کہانیوں کا بوجھ


کہانیوں کا بوجھ کمر نہیں توڑتا مگر اسے مکمل بھی رہنے نہیں دیتا۔چلتے پھرتے انسان کو کبڑا کرکے بیکار کر دیتا ہے
ڈاکٹر کہتا ہے تمھیں کوئی بیماری نہیں ہے۔جسم کے ہر کونے میں ایک پریشانی پڑی آہیں لے رہی ہے کوئی ماہر نفسیات ڈھونڈو اور ان پریشانیوں کو باہر نکالو تا کہ جسم کے ہر جوائنٹ سے نکلنے والی آہیں نکلنی بند ہوں۔
میں بھی جانتی ہوں کہ ٹشوز میں درد بھری کہانیوں کے انبار اکٹھے ہو چکے ہیں۔آنسووں کے خزانے ابل رہے ہیں، لاوے بہنے کے منتظر ہیں
میں نے ذندگی کی چھوٹی چھوٹی مصروفیات کے ڈھکنوں سے بڑے بڑے آتش فشان بند کر رکھے ہیں۔
اور اب ان کو کھولنے سے ڈرتی ہوں۔کیا اس دنیا میں کوئی ایسا انسان ہے جو میرے ان آتش  فسانوں کا سامنا کر سکے؟ انکے سامنے بند باندھ سکے؟ انکی آگ سے مجھے نکال سکے؟
مجھے نہیں لگتا کسی ماہر نفسیات میں اتنا دم ہے
کہانیوں کا بوجھ کچھ اسقدر شدید ہے کہ اب کسی کا کوئی ڈھنگ کا سرا تک ہاتھ نہیں آتا
کسی کا انجام نہیں بھولتا، کسی کا آغاز چونکائے دیتا ہے
کسی کے الفاظ دل کو چیر دیتے ہیں کسی کے نوحے بال نوچ لیتے ہیں
ایک کہانی میرے ساتھ  ساحل سمندر پر جیسے صدیوں سے  بیٹھی ہے ۔بہت زور لگاتی ہوں اسے اٹھاتی ہوں کہ اٹھو چلو مانتی ہی نہیں
نہ خود اٹھتی ہے نہ مجھے اٹھنے دیتی ہے۔ڈوبتی بھی نہیں__ ابھرتی بھی نہیں!
جب تک وہ کسی انجام کو نہیں پہنچے گی مخھے اپنی ساری آہیں لئے اس کے ساتھ لہروں میں گمشدہ رہنا ہی پڑے گا
ایک میرے سامنے  پلنگ کے ساتھ کھلی کھڑکی میں بیٹھی کمپاؤنڈ کی طرف دیکھتی سگریٹ پھونکے جاتی ہے اسے کہتی ہوں کودو !سگریٹ پھونکنا چھوڑ کر کھڑکی سے اتر آو
وہ
سگریٹ چھوڑ کر ویپ لگا لیتی ہے
کہتی ہے اتر سکتی تو اتر چکی ہوتی اب  اس کھڑکی سے اترنا بھی چاہوں تو اتر نہیں سکتی
اب دھواں دھواں بن کر ہی جینا پڑے گا
ایک اور  کہانی  ہے کہیں دور ایک قصبے کے  ایک گھٹن بھرے  بند کمرے میں شدید گرم موسم میں پسینے سر شرابور پڑی  ہے مجھے روز کہتی ہے
صوفی! میں مر جاوں گی!
میں کہتی ہوں مر تو سب نے جانا ہے۔ تم جی کر دکھاو تو مانو!
وہ جینا نہیں چاہتی
کہتی ہے اک بار جینے کی جنگ لڑی تھی
آج تک اسکی سزا بھگت  رہی ہوں

