ابوظہبی کے کارنیش کے گرد مہنگے ترین ہوٹل،پلازے اور خوبصورت ترین سکائی سکریپرز ہیں۔کورنیش کی پوری سڑک ابوظہبی کا سب سے حسین چہرہ ہے۔مرینہ مال سے شروع ہو کر یہ سات ستارہ ہوٹل ایمریٹس ہوٹل سے ہوتا کورنیش کے ساتھ ساتھ مڑتا ہے تو خالدیہ پیلس کے ساتھ اگلے سکائی سکریپرز اتحاد ٹاورز کے ہیں۔
اتحاد ٹاورز دراصل ایک استعارہ ہے امارات کی سات ریاستوں کا اور انکے الحاق کا۔جن میں ابوظہبی، دبئی،شارجہ، عجمان، راس الخیمہ، ام القین اور فجیرہ شامل ہیں
شیشے کے بنے خوبصورت سات ٹاور جن پر مغرب کے وقت ڈوبتے سورج کی تمام زردی اتر آتی اور دن کے وقت نیلے آسمان کی نیلاہٹ۔بادل ہوں تو بدلیاں انہیں ٹاورز میں جھلملاتے لگتیں اور اندھیری رات میں اسکی روشنیاں کسی کوہ قاف کی سی پرسراریت طاری کر لیتیں۔
اتحاد ٹاورز کی تصاویر سے مجھے عشق تھا۔دیکھنے سے نہیں بنانے سے۔2015 میں جب میں نے انسٹا گرام پر اپنا اکاؤنٹ بنایا تو مجھے لگا انسٹا گرام ہی میری اصل جگہ ہے۔
میں اپنا موبائل اور ڈی ایس ایل آر لئے ابوظہبی کا تقریبا ہر ہر کونہ پھری۔کیسے کیسے عجوبہ سکائی سکریپر بنا رکھے تھے عربوں نے مگر اتحاد ٹاورز کی بات ہی کچھ الگ تھی۔کارنیش پر آتے جاتے ،اسکے آس پاس کہیں بیٹھتے اٹھتے شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ میں نے اسکی تصویر نہ اتاری ہو۔شاید ہی کسی اور لئنڈ مارک کی میں نے اسقدر تصاویر بنائی ہوں جتنی ان کی بنائی۔
نجانے کتنی بار اتحاد ٹاورز کے انسٹا گرام سمیت وہاں کے مشہور انسٹا اکاؤنٹس پر میری بنائی فوٹو چھپتی رہیں۔
ذندگی نے ایک توفیق دی ہے کہ اگر خدا اختیار اور وسیلے دے تو اس سے جس قدر فائدہ اٹھا سکو اٹھا لو۔(یہی سوچ تھی جب انٹرنیشنل بک سٹورز کو نعمت سمجھتے کتابیں پڑھنا شروع کی تھیں) ۔
ان دنوں 2015 اور 16 میں میری فوٹوگرافی اور انسٹا گرام کی بھی نئی نئی شروعات تھی تو سیکھنے اور کرنے کا شوق بھی ذیادہ تھا سارے بڑے بڑے فوٹوگرافرز اور اہم انسٹا گرام اکاؤنٹس کو فالو بھی کرتی اور ہر نیے اینگل اور نئے ٹرینڈ کے ساتھ فوٹو بنانے کی کوشش کرتی رہتی۔
۔ایک چھوٹا سا فوٹو گرافی کا آن لائن کورس کیا تھا۔سام سنگ کا گلابی رنگ کا نوٹ فور نیا نیا آیا تھا جو میں نے لیا تھا اسکی کیمرے کی تمام سیٹنگ کمال کی تھی۔دھیرے دھیرے نہ صرف اسکی تمام سیٹنگ کو استعمال کرنے میں عبور حال کر لیابلکہ انسٹا گرام کے تمام فلٹرز اور ایڈٹس پر بھی عبور حاصل کر لیا۔۔
