

میرے اپنے بچے  یہاں کے مہنگے پرائیوٹ اسکول میں پچھلے چار سال سے صرف پھلوں اور سبزیوں کے نام رٹنے پر لگے  ہیں ۔چار سال  میں ابھی تک وہ یہ چند پھلوں کے نام تک یاد نہیں کر سکے۔اگرچہ چار سال میں بچہ آرام سے کوئی بھی زبان لکھنی پڑھنی آرام سے سیکھ جاتا ہےچوتھی کا بچہ اپنی مرضی سے اردو پڑھنے اور لکھنے  لگتا ہے۔مگر اسکولز میں اسکا کوئی بھی سسٹم موجود نہیں ہے۔عموما تو یہ ہوتا ہے کہ ایسا بچہ کلاس میں یونہی سر جھکائے بیکار بچے کی طرح بیٹھے بیٹھے  بیکار بن کر رہ جاتا ہے اور استانی سارا سال اپنا کام باقی ریگولر بچوں کو پورا کرواتی رہتی ہے اور کلاس میں بیٹھےباہر سے آئے دو تین بچے ادھر ادھر دیکھ کر یا چھپ کر وقت گزارتے رہتے ہیں۔

میں ایسے ہی ایک

پوش اسکول میں ایک استانی کو ایک ایسی بچی کو اسکول سے نکوانے کی کوشس کرتے دیکھ چکی ہوں جو پہلی جماعت میں تھی اور اردو کی استانی سے اردو میں گفتگو نہ کر پاتی تھی۔سعیدہ نامی اس استانی نے انگلینڈ سے آنے والی بچی کی فائل بنا کر تقریبا ہیڈ مسٹریس تک پہنچا دی تھی جسکے مطابق بچی کسی بھی قسم کی بنیادی تعلیم سے نابلد تھی، کسی بھی بات کا جواب نہ دیتی تھی اور گریڈ ون میں داخلے کی اہل نہ تھی۔ یا تو اسے کسی اور اسکول میں داخل کروایا جائے یا پھر کے جی میں بٹھایا جائے۔خدا نے اس بچی کو بچانا تھا جو ہیڈ مسٹریس   نے یہ مسلئہ میرے سامنے رکھا اور جب میں نے انگلش  ٹیچر کی حیثیت سے اس بچی کو جانچا تو

 حیران رہ گئی کہ بچی اردو نہ بول سکتی تھی نہ سمجھ سکتی تھی ، سو فیصد انگلش میڈیم تھی اور اسی ری لوکیشن کے عارضے سے دوچار تھی جہاں اردو کی استانی  اسکی انگلش نہ سمجھ پاتی تھی اور وہ استانی کو اردو میں جواب نہ دے پاتی تھی۔۔۔زرا سی توجہ سے وہ بچی کچھ ہی دنوں میں وکٹورین اسٹائل کی انگلش آرام سے لکھنے لگ گئی تھی۔زرا اندازہ لگائیں اساتزہ کی نااہلی اور اداروں کی نامعقولیت کا جو ایک ذہین بچی کی ذندگی برباد کرنے چلا تھا۔۔۔۔  ۔

بہت سے اسکول ایسے ہیں جو پیسے بچانے کے چکر میں اردو کی کتابوں کا مخصوص اداروں سے اپروول نہیں لیتے چناچہ یہ ڈیوٹی بھی استاد ہی کے سر پڑتی ہے کہ وہی ایزی اردو کا سلیبیس بنائے ، تیار کرے اور پھر ریگولر کلاس کے ساتھ اتنے ہی مہیا چالیس منٹ میں دو قسم کے سلیبس دو قسم کے بچوں کو کروا دے۔کسی بھی اسکول میں میں نے دو تین تو دور کی بات ہے ایک بھی خاص استاد” ایزی اردو” کے نام سے نہیں دیکھا ۔تو جب اس شعبے کو اتنی اہمیت ہی نہیں دی گئی کہ اسکے لئے ایک استاد ہی بھرتی کر لیا جائے تو کام کیسے ہو گا۔نتیجہ پھر یہی ہوتا ہے کہ چالیس منٹ استاد کو تیس بچوں کو ریگولر اردو کا سلیبیس پڑھانے کے لئے ہی ناکافی ہے وہ انگلش بولنے والے بچوں کو اردو کیسے سکھائے۔چناچہ رہ جاتے ہیں وہی لائین کے اوپر لکھے چار لفظ اور نیچے دس دس بار انکو لکھ کر اردو سیکھنے کا منتظر بچہ۔۔۔۔۔

ایسے ہی بچوں کی ماوں کی حیثیت سے میں نے اپنے بچوں کے اسکولز کے کئی چکر لگائے، انکی استانیوں سے کئی بار ملی مگر وہ کبھی نہیں سمجھ پائیں کہ انکو اردو سکھانی ہے اردو کو رٹا نہیں لگوانا ہے۔کچھ وہی استاد کی گردن پر کھڑا یہ سارا تعلیمی نظام دراصل چل چلاو والاہی ہے جہاں چیزوں کو ہلا جلا اور بجا کر کارکردگی دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے جو دراصل کہیں موجود  ہی نہیں  ہوتی۔چناچہ وہ وہی  کیلا اور ٹماٹر سارا سال کاپی پر لکھتی رہیں گی اور بچہ ساری سال اسی کیلے اور ٹماٹر کو لکھ لکھ رٹتا رہے گا جب تک کہ میں گھر پر کسی ٹیوشن کا بندوبست کر کےخود سے بچوں کو اردو سکھانے کی ذمہ داری نہ لے لوں۔

اگر آپ ایک بار اپنے بچوں کو کسی دوسری زبان کے نظام تعلیم میں داخل کر چکے ہیں تو اپنے جزباتی ناسٹیلجیا کو کنٹرول میں رکھیے اور بچوں کو براے مہربانی اسی سسٹم میں اپنی تعلیم مکمل کر لینے دیں جس میں سہولت سے چلے جا رہے ہیں۔۔ورنہ بچہ خدانخواستہ ایک بھی برباد ہو گیا تو آپکی ذندگی بحثیت والدین بیکار ہو جائے گی۔

صوفیہ کاشف

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.