ممی اور بچوں پر کنٹرول

فاطمہ کی طبیعت کئی دن سے خراب چل رہی تھی۔ ممی کی زمہ داریاں بڑھ گئی تھیں ۔لگے ہاتھوں ساتھ ہی آمنہ اور محمد بھی آگے پیچھے بیمار پڑ گئے۔ موسم بدلنا رنگ لا رہا تھا۔ایک وائرس گھر میں آتا اور باری باری سب کے سب بیمار پڑتے چلے جاتے

اب صورتحال یہ تھی کہ صبح شام دیگچے بھر بھر پانی ابل رہا تھا اسٹیم کے لئے۔ تینوں بچوں کی باری باری شفٹ لگ رہی تھی مگ بھر بھر گرین ٹی کے بن رہے تھے۔آمنہ اور محمد تو کچھ بہتر حالت میں تھے مگر فاطمہ اپنا گلا بری طرح بگاڑ چکی تھی۔دو دن صبح شام کی لگاتار سٹیم اور گرین ٹی کے استعمال سے کچھ بہتر ہوئی اور کئی دن بعد رات کو ڈھنگ سے سکون سے سوئی تو ممی نے سکون کا سانس لیا۔کہ ایک  ماونٹ ایورسٹ  تو سر ہوا۔
اگلی روز صبح اٹھنے میں ممی کو تھوڑی دیر ہو گئی۔فاطمہ ہمیشہ سے نیند کی چور ہے صبح سویرے اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے۔پہلا پرندہ چہچاتا ہے تو وہ اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے ۔رات بھر فاطمہ سکون سے سوئی تھی طبیعت پہلے سے بہت بہتر تھی مگر جب آج ممی زرا دیر سے اٹھی تو فاطمہ کے گلے کی آواز مزید بگڑی بگڑی محسوس ہوئی میں سوچنے لگی کہ شاید ٹھیک ہوتے وقت ایسی آواز ہو گی۔
دوپہر میں فاطمہ فریج سے نکال کے اسٹرابری کھانے لگی تو ممی نے سختی سے روکا اور  کہا” پہلے روم ٹمپریچرپر آنے دو”۔
اگلا ایک گھنٹہ ایک عذاب کا تھا جس میں فاطمہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے ٹھنڈی اسٹربری کھانے سے روکنا تھا کہ گلا مزید نہ بگڑ جائے۔
تبھی یہ راز کھلا کہ وہ صبح صبح یہ حرکت پہلے سے ہی کر چکی ہے۔
یعنی وہ جو کھانسی کی آواز پھر سے بگڑ چکی تھی وہ اسی  اسٹرابری کا رزلٹ تھاجو وہ ٹھنڈی ٹھار صبح اٹھ کر کھا چکی تھی۔
میرے تو جسم میں بھانبڑ بلنے لگے میں اتنے دن سے اسٹیم دے دے، گرین ٹی پلا پلا پاگل ہو گئی  اور فاطمہ نے ایک بے احتیاطی کرکے ساری محنت خاک میں ملا دی تھی۔
اور جب ممی کے سر پر غصے کا بھانبڑ بلنے لگتا ہے تو حقیقتا جیسے محض دیواروں میں سر مارنے کی کسر رہ جاتی ہے۔آگ کے شعکے اس طرح جسم میں سے لپک لپک کر باہر نکلنے لگتے ہیں جیسے سامنے والے کو کچا ہی نہیں بلکہ کچر کچر کے کھا جائیں گے۔
کنٹرول جو اپنی تماتر کوشش کے باوجود میرے ہاتھ سے نکل گیا تھا
یہی کنٹرول کی خواہش اور کوشش ہم والدین کی اصل کمزوری ہے جو ہمارے اپنے وجود کو کھا جاتی ہے۔
اسی کنٹرول کے ہاتھ سے نکلنے پر ہمارے جسم میں بھانبڑ بلتے ہیں اور ہم اپنے بچوں کو لتاڑتے اور مارتے ہیں۔
اگلے دو گھنٹوں میں بھانبڑ کو بڑی مشکل سے ریلیکس میوزک چلا کر ٹھنڈا کیا اور اللہ سے دعائیں کئیں کہ مالک جو چیز میرے اختیار میں نہیں مجھے اس سے بے نیاز کر دے۔
یہ بے نیازی بہت بڑی چیز ہے۔
مامیز کی جو اندھا دھند بے  لگام محبت ہے اپنی اولاد کے لئے وہی انکے گلوں کا پھندا ثابت ہوتی ہے۔ہم شوگر، کیلسٹرول سے لے کر ہارٹ اٹیک اور کینسر تک انہیں پریشانیوں کے ہاتھوں پہنچتے ہیں جو ہمیں اولاد دیتی ہے یا جو ہم اپنی اولاد سے جزب کرتے ہیں
کیوں؟
کیونکہ ہمارے بچے ڈاکٹر نہیں بن سکے
کیونکہ ہمارے بچے بہترین اور اچھے مضامین کی بجائے ادب اور آرٹ پڑھنا چاہتے ہیں کیونکہ
وہ ہر مقابلے سے جیت کر نہیں آتے
کیونکہ وہ ہر کسی کی بولتی بند نہیں کر سکتے
کیونکہ سٹریٹ سمارٹ نہیں
کیونکہ لوگ انکو بیوقوف بنا جاتے ہیں