19 میں گیلیکسی نوٹ 9 لیا تو اسکی سیٹینگ نوٹ فور سے بھی بہتر تھی۔بہت بار تو ڈی ایس ایل آر کے بغیر ہی گزارا ہو جاتا۔اب موبائل میں اتنے اچھے کیمرے دستیاب ہیں کہ ڈی ایس ایل آر جیسا وزنی کیمرہ اٹھائے اٹھائے پھرنے کی کوئی وجہ نہیں رہ جاتی۔یہ اور بات ہے کہ جو رزلٹ ڈی ایس ایل آر کا ہے وہ فی الحال موبایل کیمرے سے ممکن نہیں۔
تواتحاد ٹاورز میرے فوٹوگرافی کے آغاز کا پہلا عشق تھا۔مجھے سات ستارہ ایمریٹس ہوٹل سے ذیادہ پرکشس مینار اتحاد کے لگتے۔اور صرف اسکے اچھے مناظر کی تصاویر کے لئے میں اسکے آس پاس کے ہر ہر ہوٹل میں پہنچی اس آس میں کہ وہاں سے جانے اسکا نظارہ کیا ہو گا۔ اسکا سب سے خوبصورت نظارہ ریحان روٹانا میں دیکھا جسکے آوٹ ڈور ہوٹل کے سامنے سمندر میں پورا اتحاد ٹاورز جھلملاتا ڈبکیاں لگاتا نظر آتا تھا۔۔
اسی خواہش میں ایک بار نیشن ٹاورز پہنچی جسکے گراونڈ فلور پر سینٹ ریجس ہے اور اوپر والے فلورز پر بہت سے دوسرے ریسٹورنٹ۔مگر ڈنر تک جانے اور واپس آنے تک وہ نظارہ مجھے کہیں نظر نہ آیا۔یہاں تک کہ کیمرہ پکڑے میں نے انکی پارکنگ میں بھی دور تک چکر لگا لئے۔
میں نے ان ٹاورز کی اتنی تصاویر بنائیں کہ میں بنا بنا بیزار ہو گئی اور پھر لگنے لگا کہ میں اسے ہر بہترین اینگل سے کور کر چکی ہوں اب اس میں مزید کی گنجائش نہیں۔
گنجائش یقینی تھی۔ مگرمیری حدوں سے باہر تھی۔ جیسے عمارت کے آخری فلور سے شہر اور سڑک کا ویو میں کبھی نہ لے سکی کہ اسکے لئے جو جرات اور بہادری چاہیے تھی وہ مجھ میں نہیں تھی۔
ایک فوٹوگرافر کی حیثیت سے میرا دل چاہتا کہ میں کیمرہ لئے گلی گلی پھروں۔کوئی آپشن مجھ سے رہ نہ جائے۔مگر میں ایک گھر گرہستی والی ہوم میکر بھی تھی، دو بچوں کی ماں تھی،میرے چلنے اور اڑنے کی حدیں تھیں میں ان حدوں سے پار نہ جا سکتی تھی۔
اتحاد ٹاورز کے اندر انتہائی مہنگے کلاسی اور چم چم کرتے نئے ہوٹل ہیں۔جن میں چلنے، اٹھنے اور بیٹھنے کے لئے ہی آپکو بہت اونچی کلاس سے تعلق رکھنا چاہیے۔جہاں بیرے ہاتھ پیچھے رکھ کر جھک کر کھانا سروکرتے ہوں۔جہاں پچاس پچاس طرح کے صرف سلاد ہی سجے ہوں جہاں شیمپین،جن اور ریڈ وائن کے الگ الگ اسٹیشن لگے ہوں۔جہاں سلاد کی ،کھانوں کی سویٹ ڈیشز کی اتنی تعداد اور ورایٹی ہو کہ انسان لقمہ لقمہ لیتے ہی تھک جائے۔۔۔۔
کم سے کم پاکستان میں اس کلاس کا ایک بھی ہوٹل نہیں دیکھا۔پاکستانی پانچ ستارہ پی سی بھی نہیں۔اسے پانچ ستارہ کہنا ہی دراصل پانچ ستارہ کی خاصی توہین ہے۔
یو اے ای میں فائیو اسٹار ہوٹلز میں اگر انتہائی مزیدار کھانا کھانا ہو تو بند آنکھیں کر کے کسی بھی روٹانا چلے جائیں۔یو اے ای میں وہ واحد ہوٹل چین ہے جسکا ہر کھانا آپ پاکستانی ٹیسٹ کے ساتھ انتہائی لطف کے ساتھ کھا سکتے ہیں۔انکا پروٹوکول ، رکھ رکھاو سب آپکو انتہائی لطف دے گا۔
