ممی اور امید


۔وہ بہترین نہیں ہے!”
مگر میں نے اسے چنا نہیں ہے!
ایک دن کسی نے مجھ سے کہا
آگے بڑھو! دوڑو!
تم سخت پتھروں پر گر جاو گے
لیکن تمھیں اسکی عادت ہو جائے گی
تمھارے کچھ پر ٹوٹ بکھریں گے
لیکن یہ تمھاری ذندگی ہے
جو وہ وعدے پورے نہیں کر سکے گی
جو اس نے تم سے کئے
لیکن وہ کچھ معجزے بھی کرے گی
تم اسے سمجھ نہیں سکو گی
یہ” شاید” سے بنی ہے
لیکن آخرکار وہ تمھیں اپنی بانہوں میں لے لے گی
وہ ہر روز خوبصورت ہے
اس سے پیار کرو اور جو کرنا چاہتے ہو کرو
جاو جئیو میرے دوست
وا وا وی وا وا مونا می!
Va va vie va va mon ami
یہ ایک فرانسیسی گانا ہے جو مجھ تک میری بیٹی کے ذریعے پہنچا ہے۔میری بیٹی جو محض چودہ سال کی عمر میں ٹوٹ گئی تھی۔
وہ ہجرت در ہجرت کا بوجھ نہ اٹھا سکی۔
ہم والدیں جب بھی آنے جانے کہیں رکنے کہیں بسنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اکثر بچوں کو دیکھنا بھول جاتے ہیں ۔انکی ضروریات انکی خواہشات، انکی ترجیحات انکے خواب!
ہم گھر بدلتے یہ نہیں سوچتے کہ نئے علاقے میں جانے وہ ایڈجسٹ کر سکیں کہ نہیں
ہم علاقے شہر ملک بدلتے یہ نہیں سوچتے کہ کیا ہمارے بچے اس تبدیلی کا بوجھ اٹھا بھی  سکیں گے کہ نہیں؟
ہم صرف اپنے مسائل اپنی زمہ داریوں کی گھٹھری اٹھائے اسی کو نوچتے رہتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ کچھ اور بھی جانیں ہیں جنہیں اس دنیا میں گزارا کرنا ہے

کیا وہ ان حالات و واقعات کو برداشت کر سکیں گی؟۔
سو ممی اور ڈیڈی نے بھی نہ سوچا کہ یہ ہجرت در ہجرت بچوں پر کیسا اثر چھوڑے گی
اور مسلسل تیسرے سال ہجرت سہتے پھر پاکستان آ بسے
تو یہ ہوا کہ میری بچی گرمیوں کی سخت گرم راتوں کی لوڈ شیڈنگ میں موبائل کی ٹارچ میں پڑھتے پڑھتے او لیول کے امتحانات سے پہلے ہی ٹوٹ گئی
یہ ایک سخت آزمائش تھی
جو آزمائشیں ہم خود اپنی ذندگیوں میں کاٹ چکے ہوں وہ تو کبھی کسی صورت ہم اپنے بچوں پر نہیں دیکھنا چاہتے
مگر ممی کو دیکھنا پڑا!
تب مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ میں اب کیا کروں؟
اسے کیسے سنبھالوں؟
میں اسے سمجھانے کی کوشش کرتی مگر سمجھا نہ پاتی تھی!
کبھی ہم اپنے تماتر الفاظ  کے زخیروں اور پڑھی اور لکھی کتابوں کے باوجود
گونگے ہو جاتے ہیں
جب ہمارے بچے کسی اور زبان میں جینے لگتے ہیں۔ہمارے اور ہمارے والدین کے بیچ یہ فرق پنجابی سے اردو تک کا تھا
مگر ہم میں اور ہمارے بچوں کے بیچ یہ فرق اردو اور انگریزی کا تھا
مشرق سے مغرب تک لمبا!
اس سے بات کیسے کروں

