ہر خواب نیت باندھ کر نہیں دیکھا جا سکتا!
ہر تعبیر ٹک لگانے سے نہیں ملتی۔
کچھ خواب کسی بھی ریزولیوشن کا حصہ نہیں ہوتے!
دیکھنے والی آنکھوں کے سامنے ہر وقت انکی تختی بھی نہیں لگی ہوتی!
نہ کوئی ہر وقت بتانے اور سنانے والا ہوتا ہے کہ یہ نئے سال کا عہد تمھارا۔۔۔کیا بنا
لیکن پھر بھی کچھ خواب ہوتے ہیں آنکھوں کے پردوں کے پیچھے چھپ کر بیٹھے ہوئے
جو چپکے چپکے پلکوں کے پردوں سے جھانکتے ہیں اور پھر چھپ جاتے ہیں
دیکھنے والوں کو بھی خبر نہیں ہوتی کہ اس نے کوئی خواب دیکھا تھا
اور اسی کی تعبیر مقدر میں بھی لکھی تھی!
تو ایسا تھا کہ شاید بچپن میں دیکھے ہوں ایسے خواب
مگر جب ابوظہبی کے پہلے سال پی سی ایس کا کال لیٹر آیا اور میرا دل واپس جا کر ٹسٹ دینے کو للچایا تو میاں نے کہا کہ “یا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف”
تو میں نے کہا جی ہاں میں آپکے ساتھ ہوں! اور اپنی لیکچرشپ اپنے کرئیر کے ایک دروازے سے داخل ہوتے ہی دوسرے دروازے سے باہر نکل آئی۔۔۔۔
کیا آپ انگلیوں پر گن سکتے ہیں ذندگی میں انسان کیا کیا کچھ کہاں کہاں چھوڑ دیتا ہے؟
کتنے اور کیسے کیسے خواب انسان ذندگی کے فرائض اور حقائق اور دو رستوں میں سے ایک چنتے وقت داو پر لگا دیتا ہے
کچھ لوگ عقلمند کہلانے کی خاطر بزدل ہو جاتے ہیں اور پھر دل کی ہر بات کے سامنے عقل اور دماغ کی سننے لگتے ہیں
مگر کبھی کبھار دماغ بھی دھوکہ کھاتا ہے اور آس پاس کے پڑھے پڑھائے سبقوں کو ہی عقل سمجھ بیٹھتا ہے جبکہ عقل تو وہ ہوتی ہے جب انسان ان رستوں پر چل کر دیکھتا ہے اور پھر سمجھتا ہے کہ فیصلہ صحیح تھا کہ غلط!
عقل اس منزل پر ملتی ہے
تو میں نے بھی عقل سمجھ کر جتنے فیصلے کئے اکثر آس پاس سے سنی کم عقل آوازوں کی کمک تھی
ذندگی کے بہت سے فیصلے غلط تھے
جن میں سے ایک عورت کی حیثیت سے اپنا کئیرئیر چھوڑ کر گھر بیٹھ کر بچے سنبھالنے کا فیصلہ بھی تھا جس نے مجھے جو نقصان پہنچانا تھا پہنچایا میرے ساتھ ساتھ میرے بچوں کے سروں پر زمہ داریوں میں بھی اضافہ کر دیا
میں یہ بوجھ اپنے سر پر اٹھا کر اپنے بچوں کے سامنے ایک مضبوط عورت کا ماڈل رکھ سکتی تھی
مگر میں نے یہ زمہ دارای اپنی بیٹی کے حوالے کر دی۔ثابت ہوا کہ میں نے حسینہ معین کے ڈراموں سے بہت کم اخذ کیا تھا
اور گمراہ کن باتوں سے ذیادہ متاثر رہی تھی۔۔۔
مگر یہ تو میرا موضوع نہیں تھا
موضوع تو یہ تھا کہ جب کئیرئیر چھوڑ کر فل ٹائم مام ہو کر گھر بیٹھی اور گھر اور بچوں کو سنبھالنا شروع کیا تو سب سے ذیادہ جس چیز نے ستایا وہ میری ذات کی گمشدگی تھی
میرا اپنا آپ۔۔۔۔۔۔کہیں گمشدہ ہو گیا تھا
ڈلما مال جاتی ، باڈرز کے سامنے سے گزرتی کاپیوں پینسلوں اور کتابوں کو دیکھتی۔۔۔۔۔۔پھر اپنی روٹین دیکھتی، اور سوچتی، انکی کہیں جگہ نہیں ہے اور واپس رکھ کر آ جاتی۔۔۔۔۔۔
پھر آہستہ آہستہ ایک آدھ کاپی پینسل اور کتاب گھر لانے لگی۔۔کیا کروں—- دل للچاتا تھا
اور جب دل کسی چیز پر اڑ جائے تو دماغ کی سننےسے ہی انکاری ہو جاتا ہے
میرا دماغ آج بھی میرے دل کے مشورے پر چلتا ہے
دل کہیں اڑ کر کھڑا ہو جائے تو دماغ کی چاہے گردن کٹ جائے، بے وفائی نہیں کرتا!