دبئی اور ابوظہبی میں ہوٹل انڈسٹری ہی سب سے بڑی انڈسٹری ہے ایک سے بڑھ کر ایک ہوٹل:سینت ریجس،گرینڈ حایات، روٹانا،فو سیزن،ہیلٹن،جمیرہ،۔ریڈیسن بلو،پارک ان،۔۔۔ان سب کے ہر شہر مین کم سے کم بھی دس دس ہوٹل ہیں۔سب کی اایک سی کلاس ایک سی آن بان،مگر پھر بھی جو مزا اور جو عزت روٹانا والے دیتے ہیں اسکا مقابلہ اور کوئی نہیں پھر چاہے وہ روٹانا کا تھری سٹار ہو کہ فائیو اسٹار۔ہم نے مزے کرنے ہوتے تو کہیں بھی چلے جاتے۔مگر صرف ڈنر کا پلان ہوتا تو اکثر روٹانا کو ہی ترجیح دیتے۔پھر چاہے تھری اسٹار ہی کیوں نہ ہو۔
اسلام آباد میں انٹرنیشنل چین میں سے ابھی تک صرف رمادا ہے۔ایک بار ابوظہبی کے تین ستارہ رمادا جانے کا اتفاق ہوا۔انتہائی مایوس کن تجربہ رہا کہ دوبارہ اسکا نام تک نہ لیا۔عجیب ڈھابہ سا بیکار سا پھیکا ہوٹل تھا۔اب یہ ابوظہبی میں ایسا تھا تو یہاں پاکستان میں کیا ہو گا،یہ جاننے کے لئے آج تک وہاں جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔
اب دیکھا ہے کہ اسلام آباد میں ریڈیسن بلو اور روٹانا بھی آ رہا ہے ۔اللہ کا شکر ہے یہاں کوئی باہر ہی سروسز آ رہی ہیں شاید کہ یہاں کے لوگوں کو بھی مقابلے کی وجہ سے کچھ اچھا سیکھنے کو مل جائے۔
ہم یہاں کے ہوٹلز سے ایسے بھرے بیٹھے ہیں کہ ہوٹلنگ نام کی چیز ہی ذندگی سے نکل سی گئی ہے۔کون ویٹرز اور مالکوں کے نخوت بھرے گندے رویوں کے ساتھ اتنے غیر معیاری کھانے کھائے پھر یہ فکر الگ کہ کون جانے بکرا کھایا کہ گدھا۔ان چار سالوں میں ویٹررز کے اخلاق تک بھول چکے ہیں اب پاکستانی رویوں کی عادت ہونے لگی ہیں۔
کئ سال تک ہزارہا تصاویر بنانے کے بعد اسکی ہر تکنیک سیکھ جانے کے بعد اب وہ وقت آ چکا ہے کہ اب اچھی فوٹوگرافی مجھے متاثر نہیں کرتی۔اب گاڑھے رنگوں کی تصاویر دیکھ کر مزا نہیں آتا اب سمخھ گئی ہوں عام سے مناظر کو کیسے حسین اور حسین کو حسین ترین بنایا جاتا ہے۔اپنی حد تک ہر چیز سیکھ بیٹھی ہو تو اب سیکھنے اور کرنے کی لگن بھی کم ہو چکی ہے اور اب ہر چیز و دلکش و دلپزیر بنا کر دکھانے کو دل بھی نہیں کرتا۔یہ کام ہمارے سوشل میڈیاز اور انٹرنیٹ کی دنیا میں پہلے ہی بے تحاشا ہو رہا ہے۔
اب لگتا ہے ذندگی کو کچھ حقیقتوں کی بھی عادت ہونی چاہیے۔
کچھ چہرے، علاقے اور رویے جیسے بھی بدصورت ہوں قابل قبول ہونے چاہیں، ورنہ اس دنیا میں زندہ رہنا مشکل ہے۔
________________________
صوفیہ کاشف
مارچ سولہ،دو یزار پچیس