وہ انگلش اور فرنچ کی دنیا میں لکھتی پڑھتی اور  جیتی تھی!
ہم آدھے ادھورے انگلش میں آدھے ادھورے اردو اور پنجابی میں کھڑے لوگ۔
مجھے یاد پڑتا جب جب میرے ابو نے مجھے ہاتھ پکڑ کر چلایا  تو کونسا شعر سنایا تھا
موجوں سے لڑو تند لہروں سے الجھو
کہاں تک چلو گے کنارے کنارے
سفینے وہاں ڈوب ہی جائیں گے
حوصلے ناخداوں نے جہاں ہارے!
مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ میں  ان لفظوں کا کیسا انگلش ترجمہ کروں کہ انہی معانی کی ترسیل ہو جائے جیسے کہ میرے والد صاحب کے الفاظ کی  مجھ تک ہو جاتی تھی۔
مگر بیچ میں زبانوں کی ایک خندق تھی جو کسی سے پار نہ ہو پاتی تھی
ہم اسے بہلانے اور سمجھانے کی کوشش کرتے مگر ہار جاتے۔
میٹرک ایف ایس سی گریجویشن کے سال جن اشعار کے سہارے گزارے تھے وہ سب یاد کرتی مگر وہ سب آمنہ تک کیسے پہنچیں یہ اخز نہ کر پاتی۔جرم ضعیفی کی سزا کا ترجمہ ملتا  نہ پلٹنا جھپٹنا جپھٹ کر پلٹنا انگلش میں سمجھایا جاتا۔۔۔یہ الفاظ تصورات اور ان سے منسلک آئیڈیاز ہماری ذندگیوں اور ہماری جستجو کا حصہ رہے تھے۔مگر وہ بچے جو اردو پڑھ نہیں پاتے وہ اردو میں کیسے سمجھیں گے کہ مرگ مفاجات کسے کہتے ہیں!
ہم جنہوں نے عقاب اور شاہین کے تصورات کے ساتھ جوانی کی ساری جنگیں لڑی تھی اب پرسی جیکسن اور کراون آف فیدرز )Crown of feathers) والی نسل کو متاثر کرنے سے قاصر  تھے
ان دنوں آمنہ نے ایک طویل پلے لسٹ بنا رکھی تھی جو وہ ہر وقت سنتی رہتی۔جس میں انگلش اور فرنچ گانوں کی بھرمار تھی
ممی کو پھر وہی ممیوں والی فکر جانے کیا الم غلم سنتی رہتی ہے۔اب انکے خیالوں پر پہرہ کیسے رکھیں ۔بچے ہمارے کیا سوچ سیکھ اور جی رہے ہیں ہم ان سے کتنا پیچھے رہ گئے ہیں کہ اب ہمیں کسی چیز کی خبر تک نہیں ہوتی!ترقی کی خواہش اپنی نسلوں کو آگے نکالنے کی لگن کتنے ٹیکس مانگتی ہے ، سوچ سوچ کڑھتی!
پھر کبھی کبھار آمنہ نے مجھے وہ  فرنچ گانے سنانے شروع کئے انگلش ترجمے کے ساتھ!

