حج از ڈاکٹر علی شریعتی ( حصہ 3)


Chapter.1

خالی فلاسفی کا انکار کرنا:



ذ ندگی آج بے مصرف گول دائروں میں گھومتے رہنے پر مشتمل ہے۔ایک ایسی حرکت جس کا کوئی مقصد نہیں۔گول دائروں میں بے مقصد گھومنے والا کام جو محض دن کے ساتھ اس لئے شروع ہوتا ہے کہ رات ہو جائےاور رات اس لئے شروع ہوتی ہے کہ صبح تک ختم ہو سکے۔جبکہ اس دوران انسان ان کالے اور سفید چوہوں کا تماشا دیکھتا ہے جو ہماری موت تک ہماری ذندگیوں کی ڈوریاں چباتا رہتا ہے۔

آج کی ذندگی وقت کے بے معنی دائروں میں گھومنے کا نام ہےایک ایسی بے معنی حرکت جو محض دن و رات کے پھیروں کو پورا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔جس میں انسان کا مکمل کام ان روشن اور اندھیرے مراحل کو گزارنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

ذندگی ایک تھیٹر ہے جس میں انسان بےمقصد دن اور رات کا تماشا دیکھتا رہتا ہے

درحقیقت کیسا احمقانہ تماشا ہے کہ جب آپکو کوئی خواہش ہو تو آپ اسکی تکمیل کے لئے بھرپور محنت کرتے ہیں لیکن جب آپکی کوشش پوری ہو جاتی ہے تو آپکو اپنی تمام کوشش پر ہنسی آتی ہے۔ذندگی گزارنے کی یہ فلاسفی کسقدر بیکار ہے۔

روزانہ کی بنیاد پر جینے میں یہ خرابی ہے کہ انسانوں کے پاس مقصدیت کا فقدان ہو چکا ہے۔اسے صرف کسی نہ کسی طرح جینا ہے۔چناچہ اسکا مطلب ہے کہ ذندہ جسم کے اندر ایک مردہ روح بستی ہے۔ حج اس غیر صحتمند حالت کو بدل دیتا ہے۔

ایک بار جب آپ نے حج کی نیت کرکے ضروری اقدامات اٹھا لئے تو اب آپ حج کو حقیقت بنانے کے رستے پر ہیں۔حج پر جانے سے پہلے آپ اپنے گھر پرسکون اور اطمینان سے رہتے ہیں۔حج کا ارادہ کرکےآپ اٹھتے ہیں اور اپنی روزانہ کی بنی بنائی ذندگی کے ماحول سے نکل جاتے ہیں۔

حج بے مقصدیت کی زد ہے۔یہ بدی کی طاقتوں کے تحت برباد ہو جانے والی قسمت کے خلاف ایک بغاوت ہے۔حج کی تکمیل آپکو اس قابل بنائے گی کہ آپ پیچیدہ پزلز کے اس نہ سمجھ آنے والے جنجھٹوں سے فرار حاصل کر سکیں۔یہ انقلابی قدم آپ پر کھلے آسمان کے در کھول دے گااور اللہ کی ابدیت کی طرف سفر کرنے کے لئےکھلا رستہ فراہم کرے گا۔

اپنے گھر سے روانہ ہو کر بیت اللہ کا سفر کرویا بیت الناس یعنی لوگوں کے گھر کا!

تم جو کوئی بھی ہو تم ایک انسان ہو، آدم کے بیٹے اور اس زمین پر اللہ کے نمائندے ! تم اللہ کا خاندان ہو اس کے امین ، خدا کے ایک شاگرد اور اسکی دی فطرت کے مالک۔اللہ  نے تمھیں نام سکھائے

(علم الادم الاسما)

اور اس نے تمھیں اپنی روح پر پیدا کیا۔

“ان اللہ خلق الادم علی صورتہ

خلقالادم علی صورت الرحمن”

