نہ جانے شفیق ماییں کن کی اور کیسی ہوتی ہیں جو ہر بات پر بچوں کو مسکرا مسکرا کر دیکھتی ہیں، بات بات پر منہ چومتی ہںں بچہ گلاس توڑ دے، سارے کمرے کو کیچڑ بنا دے یا دوسرے بچے کے بال کھینچ کر اسے گنجا کر دے انکی مسکراہٹ مدھم نییں ہوتی نہ غصہ انہیں چھو کر گزرتا ہے. صرف ایک مسکراہٹ کمرے کا کیچڑ صاف کر دیتی ہے، گلاس کو جوڑ دیتی ہے اور بچے کے بال واپس اسی خوبصورتی سے لگا کر بچے کو ہنسا بھی دیتی ہے. تومیں ایک شفیق ماں نہیں ہوں .میں ایک انتہائی سخت گیر ماں ہوں جو ہر وقت گھر اور بچوں کے کام کاج میں غرق رہتی ہے میرے ماتھے پر بل رہتے ہیں اور پچھلے بارہ سالوں میں میرا چہرا لٹک لٹک کر اب قدرتی طور پر لٹکی ہوی شبیہ لیتا جا رہا ہے.میرے پاس بچوں کے ساتھ کھیلنے کا بالکل ٹایم نہیں ہوتا چونکہ مجھے بچوں اور گھر کے سب کام اپنے ہاتھ سے کرنے ہوتے ہیں..اب مجھے ان کاموں کی اتنی عادت ہو گی ہے کہ کہیں سے کسی طرح پندرہ منٹ نکال بھی لوں بچوں کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تو کچھ ہی دیر بعد یاد آنے لگتا ہے کہ کپڑے سوکھنے ڈالنے ہیں. گندے برتن دھونے ہیں یا پھر آج سالن بنانے ہیں، دیگچے دھونے ہیں اور کچھ نہیں تو کمروں کی صفای تو ہر وقت ادھوری رہتی ہے .دھیان کسی نہ کسی کام میں پھنس کر مجھے بچوں کے پاس سے اٹھا لاتا ہے کہ مجھے بچوں کے ساتھ سے زیادہ کاموں اور مسلؤں کے ساتھ رہنے کی عادت سی پڑ گیی ہے. سو میں بالکل ایک شفیق ماں نہیں ہوں. کوی بچہ بغیر کسی ٹھوس وجہ کے باآواز بلند چلانے لگے تو میں اس سے زیادہ زور سے اسکو ڈانٹتی ہوں،کوی مستقل بات نہ سنے تو کمر پر ایک جڑ دیتی ہوں اور چونکہ اب سالوں کا تجربہ ہے میرے پاس تو اب جڑنے کے بعد نہ افسوس ہوتا ہے نہ مارکردیر تک آنکھیں بھیگتی رہتی ہیں. میری ماں بھی کوی بہت شفیق قسم کی ماں نہ تھیں . قطع نظر اس بات کے کہ پچھلے دس بارہ سالوں سے میں انکی عظمت ،محنت اور محبت کی معترف ہو چکی ہوں لیکن وہ بھی ایسی شفیق نہ تھیں.ان کے ما تھے پربھی ایسی ہی تیوریاں تھیں جیسی اب میرے ماتھے پر نمودار ہو چکی ہیں.انکے چہرے پربھی ہمیشہ صدیوں کی تھکاوٹ. اور برسوں کی بیزاری رہتی تھی. اور آنکھوں کا دھیان ہمیشہ کسی نہ کسی کام کی طرف.. میں کبھی کبھی سوچتی تھی اپنے لڑکپن میں کہ میں کبھی اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹوں اور وہ گھنٹوں نہیں تو کچھ منٹ ہی میرےبالوں میں مسکراتے ہوے محبت سے انگلیاں پھیر دییں لیکن انکی آنکھیں بھی ہمیشہ گمشدہ سی لگتی تھیں .انکا دھیان بھی سارا زمہ داریوں کے پاس گروی رکھا ہوا تھا.