وہ خود کو معاف کرتی ہے نہ جی ہی پاتی ہے
گھر کے ڈرائنگ روم میں دیوار سے لگ کر بیٹھی ایک کہانی دھواں دھار رو رہی ہے
دہائیاں گزرنے کے بعد بھی اسے چین نہیں آتا
کچھ عزاب ٹھہر جانے کے لئے آتے ہیں انکی تاریخ کبھی ایکسپائر نہیں ہوتی
انکی ازیت کبھی جان نہیں چھوڑتی
ایک کہانی بیڈروم میں بیڈ پر بیٹھی دھاڑیں مار مار رو رہی ہے
میں اسکے پاوں پکڑتی ہوں منتیں کرتی ہوں کسی طرح یہ ماضی بعید میں چلی جائے
یہ بھی نہیں ہلتی اپنی جگہ سے
یہ بھی قسم کھا کر اتری ہے کہ  ہمیشہ حال کا ہی حصہ رہے گی
ایک کہانی رم جھم بارش میں اپریل کی میٹھی صبح میں  کھڑکی کے  سرہانے بیٹھی بھیگ رہی ہے
جو کسی الوداع کو تسلیم کرنے پر رضامند نہیں
ایک کہانی لمبی جھیل کے سرہانے کھڑی صدیوں سے گنگنا رہی ہے ایسے کہ اب اس کا سر  بین لگنے لگا ہے
رستوں پر بیٹھ کر کبھی اتنا انتظار نہیں کرنا چاہیے اسے یہ بات کبھی سمجھ نہیں آتی۔۔
اسے لگتا ہے اسکی موسیقی کا جادو ایک روز ضرور دل کا قرار بن کر رہے گا۔۔۔
کوئی کیسے  ان چند لفظوں میں ذندگی بھر کا کرب جان سکتا ہے۔
میں اتنی کہانیاں کیسے لکھوں؟
میں اتنی کہانیاں کہاں رکھوں؟
میری الماریوں ، کاپیوں اور کاغزوں میں یہ اتر نہیں پاتیں!
یہ میرے وجود کے ہر مہیا حصے سے لپٹ گئی ہیں کوئی دانتوں کو پکڑ کر لٹک گئی ہے
کوئی سر کے کونوں پر جم گئی ہیں
کچھ نے گھٹنے تھامے ہیں کوئی کلائیاں تھامے بیٹھی ہیں
جسے اور کوئی جگہ نہ ملی وہ  سینے میں سانس کی نال سے جا چپکی ہے___ میں دو قدم اٹھاتی ہوں اور اسکے بوجھ سے ہانپنے لگتی ہوں!
پھر سب پوچھنے لگتے ہیں
تمھیں اتنا سانس کیوں چڑھ رہا ہے
میری اکھڑی سانس سب دیکھتے ہیں
میجھ پر بسیرا کی کہانیوں کو کوئی دیکھ نہیں پاتا
اور میں خود بھی جیسے اس بسیرے کی عادی سی ہو چلی ہوں، ان سے بھاگتی ہوں، مگر سر سے اتار کر پٹخ نہیں پاتی۔
” مجھے کیوں لگتا ہے تمھارے اندر کوئئ درد چھپا ہے!”

یہ ایک بابے کا سوال ہے

اب اسے کون بتائے

کیا درد بھی خود بول کر بتاتا ہے کہ میں یہاں چھپ بیٹھا ہے

وہ تو بس چلتے پھرتے خود ہی کسی کونے میں چھپ جاتا ہے اور پھر آواز دیتا ہے کہ مجھے ڈھونڈ لو!

میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ درد کو ڈھونڈتی رہوں!

ذندگی کے اور بھی تو کئی بکھیرے ہیں۔۔۔۔
یہ چھوٹی موٹی کہانیاں نہیں ہیں یہ لوگوں کی عمر بھر کی کمائیاں ہیں یہ دو لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتیں!
میں انکو بیٹھ کر دو گھنٹوں میں کاغز پر نہیں اتار سکتی!
مجھے کتنی راتیں جاگ کر انکو ٹوٹے گھروندوں کی دیواروں سے اتارنا ہو گا
کتنے لوگوں کی عزتوں اور زلتوں سے کھیلنا ہو گا
تب جا کر دل ودماغ سے انکا بوجھ اترے گا
کہنیوں کا بوجھ ایسا کہاں ہوتا ہے کہ سر جھٹکو اور پھینک دو
کہانیاں تو ہماری روحوں میں بسیرا کر لیتی ہیں، ہم پر عاشق ہو جاتی ہیں اور پھر کسی بھی بابے کی دعا یا ملنگ کی  جھاڑ جھنکار سے دفعان ہونے سے انکار کر دیتی ہیں۔
ہم سو سو قسمیں دے کر اتارنے کی کوشس کرتے ہیں مگر کہانیاں ہیں کہ اترتی ہی نہیں!
جس دن یہ میرے سر سے اتر جائیں گی شاید میری ہڈیوں کو نئی ذندگی مل جائے
شاید میری کہنیاں بستر کی شکنوں  سے آزاد ہو سکیں
شاید کہ میری تھکی سانسوں میں جاگتےنوحے بند ہو جائیں
ڈاکٹر تو یہ بھی کہتا ہے
اس عمر میں یہ درد نہیں ہوتے!
ان دردوں کے لئے یہ عمر بہت چھوٹی ہے
میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں کم سے کم دس سال پیچھے سے انکے نشان پاتی ہوں
عمر آج بھی کم ہے
تو دس سال پہلے یہ کہاں تھی
کیوں کچھ لوگوں کے خواب ذندگیاں ایسے کھا جاتی ہیں کہ پھر جوانیاں بھی انکو جوان نہیں کر پاتیں
اگر آج کم عمری ہے
تو پھر دس سال پہلے کیا تھا
بیس سال پہلے کیا تھا
میں کب سے بوڑھے جنم میں جی رہی ہوں

کچھ شہزادیوں کو دیو اٹھا کر لے جاتے ہیں
کچھ کو چڑیلوں کی بددعائیں لگ جاتی ہیں
پھر چاہے وہ کیسی ہی حسین اور اجالوں سی ہوں
انکے جنموں میں اندھیرے بس جاتے ہیں
میں بھی شاید کوئی ایسا ہی اندھیرا ہوں


______________


صوفیہ کاشف

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.