کیونکہ صبح سویرے نہار منہ خراب گلے کی حاکت میں ٹھنڈی ٹھار اسٹرابری کھا جاتے ہیں
ہمارے خواب کچھ اور ہیں اور ہمارے ہاتھوں میں کچھ اور آ گیا ہے اور اب دل کو سکون نہیں آتا کہ کیوں آ گیا ہے
کیوں نہیں محنت کرتے بچے؟
کیوں نہیں اونچے اونچے خواب دیکھتےہمارے بچے
جب ہم نے دنیا کی مہنگی سے مہنگی اور اونچی سے اونچی سہولت انکے قدموں میں ڈھیر کر رکھی ہے
ممی کو بھی یہ سمجھتے بہت دیر لگی ہے کہ اپنی ذندگیوں میں کسی ہم سے ذیادہ طاقتور ہستی کے وجود پر ایمان بہت ضروری ہے
ہر چیز کی زمہ داری لے لے تو انسان پاگل ہو جائے۔ہم ہر چیز کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔
اب یقینا فاطمہ نہیں سمجھ سکی کہ یہ اسٹرابری اسکے گلے کو پھر سے زیرو پر لے جائے گی
ہم سے بھی بیماری میں احتیاط کرنا مشکل ہو جاتا ہے حتی کہ اکثر ابھی تک!
تو کیا ہوا اگر فاطمہ سے بھی یہ حرکت ہو گئی
کیا اب اس پر اسے پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے؟