جب تک انکے گھرمیں رہی انکی زندگی میں ایسا سکوں بھرا لمحہ نہ دیکھا اور اگر کبھی آیا بھی ہو گا تو وہ بھی اپنی عادت سے مجبور ہو کر اسکو بھی بےچینی اور اضطراب میں گزار گیی ہوں گییں.پرسکوں اور شفیق ماییں یا تو صرف بہت دولتمند گھرانوں کو نصیب ہوتی ہوں گی جہا ں ہر کام کے لیے دس ملازم اور خادماییں ہوں اور ماییں صرف بچوں کو مسکرا مسکرا کر دیکھنے کے لیے ہوں یا پھر بہت عقلمند لوگوں کو جو زمہ داریاں بانٹتے یوے اپنی ترجیحات جانتے ہوں .کم پیسے والے اور کم عقل والے دونوں اقسام کے گھروں میں جہاں گھر کے ہزارہا شعبے ایک عورت نے سنبھال رکھے ہوں وہ بھلا پرسکوں اور شفیق کیسے ہو .کبھی ناشتہ بنانے کی جلدی کبھی بچوں کو نہلانے دھلانے کی فکر. ،کبھی صفای ستھرای کی طرف دھیان تو کبھی لانڈری کا برج خلیفہ! پھر ظہرانے عصرانے اور عیشاییے کی فکریں.ہر بچے کی الگ پسند ،شوہر نامدار کی الگ فرمایشیں تو نندوں اور ساس سسر کے اپنے اپنے کھانوں کے ساتھ مسئلے .شاید ہی کبھی کوی سمجھتا ہو کہ آخر کونسا عینک والا جن ہے جو آ کر یہ سب کام کر جاتا ہے.شاید سب کو ہی یہ جانتے زمانے لگ جاتے ییں کہ کہ کونسی مشقت ماتھے پر سلوٹیں آنکھوں میں تھکاوٹ اور آنکھوں پر عینک ٹکا جاتی ہے.کل ہمیں ہمارے والدین کی بڑھتی ہوی لکیریں نہیں دکھتی تھیں آج ہمارے بچوں کو ہماری نہیں سجھای دیتیں.
میری ماں بھی شفیق نہ تھیں.کوی بات ہوتی تو چیختیں چلاتیں ہمارے پیچھےدوڑتیں.دور سے جوتے اٹھا کر پھنکتیں کبھی لگ جاتے اور کبھی ہم ہی بھاگ نکلتے..کمروں میں بند ہو کر بچ بچاو کراتے .وہ باہر کھڑیں ڈانتی رہتیں اور ہم اندر سے چیختے چلاتے رہتے کہ ہاں جی ہم تو ہیں ہی یتیم.خدا نے کس گھر میں پیدا کر دیا لوگوں کی ماییں پیار کرتی ہیں ہماری ہر وقت مارتی رہتی ہے.یہی ماں ملی تھی ہمیں دینے کو.کبھی نہیں سوچا کہ آدھا گھنٹا پہلے مار کٹ کرنے والی ماں نے کبھی کھانا دینا بند نہ کیا.انکی ڈانٹ پر ایسا چیختے چلاتے تھے کبھی نہ ہوا کہ ایسی ناخلف اولاد کے لیے روٹی ہی نہ پکاییں.الٹا بعض اوقات ہم خود ہی وقت پر کھانا نہ کھا کر اماں کو خوب سزا دیتے تھےماں ہونے کی.انہوں نے تو مار کٹ کر کمرے میں پھینک دیا کبھی اٹھا کر گھر سے باہر نہ پھینکا!جہان بھر کی گالیاں دےلیں پر نہ کبھی روٹی چھینی نہ کپڑا نہ مکان.خرچہ پانی سب ملتا تھا اپنے وقت پر. اور تو اور کبھی کبھی ابا سے کہتی تھیں بچی کو رنگ لا دو اسکو پینٹنگ کرنی ہے.حالانکہ پیار کہاں کرتی تھیں ہم سے.مرغی کی دو ٹانگوں میں سے سات کے ٹبر میں سے ایک ٹانگ میرا مقدر ضروربنتی تھی. نجانے کیوں.
