کروشیے سے ادھڑی ایک کہانی!



~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

خوبصورت خزانوں سے بھری ایک سبز رنگ کی سوارخ دار پلاسٹک کی ٹوکری:

یہ جادو کی طلسم ہوشربا  تھی۔امی کے خزانوں میں سے میرے لئے سب سے زیادہ پسندیدہ ۔مجھے لپک لپک کر اسکی طرف جانا ہوتا تھا کبھی جھیل کے بیچ لیٹی جل پری بنانے کے لئے ،کبھی آسمان پر اڑتے پرندے چھاپنے کے لئے کبھی خوبصورت پھول اور گملے بنانے کو۔
بغیر شک و شبہ کہ یہ آرٹ کی دنیا میں میرا ایک اہم سرمایہ تھی ۔کیونکہ اس میں میری امی کے آرٹ اینڈ کرافٹ کا سامان تھا۔بہت سے رنگ برنگے، سوتی اور ریشمی دھاگے، رنگ سونگی ڈوریاں اور لیسیں، دھنگ رنگ اور ان گنت اقسام اور قد کاٹھ کے بٹن ، کروشیے اور بنت کی سلائیاں ، کئی طرح کے سوتی اور اونی کروشیے کے نمونےاور بہت سارے  کڑھائی اور کروشیے والے پرانےرسالوں کے اور کچھ خود سے چھاپ کر بنا کر رکھے ہوئے اور چھاپے ہوئے اوراق۔

یہ سب میرے بہت کام آتے۔سب سے پہلے پھول ،پودے، پرندے اور مچھلیاں میں نے انہیں اوراق سے نقل کر کر سیکھیں۔ہمارے زمانوں میں کہاں یوٹیوب اور گوگل تھے ہمارے زمانے میں تو ایک آئیڈیا ڈھونڈ لینا بھی ایک مشکل مرحلہ تھا۔چند ایک اخبار اور رسالوں سے اور کچھ گھنٹوں کے ٹی وی میں سے مشکل سے کوئی آئیڈیا، کوئی مہارت سیکھنے ،اسے دیکھنے کی عیاشی نصیب ہوتی تھی۔ہم اتنے قدیم ہو چکے ہیں۔۔
جب میں اپنی ذندگی کے پہلے دس معصوم سالوں میں تھی اور میری ماں ایک جوان ،محنتی اور ہنر منر عورت تھی۔ابھی کمزور آنکھوں نے انکو اس ٹوکری  اور اپنی سلائی کی مشین سے جدا نہ گیا تھا۔سارا بچپن اور جوانی ہم نے اپنی ماں کے ہاتھ کے سلے فراک، پاجامے، لہنگے ، غرارے اور قمیضیں پہنیں۔
اسکول کا یونیفارم ہو یا عید کا ڈریس امی کے ہاتھ سے ہی سلتا تھا۔درزی کا ہماری ذندگیوں میں کوئی کردار نہیں تھا ۔لے دے کر ایک پیکو کے لئے ڈوپٹے بازار جاتے ورنہ سلائی کڑھائی سے لیکر ہر چیز گھر میں امی کے ہاتھ سے ہی ہو جاتی تھی۔