اس نے تمھیں خاص خصوصیات دئیں۔اس نے تمھیں سراہا اور اسکے فرشتوں نے تمھیں سجدہ کیا۔یہ زمین اور اس کے اندر موجود ہر چیز انسان کو مہیا کی گئی۔خدا تمھارے گھر کا ساتھی بن گیا اور ہر وقت تمھارا دھیان اور تمھارے کاموں کا دھیان رکھنے لگا۔کیا تم اس کی توقعات کے مطابق ذندگی گزار رہے ہو؟

قلب المومن عرش اللہ او عرش الرحمن

پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:



اللہ ایمان والوں کے دلوں میں ہے۔”

فلیعلمن اللہ الزین صدقوا و لیعلمن الکازبین

Quran xxix:3

سو اللہ جانتا ہیں انکو جو مخلص ہیں اور ان کو بھی جو دکھاوا کرتے ہیں۔

ولیعلم اللہ من ینصر و رسلہ بالغیب

القرآن

LVII:25

اور اللہ جانتا ہے جو بغیر دکھائے اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتا ہے۔

انا جعلنا ما علی الارض زینتہ لگا لنبلوھم ایہم احسن عملا

القرآن

XVII:7

اور دیکھو! ہم نے دنیا میں سجاوٹ کی تمام چیزین مہیا کر دیں تا کہ ہم انہیں آزما سکیں کہ ان میں سے کون بہترین عمل کے مالک ہیں۔

اۨلَّذِىۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَالۡحَيٰوةَ لِيَبۡلُوَكُمۡ اَيُّكُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡغَفُوۡرُۙ‏

الملک

LXVII:2

اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے



وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور بہت سے سماجی نظام کی طاقت کے زیر اثر جو انسانی حقوق اور فرائض کو اہمیت نہیں دیتے۔تمھارا کردار بدل چکا ہے۔ذندگی کے اتار چڑھاو نے تمھیں اسقدر متاثر کر دیا ہے کہ تم اجنبی اور غافل ہو چکے ہو۔ابتدائی طور پر اللہ کی روح اپنے دل میں رکھنے کی وجہ سے تم اس زمین پر اس کے امین ہونے کی زمہ داری اٹھانے والے تھے،

تمھیں اس کام کو سرانجام دینے کے لئے وقت کا تحفہ مہیا کیا گیا تھا، لیکن تم ناکام ہو گئے کیونکہ تم نے اس وقت کو لاپرواہی سے استعمال کیا

وَالۡعَصۡرِۙ‏ ١

اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِىۡ خُسۡرٍۙ‏ ٢

القرآن

CIII:2_3

ڈھلتے ہوئے دن کی قسم کہ انسان نقصان میں ہے!

اسی کو ذندگی کہتے ہیں۔لیکن حقیقت پسندی سے دیکھیں تو حاصل کیا ہوا؟ ہم نے اپنے حصے کے کام کو پورا بھی کیا کہ نہیں؟

ہمیں کیا ملا؟

اتنے سارے ذندگی کے قیمتی ترین سال گزر گئے لیکن ہمارا کیا بنا؟

اے ذمین پر اللہ کے امین اور نائب تم دولت، جنس، لالچ،غصے اور بےایمانی میں گم ہو گئے۔تم اللہ کے سامنے اپنے اس گھٹیا مقام کی طرف واپس چلے گئے جو تجھ میں اللہ کی روح پھونکنے سے پہلے تھا۔اب اللہ کی پھونکی روح کدھر ہے؟

اے انسان اپنی اس زوال پزیر حالت سے نکلو اور خود کو اس درجہ بدرجہ بڑھتی موت سے الگ کرو۔اپنے آس پاس کو چھوڑو اور اس خالص زمین کی طرف چلو جہاں تمھیں مشعر کے مسحورکن آسمان کے نیچے عظیم الشان خدا نظر آئے گا۔یہ دوری جو تم نے سہی ہے اس کا ازالہ ہو جائے گا! بلآخر تم اس کو پا لو گے! انشاءاللہ!

______________










انگلش سے اردو میں ترجمہ:صوفیہ کاشف

5 Comments

    1. I am sorry i can’t guide you about it as i have a copy owned by someone else.so have no idea where to get it.may be u need to check libraries and have a photocopy or check Amazon.

      Like

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.