وقت کے پار ایک دوستی________شیما قاضی

 

صوفیہ کاشف جب نہ لکھنے پر جھنجھلا اٹھتی ہیں تو مجھے میسج کرتی ہیں کہ دیکھو بھئی لوگ کیا کچھ تخلیق کر رہے ہیں اور ایک میں اور تم ہیں جو بس خود کو ضائع کر رہے ہیں۔ اور میں جو پہلے سے ہی جھنجھلاہٹ کا، غصے کا اور نجانے کن کن منفی جذبات کا شکار رہتی ہوں جھٹ سے جواب دیتی ہوں کہ دیکھیں جو ضائع نہیں ہو رہے، ان کو اصل میں ضائع نہیں ہونے دیا جا رہا۔ ان کی نہ تو میری طرح شادی ہوئی ہوگی نہ آپ کی طرح وہ بچے پال رہی ہوں گی۔۔ وہ جوابا کہتی ہیں ہماری شادی اور بچے نہ ہوتے پھر کچھ اور بہانے ہوتے۔ یہ ہمارے بہانے ہیں۔ یہ بات تو میں جانتی ہوں۔ اس حقیقت کا تو مجھے علم ہے مگر یہ بات وہ بھی جانتی ہیں کہ ہم بہانے بنا رہے ہیں مجھے مزید غصہ آجاتا ہے۔۔ یہ خاتون ہر بات کیسے جان جاتی ہے؟ مجھے مزید غصہ چڑھتا ہے۔ یعنی آپ اس کے سامنے کوئی جھوٹ، کوئی بہانہ نہیں کر سکتے وہ جھٹ سے آپ کو پکڑ لیتی ہے۔ اس عورت کی حسیات اتنی تیز ہے کہ جو بات میں نے ابھی بیان نہیں کی ہوتی وہ اسے سمجھ جاتی ہے اور پھر بھی کہتی ہے ہم خود کو ضائع کر رہے ہیں۔ مطلب عجیب بے چین روح ہے۔۔۔ بالکل میری طرح۔۔ شاید اسی لیے وہ مجھے

 

اپنا تیسرا بچہ مانتی ہے۔

میں تھیراپی لیتی ہوں سائیکولوجیسٹ کے سامنے سب کچھ بیان کرنے میں نجانے کتنا وقت ضائع کر دیتی ہوں اور پھر جب کبھی ان سے بات ہوتی ہے تو محترمہ ایسی ایسی باتیں ایسے آسان الفاظ میں سمجھا دیتی ہیں اور سمجھ جاتی ہیں کہ جی چاہتا ہے پشاور میں ان کے لیے ایک کلینک کھول دوں۔ اور کوئی جائے نہ جائے میں صبح و شام وہاں کے چکر کاٹتی رہوں کیونکہ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک خاتون میں ایک ماں، ایک دوست اور مفت کا سائیکولوجیسٹ مل جائے تو انسان اور کیا ہی مانگے۔۔

میری ان سے بات چیت کسی سلام سے شروع نہیں ہوتی۔ بہت ہی بے دھڑک انداز میں میسج جاتا ہے “بھئی یہ یہ مسئلہ ہے۔۔ ” وہاں سے ایک لمبا وائس نوٹ یا پھر ایک خوبصورت تحریری جواب آتا ہے۔ یہ سلسلہ کبھی ایک گھنٹہ تو کبھی آدھ گھنٹہ چلتا ہے پھر ہم دونوں میں سے کوئی ایک اچانک مصروفیت کی وجہ سے خاموش ہوجاتا ہے اور پھر ہم دونوں بھول جاتے ہیں کہ کوئی بات ہو رہی تھی۔ پھر کچھ دن مصروفیات کے بیچ کہیں سے کوئی کانٹا چبھ جائے تو اسی روانی سے دوبارہ میسج بھیج دیتی ہوں، بنا

 

کسی سلام یا تمہید کے۔۔ اور اس طرف سے اسی روانی، محبت اور خلوص سے جواب آتا ہے۔

کچھ لوگوں کے ساتھ زندگی ایک عجیب روانی اور خوبصورتی کے ساتھ چلتی ہے۔ یعنی ان سے رابطہ کرتے ہوئے آپ کو سوچنا نہیں پڑتا۔ ان کو رات کے ڈھائی بجے بھی میسج کر کے اپنا مسئلہ بیان کر کے آرام سے سویا جا سکتا ہے، اس اطمینان کے ساتھ کہ اگلا بندہ جب موبائل دیکھے گا تو پہلے میری بات کا جواب آئے گا۔