سب سے اہم بات یہ ہے کہ بچوں کے مسائل کو اپنی زہنی اور جسمانی صحت پر حاوی نہیں ہونا چاہیے۔
بچے جیتے جاگتے ہم سے مختلف افراد ہیں جو اپنی خواہشات اور مقاصد اپنے آئیڈیاز اور اپنی سوچ رکھتے ہیں
ہم انکو سو فیصد کنٹرول نہیں کر سکتے
یہ بھی ضروری نہیں کہ ہمارے پسندیدہ مضامیں انکے بھی پسندیدہ ہوں۔ یہ بھی مشکل ہے کہ وہ ہماری ہر خواہش ہر توقع کو پورا کر دیں
ان سے غلطیاں بھی ہونگی انکے رویے اور طبیعت ہم سے مختلف بھی ہو گی صرف اس بات پر ممی کوہارٹ اٹیک ہو جائے تو یہ ممی کی کمزوری ہے ۔اس میں اولاد کا کوئی قصور نہیں ہے
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم ایشائی والدین اپنی اولادوں سے پیار کرتے کرتے انکو کنٹرول کرنا اپنا حق اور زمہ داری سمجھتے ہیں
آپ نے کتنے باپ دیکھے ہونگے جنکی ذندگی کا سب سے بڑا غم یہ ہے کہ انکے بیٹے انکی تمام تر محنت کے باوجود ڈاکٹر نہ بن سکے
کتنے والدین کو یہ دکھ لاحق ہو گا کہ انکی بیٹیوں نے پسند کی شادی کرلی۔
ہم ایشیائی والدین اپنی اولادوں کو انکے انفرادی حق دینے سے انکار بھی کرتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ اپنی ایک الگ حیثیت اور وجود کو نظر انداز بھی کرتے ہیں
کہ ہمیں اس لئے نہیں بنایا گیا کہ بچے امتحان میں فیل ہو جائیں تو ہم دنیا تیاگ دیں
ہماری زمہ داری انکو اچھے اور برے میں فرق کرنے کے قابل بنانا ہے۔آگے چلنے یا نہ چلنے کا اختیار انکے پاس ہے۔انکو زبردستی دھکا لگا کر اچھے رستے پر چلانا  نہ ہمارا فرض ہے نہ ہمارے اختیار میں ہے۔
ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارا کردار کہاں تک ہے، نہ اس سے آگے ہم نے جانا ہے نہ اسکی ٹینشن ہی لینی ہے
اگر ہم اپنے بچوں کو
اچھا اور برا سمجھا چکے ہیں تو اسکے بعد اٹھارہ سالہ  بچوں کو نہ صرف حق ہے کہ وہ اپنی سوچ کے مطابق رستہ اختیار کریں  بلکہ انکی ضرورت بھی ہے تاکہ وہ آچھا برا سیکھ سکھیں اور انکی ذندگی کی بنیاد تجربات کی بھٹی میں جل کر کندن ہو۔اٹھارہ سالہ جوان بچے کو ہم زبردستی کسی بھی کام پر مجبور نہیں کر سکتے اگرچہ ہم خود کو اس کوشش میں پاگل کر لیتے ہیں۔۔
یہ غیر ضروری اور غیر منصفانہ کنٹرول ہے جو ہم نے زور زبردستی سے نہ صرف خود پر بلکہ اپنے آپ پر بھی ٹھونس رکھا ہے
یہ بہت مشکل ہے کہ اولاد ہمارے سامنے علط رستے کی طرف چلی جائے
مگر ہم زبردستی کسی کو صحیح رستے پر نہیں موڑ سکتے
یہ کنٹرول کی غیر ضروری خواہش ہے۔
ممی کی ذندگی کا بھی ممی پر حق ہے  ۔ممی اسے صرف  بچوں کے فیصلوں کی وجہ سے جہنم نہیں بنا سکتی۔اور اسے جہنم نہ بنانے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ غیر ضروری کنٹرول کی خواہش کو کنٹرول کر لیا جائے۔
میں نے ایسی ماں دیکھی ہے جو کہتی تھی میں نے بچوں کے لئے جینا ہے
اور جب وہ مر رہی تھی تو اس کے بچے اسکے وجود کی لمبی بیماری سے تھکے بیٹھے تھے
انکو اسکی ضرورت ہی نہ رہی تھی
ممی کو سمجھنا ہو گا
دراصل بچوں کو ہماری ضرورت نہیں ہوتی
پندرہ سولا سال کے بعد بچے آرام سے ہمارے بغیر پل جاتے ہیں
غلد صحیح کرتے اچھا برا بھی سیکھ جاتے ہیں
ہم ہر وقت ڈنڈے کے زور پر سیدھا چلانے کی کوشش میں صرف اپنے اور انکے تعلقات خراب کرتے ہیں اور خود پر زیادہ بوجھ ڈال کر اپنی ذندگیوں کو داو پر لگاتے ہیں
بچوں کو غلطیاں کرنے دیں۔دس ،بارہ پندرہ سال کا بچہ غلطیاں نہیں کرے گا تو کیا بڈھا ہو کر کرے گا۔یہیں غلطیاں انکو عقل دئیں گی۔انہیں سے اس نے سبق سیکھنے ہیں۔
سائکل سے گر کر چوٹ لگ گئی، ٹی وی میں گیند لگ گئ، کلاس میں فیل ہو گیا، بچی کا دل کسی پر آ گیا؟ خود کو بھی معاف کر دیں اپنے بچوں کو بھی معاف کر دیں
کوئی بھی  غلطیاں جان بوجھ کر نہیں کرتا، چھوٹا یا بڑا!
مگر غلطیاں سیکھنے کے مراحل کا بہت اپم حصہ ہے
ان پر ایمان لے آئیں
اور خود کو مطمئین کر لئیں
یہ آپکا قصور نہیں ہے نہ یہ آپکے بچوں کا قصور ہے
یہ  ذندگی کا ایک  انتہائی  نارمل مرحلہ    ہے
بس اپنا زہن بنانا ہے کہ ایک نقصان ہو گیا تو اب آگے کیا کرنا ہے
مسلئہ کھڑا ہو گیا تو اب اسکو حل کیسے کرنا ہے
یہ نہیں کہ مسلئہ ہو گیا تو وہیں چیخ و پکار شروع ہو گئی۔
یہی ممی اور ڈیڈی کا امتحان ہے
کیا آپکو مسائل کا حل کرنا آتا ہے؟
کیا آپ غلطیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کر سکتے ہیں؟
اس سے آگے گزر سکتے ہیں؟
اگر ہاں تو آپ بہت اچھے والدیں ہیں!
سب سے اہم کام آپ انکے لئے دعا کر سکتے ہیں۔خموشی سے جس بھی رب پر آپ یقین رکھتے ہیں اس سے مانگتے رہیں
اگر وہ رب ہے تو آپکے بچوں کے سامنے اچھے رستے کھولے گا!
ممی اور ڈیڈی کے اختیارات میں جو کچھ ممکن تھا وہ  آپ کر بیٹھے ہیں
شاید بچوں کے مقدر کچھ اور طرح ہونگے!
اس بات پر آپکا اطمینان آپکی صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔

____________

صوفیہ کاشف

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.