علم کی چوٹ  ______صوفیہ کاشف

علم کا بوجھ اٹھانا آسان نہیں! کوئی وجہ تھی کہ وہ پتھروں کو پہاڑوں کو چور چور کر دیتاتبھی اسے انسان کے سینے پر اتارا گیا۔آپ کہیں گے وہ قرآن تھامیں کہتی ہوں وہ علم تھا!جسے علم مل گیا اس کا جینا دوبھر ہو گیاجس نے جان لیا وہ بے حال ہوا۔

چہروں کے پیچھے کیا ہےچیزوں کے اندر کیا ہےرشتوں کے سچ کیا ہیں ،اس دنیا کی حقیقت کیا ہے،اس ذندگی کی اوقات کیا ہے؟یہ سب نامعلوم رہے تو اس جینے سے بہتر کچھ نہیں،معلوم ہو جائے تو انسان ایک عذاب میں گھر جاتا ہےیہی ذندگی ایک آزمائش بن جاتی ہےعلم آزمائش بن جاتا ہے۔

پاکستان چھوڑنے سے پہلے ٹھیلے سے لیکر گول گپے کھا لیتے تھےاسکول کالج  کے اندر باہر سے ہر چیز لے لیتے اور کھا لیتےکالج کی چاٹ، سرکاری اسکول کے سموسے،سڑک پر گول گپے،ریلوے اسٹیشن سے کولڈ ڈرنکس،پھر ہم ملک سے باہر چلے گئےکیا عجیب حال ہوا  بڑی بڑی ہائیر مارکیٹس کے اندر وہ مصالحہ ،وہ ڈبیاں ڈھونڈتے پھرتےجو اپنے تیسری دنیا کے ملک کے تیسرے نمبر کے شہر میں استعمال کرتے تھے،سمجھ نہ آتی کیا کریں،کہاں سے لائیں وہ چیزیں،نیشنل کا مصالحہ،ریحان کا کسٹرڈ اور جیلی،چناچہ پاکستان آتے تو سو طرح کے مصالحے،مرونڈے اور دوائیاں اکٹھی کر کے لے جاتےہمیں ابوظہبی کی چیزیں سمجھ میں نہ آتیں۔

پھر سالہا سال ہایپر مارکٹس کے چکر لگاتے آخر انکی چیزوں کو استعمال کرنے لگے،آہستہ آہستہ سمجھ آنے لگی اس شہر اور اس شہر کی اشیا کا فرق سمجھ میں آنے لگا کہ کہ ہم ٹائم مشین پر بیٹھ کر آج سے سو سال آگے پہنچ گئے ہیں،وہاں جہاں دنیا خوبصورت ہے،وہاں جہاں امن و اماں کا بول بالا ہے،جہاں قیامت ہر وقت سر پر گرتی دکھائی نہیں دیتی،جہاں جینا آسان ہے اور انسانوں کی عزت ہے،جہان انساں اور کیڑے مکوڑے ایک سے نہیں برتے جاتے،جہاں دراصل کیڑے مکوڑوں کے بھی کچھ حقوق ہیں۔

شعور کی کئی کئی بتیاں جل اٹھیں،کیا کچھ نظر آنے لگاہم نے جیسے قالین پر بیٹھ کر جنت کا نظارہ کر لیااور پھر ہم وہ باتیں کرنے لگے جن کو لوگ گالیاں نکالنے لگےہمارے رویوں اور فقروں پر لوگ پہلو بدلنے لگے۔میں کیا بکتی ہوں ،یہ سب جھوٹ ہےباہر والوں کو ہم صرف گندے ںطر آتے ہیں،ہم میں یہ خوبی،ہم میں وہ خوبی،اور ہم اس حد سے باہر نکل گئے جن میں محض منہ پر ہنسنا مسکرانا،اچھے کپڑے پہننا،اچھے گھر میں رہنا خوبی گردانا جاتا۔ ہمیں سچ اچھا لگتا،جھوٹ بدکردار لگتا،ایمانداری کلاسی یو گئی،بے ایمانی اجڈ گنوار رہ گئی،لوگ چاہتے ہم انکے کلف لگتے کپڑوں کی تعریف کریں،اور ہمیں انکا صرف کردار نظر آنے لگا۔

عرب امارات میں بڑے بڑے بی ایم ڈبلیو اور مرسیڈیز والے  امیر لوگ مذہب کے گرویدہ دیکھے تو سمجھے پیسہ رکھ کر بے دین ہو جانا کوئی فیشن نہیں۔پیسہ اور ایمان ساتھ ساتھ رکھنا اور سنبھالنا اصل کلاس ہےباقی سب وہم و خیال ہوا!ہمارے معیارات بدل گئے!ہماری ذندگیاں بدل گئیں،شعور، بدل گئے!ہم جس معاشرے میں رہتے اسکے ٹرینڈ کے ساتھ چلتےجو ہمارے پچھلوں کو کبھی سمجھ نہ آتا۔

پھر یہ ہوا کہ حالات بدلےاور وہی ٹائم مشین ہمیں ساتویں آسماں سے اٹھا کر پھر صدیوں پیچھے لے آئی!لا کر اسی عذاب بھری دھرتی پر لا پھینکاجہاں عقل شعور ہاتھوں سے دور ہوااور   اپنے وجود کی ساری طاقت صرف سانس چلانے پر اخذ کرنی پڑی ۔اب مسلئہ یہ تھا کہ ان لوگوں میں رہتے  جو ہمیں چمکتے کپڑوں کے ڈھیر سے ناپنے پر بضد تھے ،اور کردار کو کسی قابل نہیں گردانتے۔جن کے لئے جھوٹ اور منافقت ہی جینے کا واحد ذہین طریقہ ہے،ایمانداری   اور سچ بیوقوفی اور بدھو پن ہے!دھوکہ دینا ایک فخر یے،لوٹ لینا زہانت کی آخری حد ہے!ہم نے  ان لوگوں میں رہ لیا ،اور خود کو مستقل ایک جہنم میں پایا۔

ہجرت صرف ترقی اور کامیابی کے لئے نہیں ہونی چاہیےہجرت انسانیت کے لئے بھی ہونی چاہیے،علم اور شعور کے لئے بھی ہونی چاہیےجنگلوں سے نکل کر ہمیں انسانوں میں جانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیےکسے خبر ہماری انسان بننے کی اس خواہش کو خدا تکمیل دے دے!کیا خبر خدا ہمیں انسانوں میں سے کر دے!

_________صوفیہ کاشف

2 Comments

  1. ۔اب مسلئہ یہ تھا کہ ان لوگوں میں رہتے جو ہمیں چمکتے کپڑوں کے ڈھیر سے ناپنے
    پر بضد تھے ،اور کردار کو کسی قابل نہیں گردانتے۔جن کے لئے جھوٹ اور منافقت ہی
    جینے کا واحد ذہین طریقہ ہے،ایمانداری اور سچ بیوقوفی اور بدھو پن ہے!دھوکہ
    دینا ایک فخر یے،لوٹ لینا زہانت کی آخری حد ہے!ہم نے ان لوگوں میں رہ لیا
    ،اور خود کو مستقل ایک جہنم میں پایا۔
    اس لئے وطن واپس جانے کو دل ہی نہیں کرتا On Wed, Oct 29, 2025 at 2:32 PM

    Liked by 1 person

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.