مجھے ان میں سب سے خوبصورت بات یہ لگتی ہے کہ یہ اس معاشرے کی ان عورتوں کی طرح نہیں ہیں جو اپنی زندگی کے چالیس سال جی کر اپنے خوابوں، ناکامیوں، سیکھنے کے شوق کو کسی صندوقچے میں بند کر کے سمجھتی ہیں کہ اب وہ کسی کام کی نہیں رہیں اب بس انہوں نے روزمرہ کے کام کاج میں خود کو ضائع کر کے وقت گزاری کرنی ہے۔ بلکہ ان کو روزانہ ایک نئے کام کا شوق ہوتا ہے۔ یہ نئی نئی چیزیں، نئے نئے تجربات کرتی ہیں۔ کتابیں پڑھتی ہیں۔ فوٹوگرافی کرتی ہیں۔ لکھتی ہیں۔ باغ بانی کرتی ہیں۔ بچے پالتی ہیں۔ گھر سنبھالتی ہیں اور نجانے کیا کیا کرتی ہیں جن کا مجھے فی الحال علم نہیں۔۔

 

میں سوچتی ہوں میں اگر چالیس سال کی ہوں گی تو میں صوفیہ کاشف جیسا بننا پسند کروں گی حالانکہ ان کو لگتا ہے وہ خود کو ضائع کر رہی ہیں مجھے لگتا ہے وہ بہت کچھ کر رہی ہیں۔ ایک وقت پہ کر رہی ہیں اور اکیلے کر رہی ہیں۔ وہ بہت بہادر ہیں لیکن وہ بہر حال ایک غیر مطمئن روح ہیں سو وہ کبھی مطمئن نہیں ہوں گی۔۔

وہ نئے نئے خواب دیکھتی ہیں اور ان کو حقیقت میں ڈھالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ کوشش نہ بھی کر رہی ہوں تو ان خوابوں کو حقیقت ننانے کے خواب ضرور دیکھتی ہیں۔ ان سے بات کر کے کم از کم مجھے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں کسی پچیس چھبیس سالہ لڑکی سے بات کر رہی ہوں۔ کبھی کبھی بڑی ہی جذباتی نوعیت کی باتیں ہو جاتی ہیں۔ ہم اپنے خوابوں کے لیے لڑ مرنے کی قسمیں کھا لیتی ہیں۔ لندن جا کر وہاں سے کبھی واپس نہ آنے کے پکے ارادے باندھ لیتی ہیں۔ اپنی زندگیوں کو ضائع نہ ہونے کی نیت کرتی ہیں مگر اگلی دفعہ جب ہماری بات ہوتی ہے تو ہم دونوں اس معاشرے کی مجبور، بندھی ہوئی شادی شدہ عورتیں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے کو اپنی اپنی زندگی کا دکھڑا سنا کر دل ہلکا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یوں

 

ہم دونوں امید اور مایوسی کے بیچ جھولتی رہتی ہیں اور سالوں پہ سال گزارتی جا رہی ہیں۔

ہماری دوستی کو اب ایک لمبا عرصہ ہوگیا ہے اور وہ میرے بارے میں وہ باتیں جانتی ہیں جو میں زندگی میں شاید کسی اور سے کبھی نہ کہہ سکوں۔ اسی طرح وہ بھی مجھے اپنی کچھ سیاہ و سفید سچ بتا دیتی ہیں جن کو میں بڑے تقدس، بڑے احترام سے اپنے دل میں محفوظ کر لیتی ہوں اور یوں ہمارا ساتھ قائم ہے۔ مجھے اس خاتون سے کچھ اس قدر محبت ہے کہ میں کبھی کبھی گوگل پر ڈھونڈ کر ان کی کوئی تصویر نکال کر کئی منٹ تک دیکھتی رہتی ہوں کہ ان کی مسکان میں جو ایک پاکیزگی ہے وہ بہت کم لوگوں میں دیکھنے کو ملتی ہے اور پھر ان سے دوستی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ان کے بچھڑنے کی کوئی فکر نہیں ہے مجھے۔۔۔ میں جسے دوست بنانے ہمیشہ ایک مشکل کام لگتا ہے اور پھر دوست بنا کے رکھنا مشکل ترین۔۔۔ مگر یہ بھرم ہے کہ زندگی کے آخر تک ان سے محبت کا یہی تعلق قائم و دائم رہے گا۔۔ ان شا اللہ!

______________

شیما قاضی

کبھی یہ میرے لیے چھبیس ستائیس کی بن جایا کریں گی اور کبھی میں ان کے لیے چالیس سال کی ہو جایا کروں گی۔۔۔

1 Comment

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.