اسکول کے زمانے میں ہی میں نے امی سے بہت دل لگا کر کڑھائی اور کٹائی  سیکھی۔۔کئی بار تو صرف دیکھ دیکھ کر ہی بہت کچھ بنا لیتی تھی۔چھٹی ساتویں میں گڑیا کے سوٹ امی کی مشین چوری کرکے خود ہی سی لیتی تھی۔ایک بار اپنی گڑیا کو جو سبز رنگ کی قمیض پاجامہ سی کر پہنایا تو کتنا عرصہ میری ماں خوش رہیں کہ صوفیہ نے خود ہی سی لیا۔
تب مجھے خوبصورت کمروں اور لائبریریوں کا شوق تھا میرے پاس ایسے انگلش رسالے ہوتے جن پر بڑے بڑے شیشوں کی کھڑکیوں کے سامنے کاوچز جبکہ آس پاس کتابوں سے بھری الما الماریاں ہوتیں۔صوفے رنگ برنگے کشنز سے بھرے ہوتے۔(وہ تصور آج تک ذندہ ہے آج تک میرے صوفوں پر ایسے ہی رنگ برنگے کشنز کا ڈھیر رہا ہے)
میں نے تب اپنے کمرے کو اسی طرز پر سجانے کے لئے ،اسے خوش رنگ بنانے کے لئے   کئی طرح کے رنگ برنگے کشنز بنا ڈالے۔
کئی بار خود ہی کاٹ کر سوٹ سی لیا!
یہ میری ماں کا ہنر تھا جسے میں دیکھتے دیکھتے خود بخود سیکھتی جا رہی تھی۔
پھر بڑے ہوتے  یہ چیز یں پیچھے رہنے لگیں۔امی کی آنکھیں کمزور ہونے لگیں
کالج میں پڑھانا شروع کیا تو سینے کا شوق تو تھا مگر وقت نہیں تھا۔دیا کے چھوٹے چھوٹے کپڑے سینے لگی تو آدھا دن لگ جاتا۔
وہی درزی سے سلوانے کی قیمت تب پچاس روپے تھی!
سوچا آدھا دن استعمال کرکے پچاس روپے کا کام؟
میری مہینے بھر کے پندرہ بیس لیکچرز کی قیمت 2007 میں 25 سے تیس ہزار تھی
ایسے میں یہ شوق وقت کے حساب سے مہنگا تھا اور اسکی قیمت بہت سستی تھی
سو وہاں سے یہ شوق ںطریہ ضرورت کے تحت پیچھے ہونے لگا!
پاکستان چھوٹ جانے سے  نے  اس ہنر  کی جگہ میری ذندگی میں کم پڑنے لگی تھی۔مارکس اینڈ سپنسر اور ڈیبنہم کے ملبوسات کے سامنے سی کر پہنے کپڑوں کی نہ ضرورت رہی تھی نہ اہمیت! ہاں یہ ضرور سوچتی رہتی تھی کہ ان ڈیزائنز میں یہ ملبوسات سلوا کر بیچنا ایک اچھا روزگار ہے!!
پہلے سال ابوظہبی جاتے دیا کا عید کا سوٹ سلوا کر موتی ستارے ساتھ لے گئی تھی اور ہر فرصت اور فراغت میں اسکے سوٹ پر لگاتی رہی۔عید تک دیا کا فینسی سلک  ڈریس تیار تھا۔ 
مگر وہ اس کام کی آخری حد تھی۔
سکربڈ کا استعمال میرے بچے الحمداللہ پچھلے دس سال سے کر رہے ہیں۔سکربڈ ایک آن لائن لائبریری ہے جس میں ہزاروں رسالے ، اجبارات اور کتابیں ہیں میرے بچے وہاں سے کتابیں پڑھتے اور سنتے ہیں۔ہمارے دیکھتے دیکھتے سکربڈ ایواینڈ میں بدل گیا۔اس میں کچھ بہت خوبصورت رسالے کروشئیے اور بنت کے آتے ہیں جنکی خوبصورت تصاویر دیکھ کر کروشیہ سیکھنے کو دل کرتا ہے۔پچھلے چار سال خواہش رہی کہ کسی سے سیکھ لوں۔مگر وقت کو مینج نہ کر سکی وہ میری گھر گھرہستی والی عورتوں والے مسائل ۔۔۔جانے روزانہ ایک وقت پر وقت نکل سکے کہ نہیں
کہ ہماری تو ترجیحات میں ہی سب سے پہلے گھر اور گھر کے افراد آتے ہیں
ہوم میکو وائف اور مام ہے ہی وہ جو اپنی ہستی اپنے گھر میاں اور بچوں کے لئے تیاگ بیٹھی ہے
اسکی ہر خواہش ہر ضرورت ہمیشہ دوسرے نمبر پر رہے گی
ساید اسکی باری کبھی نہ آ سکے گی!
یہی ہماری ماوں کے ساتھ ہوا ہو گا!
مجھے آج بھی یہ سارے کام  کچھ نہ کچھ آتے ہونگے۔یا شاید کرنے لگوں گی تو کر لوں گی۔
مگر ایک تو اب میری بھی آنکھیں خراب ہو چکی ہیں
اب سوئی میں دھاگہ نہیں ڈلتا
دوسرابات وہی ہے عورت بےوقعتی میں رل جاتی ہے
اسکا یہ ہنر گھر کے اندر رہے تو بہت سستا ہے۔اسکی کوئی قدر نہیں کرتا
عورت گھر سے باہر کام کر کے آتی ہے تو شام تک اس فخر سے لوٹتی ہے کہ اس نے کچھ کیا ہے
گھر میں کام کرتی عورت کو شام تک ہزارہا بار جتا دیا جاتا ہے کہ وہ کسی کام کی نہیں ہے۔
چاہے اس نے ساری عمر مفت اور لزید  کھانے بنا بنا کھلائے ہوئے
مفت میں اپکے کپڑے سئیے اور دھوئے ہوں
کئی کئی رنگوں کے سوئیٹر بنک ر آپ کی فیملی کو سرسی سے مفت میں بچایا ہو
آپکے گھر کے میزوں اور بستروں پر پھول کاڑھتے اس نے اپنی آنکھیں کمزور کر لی ہوں
ہماری طرح نہیں کہ موبائلز سے آنکھیں خراب ہو گئیں ہیں
اپکے گھر اور بچوں کو کسی فلپینو نینی سے کئی گنا بہتر  سنبھالا ہو
چاہے  وہ نومی انصاری سے بہتر اور باریک کام کرتی رہی ہو
چاہے اسکی سلائیاں کھاڈی اور شنائیر کو پیچھے چھوڑ دیتی ہوں
شام تک گھر کے چند لوگ اسے یہ یقین دلا دیتے ہیں کہ وہ دنیا کی بیکار ترین عورت ہے جو گھر بیٹھی روٹیاں توڑتی ہے
جو کوئی کام نہیں کرتی!
۔ہماری مائیں جو عمر بھر ہمارے لئے رنگ برنے کپڑے سیتی رہیں ، ہمارے کپڑوں پر کڑھائیاں ار موتی ٹانکتی رہیں اور ہمیں پائے سے لیکر ساگ اور حلوے سے لیکر اچار اور چٹنیاں، مربعے اور جام بنا بنا کر کھلاتی رہیں۔
ہماری مائیں جنکے ایک کردار پر آج کتنی انڈسٹریاں چل رہی ہیں!
ہماری مائیں جنکا مقابلہ آج بھی کوئی انڈسٹری نہیں کر سکتی!

صوفیہ کاشف
نو جولائی دو ہزار پچیس

1 Comment

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.