آج جب خود ماں بنی ہوں تو سمجھ آئی ہے کہ میری ماں شفیق کیوں نہ تھی.جس ماں کی آنکھ کھلتےہی اسکے ساتھ فکریں چمٹ جاتی ہوں. اور آنکھ لگ جانے تک کوی نہ کوی کام ادھورا ہو وہ کیا شفیق ہو.کیا جاننثار ہووہ ماں جسکے ہلے بغیر گھر صاف نہ ہو ،میاں اور بچوں کو کھانا نہ ملے گھر کے کپڑے چادریں دھلیں اور نہ استری ہوں.اور ایمان کی بات ہے کہ یہ سب کام نہ کرو تو میاں ساس نند جٹھانی میں سے کوی نہ کوی یاد کرواتا رہے گا کہ فلاں کام ابھی رہتا ہے.کبھی آج تک کسی نے کہا کہ فلاں بچہ رہ گیا آج اس سے پیار کیا نہ اس کی طرف دیکھا نہ کھیلی.سب کو چھوڑیں میاں تک نہیں کہتا کہ بیگم سب کام چھوڑو صرف بچوں پر دھیان دو. کہے گا تو یہ کہ سب عورتیں کرتی ہیں.ہاں تو سب عورتیں شفیق بھی کہاں ہوتی ہیں پھر میں کیسے ہو جاوں.میری ماں کیسے ہو جاتی.
چنانچہ میں ایک شفیق ماں نہیں ہوں.لیکن مجھے یہ پتا ہے کہ “رو” زینب کی کتنی بڑی کمزوری ہے .پچھلے دس سالوں میں کتنے سفر اس نے ہمارے ساتھ کیے ہیں.کتنے مہینوں اور سالوں وہ زینب کے تکیے پر اسکے ساتھ سر رکھ کر سوتا رہا ہے.’رو’ دی منکی ،زینب کا سوفٹ ٹواے،بہت بار مالز اور پارکس میں کھویا اور پھر سے ڈھونڈا گیا اور آج ایک بار پھر ایک مال میں گمشدہ ہو گیا پر بدقسمتی سے اسکا علم رات کے گیارہ بجے گھر پہنچ کے ہوا.اس لیے آج میرے فوری طور پر اختیار میں نہیں کہ میں الٹے قدموں انہیں راہداریوں پر پھر چلوں جن پر پچھلے دو گھنٹے چلتی رہی.تاکہ اس کو ڈھونڈا جا سکے .زینب میرے ڈر سے بغیر آواز کے رو رہی ہے ساتھ ہی آنسوں کا سیلاب بھی تیزی سے بہتا آ رہا ہے. مجھے پتا ہے کہ اسکا دل زور زور سے رونے کو کر رہا ہے.اسکی ہچکیاں ہی مجھے یہ بتا نے کو کافی ہیں کہ تکلیف کتنی گہری ہے. جبکہ احمد بہن کی تکلیف میں فل والیم سے رو رہا ہے .وہ اپنی بہن کو اس مشکل وقت میں کیسے تنہا کر دے.سو میرے گھر میں ایک طوفان ماتم برپا ہے. چیخنے چلانے اور باری باری دونوں کو ڈانٹنے کے بعد اب میرے پاس ایک آخری صورت ہے.رات کے بارہ بجے میں نے ڈوپٹہ لپیٹا ہے اور گاڑی کی چابی اٹھا کر دروازے سے نکل آی ہوں.اور زینہ با زینہ نیچے اترنے لگی ہوں. مجھے کار چلانی آتی ہے مگر آٹومیٹک جبکہ میرے میاں کی کار مینول ہے. سو مجھے اسکا کوی تجربہ نہیں ہے دوسرا میرا ابھی لایسنس بھی نہیں بنا.تو چانسسز کافی زیادہ ہیں کہ کوی گڑبڑ ہو سکتی ہے اور پکڑی جانے کی صورت میں خاصی مشکل بھی.مگر اسکے سوا اور کوی چارہ نہیں. کھو جانے کا لفظ اتنا آسان نہیں خود میرے لیے .ماں بچوں کے بعد جن چیزوں کا سب سے زیادہ خیال رکھتی ہیں وہ انکے بچوں کے دل عزیز کھلونے ہی تو ہوتے ہیں.اور میرے میاں نے اس میں کسی بھی قسم کی مدد سے صاف انکار کر دیا ہے. کار تک پہنچنے تک ہر طرف نظر دوڑاتی ہوں کہ شاید کسی طرف پڑانظر آ ہی جائے.رات کے بارہ بجے سب سٹور بند ہو گیے ہوں گے مال کے دروازے بھی شاید بند ہو رہے ہوں.