دوسرے لوگ_________عمارہ احمد



اگر ہم اپنے ساتھی انسانوں کو ‘دوسرے’ انسان سمجھنے کی بجاۓ ‘ہمارے جیسے’ انسان سمجھ کر  برتنا شروع کر دیں تو یقین جانیں زندگی آسان ہو سکتی ہے۔۔

زندگی کے نوے فیصد اوقات میں ہم ‘دوسروں’ کے بارے میں بات کرتے رہتے ہیں۔۔ ‘دوسرے’ تو بہت بے صبرے ہیں، وہ تو بہت ہی بے حس ہیں، انہیں تو تمیز ہی نہیں, بالکل عقل سے پیدل ہیں، انہوں نے یہ کیا اس لیے غلط کیا ۔۔ اگر ایسے اور ویسے کر لیتے تو بہتر ہو سکتا ہے، ان کا تو کام ہی یہی ہے، کوئ کام ٹھیک کر ہی نہیں سکتے۔۔

اب اگر میں خود کو اسی عدسے میں رکھ کر دیکھوں تو ایسا لگنے لگے گا کہ یہ تو میری ہی ذات کے مختلف رنگ ہیں۔۔ جب میں کسی چیز کے لیے بہت محنت کرتی ہوں یا کوئ چیز مجھے بہت پسند ہو تو میں اسکا بے چینی سے انتظار کرتی ہوں اور بس ہر صورت چاہیے ہوتی ہے۔۔ کچھ کبھی کسی چیز کی طلب اتنی شدت سے ہوتی ہے کہ فوری نہ ملنے پر بہت غصّہ آ جاتا ہے۔۔ اور یوں لگتا جیسے دنیا تہس نہس ہو جاۓ گی۔۔ مگر میں اس وقتی یا کبھی کبھار کی حالت کی وجہ سے خود کو کبھی نہیں کہتی کہ میں تو ہوں ہی بے صبری۔۔ مگر کوئ ‘دوسرا’ ایسے کرے تو وہ ایک لمحاتی رویے کے نتیجے میں ہمیشہ کے لیے ‘بے صبرا’ ، ‘بدلحاظ’  اور ‘چڑچڑا’ بن جاتا ہے۔
اسی طرح اگر میں کہیں سے تھکی ہوئ آؤں تو کچھ کبھی امی کے کہے ہوئے کام بھی ٹال دیتی ہوں ۔۔ یا انہیں کہہ بھی دیتی ہوں کہ ابھی مجھ سے نہیں ہوگا ۔۔ یا موڈ نہیں ہے۔۔ یا تھکی ہوئ ہوں۔۔ کبھی اپنے ابا سے پانی بھی مانگ لیتی ہوں۔۔ سر دبانے کو بھی کہہ دیتی ہوں۔۔ اماں ابا سے بات کرتے ہیں کرتے بحث بھی ہو جاتی ہے۔۔ مگر یہ تو ہمارے تعلق کی گہرائی اور بے تکلفی ہے۔۔ لیکن میری کوئ رشتہِ دار یا دوست یہی رویہ اپناۓ گی تو وہ تو بہت ہی ‘بدلحاظ’ اور ‘گستاخ’ ہو گی کیونکہ وہ ‘دوسرے’ لوگ ہیں۔۔۔
مجھ سے اگر کوئ غلطی یا غلطیاں ہو جائیں یا میں کسی چیز میں ہار جاؤں تو کوئ بات نہیں محنت تو بہت کی مگر نصیب میں نہیں۔۔ پھر موقع مل جاۓ گا ۔۔ انسان اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے ۔۔لیکں اگر کسی ‘دوسرے’ سے دو تین اکٹھی یا مسلسل غلطیاں ہو جائیں تو وہ تو ہے ہی لا پرواہ ،اسے تو تمیز ہی نہیں۔۔پتہ ہی نہیں ہوتا کیا کام کیسے کرنا ہے۔۔اور محنت کی عادت ہی نہیں۔۔ جبکہ عین ممکن ہے انکی محنت کسی ایسے انداز میں ہو جو ہم نہ دیکھ سکے ہوں ۔۔ یا ہم سے پوشیدہ ہو۔۔ مگر نہیں ‘دوسرے’ تو ہوتے ہی اسی لیے ہیں کہ ان میں سے خامیاں نکال نکال کر اپنی ناتمام خواہشوں اور حسرتوں کا کتھارسس کیا جائے ۔۔کیوں کہ ہم تو زندگی کے رنگا رنگ تجربات سے بہت سمجھ بوجھ اور شعور حاصل کر چکے ہیں ۔۔ انہیں کیا پتہ۔

تو کہنا یہ تھا کہ اپنے دوستوں ،رشتہ داروں، کولیگز ،محلے داروں اور دیگر ساتھ انسانوں کو ‘دوسرے’ سمجھنے کی بجاۓ ‘اپنے جیسے’ ، ‘ہمارے جیسے’ انسان سمجھنا شروع کر دیں تو انکی طرف کی کہانی سمجھنے اور تصویر کا وہ رخ دیکھنے میں بھی آسانی ہو گی۔۔ اپنا اپنا، اپنے جیسا لگنے لگے گا۔۔ اور یوں دل کا بوجھ بھی کم ہو جاۓ گا اور  سوچنے اور بات کرنے کے لیے بہتر خیالات کی طرف دھیان بھی جاۓ گا۔۔

اکثر ہم بہت زیادہ نیکی اور خیرخواہی کرتے کرتے سامنے والے انسان کو بوجھل کر دیتے ہیں۔۔ مشکل میں ڈال دیتے ہیں!

دیکھیے۔۔ مشورہ تو وہی قابلِ قدر ہے جو مانگنے پر دیا جاۓ۔۔ ویسے اگر آپ بہت باشعور اور سمجھدار بھی ہیں تو اپنا گیان سمیٹ کر رکھنے کی کوشش کریں۔۔ کیوں کہ آپ کی بات تب ہی اہم ہو گی جب کوئ سننا چاہے گا۔۔
کبھی کبھی لوگوں کو مدد کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔ اور کبھی وہ صرف اور صرف اپنے حصے کی غلطیاں کرے کے ہی سیکھ سکتے ہیں۔۔۔ ایسے میں حد سے زیادہ حساسیت اور رہنمائ ان کے کی مشعل کی بجاۓ مشکل بن جاتی ہے۔۔ دل کی مشکل، زبان کی مشکل، رویے کی مشکل ۔۔ جو ہم سے بھی آسان نہیں ہو پاتی ۔۔

ہم جیسے انسان ، ہم جیسی ہی غلطیاں کرتے ہیں اور ہم جیسے ہی قابلِ عزت و احترام ہوتے ہیں۔۔ انہیں ہمارا موضوعِ گفتگو ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔۔ جب تک وہ خود نہ چاہیں۔۔


جن آسانیوں کی امید اپنے لیے رکھتے ہیں وہ ‘دوسروں’ کو بھی دیں انہیں ‘اپنے جیسا’ سمجھ کر۔۔

___________________



~عمارہ احمد
چھے جون دو ہزار پچیس

1 Comment

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.