مشکلوں میں مسکرانا مت بھولنا
کامیابی تمھارا مزاج بدل سکتی ہے
بھاگو دوڑو
جاو جئو میرے دوست
ہم تاریخ لکھتے ہیں نظمیں نہیں
ہمیں روز خالی صفحہ ملتا ہے
اور زندگی ہمارے آنکھوں میں سیاہی پھینکتی ہے
ہمیشہ سامنے دیکھو
کیونکہ وقت نہیں رکتا!
میں نے اسکی پلے لسٹ سننی اور جاننی شروع کی تو میرے اندر دور تک سکون ہی سکون پھیل گیا
الحمداللہ میری بیٹی تک ہماری کوشش کے بغیر ہی ترسیل ہو چکی تھی!
وہ اندھیرے اور اجالے میں سے الحمداللہ اجالے کو چن رہی تھی!
وہ اپنی ذندگی کے عزابوں سے پوری طرح سے لڑ رہی تھی
بالکل ہماری طرح اس نے خوبصورت اشعار کا سہارا پکڑ لیا تھا
دوسری زبانوں میں ہی مگر وہ پتوار تک پہنچ چکی تھی
اب ضرور منزل تک پہنچ جائے گی انشاءاللہ!
ہمارے بچے بھی جواں  ہو چکے پھر بھی کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے والدین نے کبھی ہم پر اعتبار نہیں کیا
انہوں نے ہمیشہ ہمیں اس سے کم تر سمجھا جو ہم تھے
اور اس سے ذیادہ بگڑے جانا جتنے ہم تھے
سو ہمارے انعام اور سزائیں  انکی سوچ کے مطابق ملتے تھے
کبھی ضرورت سے بہت کم
کبھی ضرورت سے بہت ذیادہ!
مگر ممی ہو کر میں نے سیکھا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ پنجابی،سندھی ،بلوچی یا پشتو بولتے ہیں اور آپکے بچے اردو یا انگلش!
بچہ جس گود میں پلتا ہے اسکی تاثیر میں بنتا ہے
جن رگوں سے وہ ذندگی پاتا ہے انہی کے اردگرد  رہتا ہے
کبھی کسی دوسری انتہا تک نہیں جا پاتا جب تک کہ ہم والدیں ہی انہیں سزائیں دے دے کر  یا انکو ذیادہ برا سمجھ سمجھ کر انہیں اس طرف  دھکیل ہی نہ دیں
تھوڑا سا ٹھنڈا سانس بھریں
اپنے بچوں کی بات سنیں
ان پر اعتماد کرنے کا حوصلہ پیدا کریں!
یہ آپکا خون ہیں یہ آپکی گود میں پلے ہیں
یہ آپکی زبان کی روانی پکڑ پائیں یا نہیں
ذندگی میں انکی ترجیحات آپ سے مختلف  نہیں ہونگی!
اپنی گود اپنے خون پر بھروسہ کرنا سیکھیں!
سو ممی نے بھی جانا کہ زبان کے مسائل میں جو بات میں اسکو سمجھا تک نہ پا رہی تھی
میری آمنہ وہ خودبخود سیکھ چکی تھی
ہم کاپیوں میں  جوشیلے شعر لکھتے تھے ہمارے بچے پلے لسٹ بناتے ہیں اور سپاٹی فائی پر سنتے ہیں
مگر ترجیحات انکی وہ وہی ہیں وہ بھی ذندگی جینے کا حوصلہ طلب کرتے ہیں
وہ بھی مشکلوں سے لڑنے پر آمادہ ہیں!خدا نے آپکی کوشش کامیاب فرمائی ہے اور آپکو
وہ انعام دیا ہے جو وہ کامیاب لوگوں کو دیتا ہے
اچھے اور برے کی تمیز!
اور جب بچوں میں یہ تمیز جنم لیجائے تو ممی آور ڈیڈی کو سکون کا سانس لیکر ایک طرف ہو جانا چاہیے
اور بچوں کو اپنا رستہ بنانے دینا چاہیے!
انکو بھاگنے دئیں اور جینے دیں
اور اپنی کتاب پر وہ لکھنے دیں جو انکے خوابوں میں ہے
انشاءاللہ وہ مایوسیاں نہیں لکھیں گے
اگر والدیں انکی تختی پر امید لکھ دیں گے!
۔

___________________

صوفیہ کاشف

(اس سلسلہ کے نئے آغاز کے پیچھے صرف اور صرف سر وجاہت مسعود کا ہاتھ ہے جنہوں نے اسکی تعریف کرکے مجھے دوبارہ لکھنے پر آمادہ کیا!

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.