رات کے بارہ بجے عربوں کی لوکل آبادی والے علاقے. میں سڑکوں کے کنارے بتیاں ضرور چمکتی ہیں مگر رونقیں نہیں ہوتیں.یہ قوم جلد سونے اور صبح صادق آٹھ کر مسجد میں نماز پڑھنے والی قوم ہے اسی لیے سٹریٹ لایٹس سے روشن گلیوں میں رات کا پرہول سناٹا ہے جس میں گھر کے دروازے سے باہر نکل کر آتے ہی دل اچھا خاصا گھبرا رہا ہے. بلڈنگ کی دو منزلہ سیڑھیوں سے اتر کر برآمدے اور بیرونی راہداری میں ہر شے پر نظر رکھے ٹتولتی ڈھونڈتی اور ساتھ آیتالکرسی کا ورد کرتی سڑک تک آ تے میں نے ڈوپٹہ اچھی طرح سر کے آس پاس لپیٹ لیا ہے کہ کوی آدھی رات کو باہر پھرنے والی کال گرل نہ سمجھ بیٹھے. نیچے آکر میں نے کار کا دروازہ کھولا ،لایٹ جلای اور ایک آخری امید کے طور پر کار میں چاروں طرف نظر دوڑای ہے کہ شاید ادھر ہی مل جائے.آہ صد شکر یا خدا ! سیٹ کے نیچےگرا رو مل گیا.میرا رو! میری بیٹی کا جی جان سے عزیز تر رو…..! میرے خدا تیرا شکر ہے.جان میں جان سی آی ہے ورنہ آج دل کے دو ٹکرے یقینی تھے اور مال تک جانے کی ایک عظیم تر مشکل الگ تھی .زینب تو شاید کچھ دیر رو کر کسی اور کھلونے کے وعدے پر بہل ہی جاتی پر اپنی بیٹی کے اس نقصان پر میرا دل کتنے دن روتا رہتا.!اور یہ بھی شکر ہے کہ زیادہ بڑی آزمایش نہیں دینی پڑ گی صرف گلی تک آنا پڑا ورنہ اگلا سفر اس سے خاصا مشکل تھا.
دروازہ کھول کر اندر داخل ہوی تو زینب بھاگی آیی.
اوہ رو!……میرا رو! زینب رو کو گالوں سے لگاتے ہی مجھ سے زور سے لپٹ گی.
Thank you,Mama! Thank you!
میرے ساتھ زور سے لپٹی زینب روپے جا رہی تھی اور اس کے منہ سے ان دو الفاظوں کے سوا کچھ نکل نہیں پا رہا تھا.میں نے اسے خوب زور سے گلے لگا کر اسکے سر اور منہ کو چوم لیا! آج یہ رو چلا جاتا تو مجھے زینب کا اتنا شدت بھرا پیار نا مل پاتا.دل میں کہیں ٹھنڈ سی پڑ گیی.شکر ہے کہ میں نے اسکی خوشی ایک بار پھر اسکے لیے ڈھونڈ نکالی تھی……میں یقینا ایک شفیق ماں نییں ہوں.میں بس ایک ماں ہوں اپنی ماں کے جیسی….. صرف ایک ماں!
Sofia kashif
2016

رو نے تو واقعی رلا دیا۔ ایک اختلاف ضرور رات کے وقت اپ اپنے شوھر کو ضرور ساتھ لے جاتیں مینول گار کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا اور سیفٹی بھی۔ ایمرجنسی میں خاوند سے ہیلپ لینا اپ کا فرض تھا۔ یہی تو مسلہ ہے ہماری خواتین کا بس کچھ بھی ہوجائے خاوند کو ڈسٹرب نہیں کرنا۔ گاڑی ایک لوڈڈ گن ہے کبھی ڈرائیو نہ کریں جب تک اپ سرٹیفائیڈ ڈرائیور نہ ہوں۔ ابوظہبی کے قانون ڈرائیونگ کے لئے بہت سخت ہیں۔ دو رکعات نوافل شکرانہ ادا کریں کہ اپ محفوظ رہیں اور کسی کو ٹکر نہیں ماری۔ والسلام
LikeLiked by 1 person
تو نہیں رو کھلونا*
LikeLiked by 1 person
تحریر میں ہی درج تھا کہ میاں صاحب مدد کرنے سے انکاری تھے۔سو کسی کو تو کچھ نہ کچھ کرنا ہی تھا۔
اللہ ہر حالت میں محفوظ رکھتا ہے اسکا کرم ہے!
یہ تحریر میری اولین تحاریر میں سے ہے 2016 میں جب پہلی بار قم اٹھایا تو یہ پہلے تجربات میں تھی۔
LikeLike
LikeLike