سو گھر آتی کتابوں اور کاپیوں پر زرا زرا سے لفظ جوڑنے شروع کیا، فقرے ملانے لگی، کبھی دھواں دار بارش ہوتی اور لکھتی چلے جاتی۔پھر سمجھ نہیں آتا کہ نثر لکھی ہے کہ افسانہ۔۔۔۔۔۔افسانے پڑھتی تو میری تحریر سے مختلف ہوتے، نثر پڑھتی تو وہ بھی مجھ سی نہ تھی!
جانے میں کیا لکھنے لگی تھی۔۔۔۔کچھ سمجھ نہ آتی
پہلے چند قدم ہی تو بہت مشکل ہوتے ہیں! جب سمجھ نہیں آتا کہ چال صحیح تھی کہ غلط
قدم اٹھا یا چھلانگ لگی ہے!
نہ سمجھ آتا تھا کیا لکھا جائے ، کیسے لکھا جائے، لکھا جائے تو پھر اسکا کیا کیا جائے۔۔۔۔۔بس کاپی پینسل چاہیے تھی
لفظ اپنی جگہ خود بنالیتے ہیں
ایک تحریرعید پر لکھی2015 میں
وہ سال بھر پڑی رہی
کچھ کتابوں پر تبصرے لکھے
کتاب پڑھتی تو خودبخود کچھ لکھنے کو دل کرنے لگتاتھا
کئی چھوٹی موٹی تحریریں ، کچی پکی، کئی قسم کی آہستہ آہستہ کاپی میں بھرنے لگیں۔۔۔۔۔
نہ ہی یہ سوچا کہ کہانیاں لکھنی کہ بلاگ،
نہ یہ سوچا کہ رائیٹر بننا ہے
کتاب چھاپنا تو بہت دور تھا
مگر کیا ہوا
ایک تبصرہ ایک ڈیجیٹل میگزین کے لئے شازیہ خان کو بھیج دیا
شازیہ خان جیسے ایڈیٹرز کتنی مشکل سے ملتے ہیں پاکستان میں۔
ایک دن تبصرہ بھیجا دوسرے دن انکی کال آ گئی
شازیہ خان نے اسقدر تعریف کی کہ میں خود حیران ہو گئی
انہوں نے میرا پہلا تبصرہ اپنے میگزین میں جگہ بنا کر چھاپا حالانکہ وہاں تبصروں کی جگہ ہی نہیں تھی۔۔
ہر ایڈیٹر کی پوسٹ پر لکھاری بیٹھے ہیں جو کسی لکھنے والے کی تعریف کرنا اسکی اہلیت کو سراہنا کفر سے کم نہیں سمجھتے!
یعنی آجکل اچھے ایڈیٹرز نہیں ملتے!
شازیہ خان میں ایسا کوئی عدم تحظ نہ تھا۔۔۔۔
انہی دنوں عید والا بلاگ ڈان میں بھیج دیا اور ساتھ ہی انکی قبولیت کا بھی جواب آ گیا!
سو لکھنا لکھانا دھوم دھڑکے سے چل پڑا!
آج اس سفر کو شروع ہوئے دس سال ہو گئے ہیں
کبھی کبھی بیچ میں بلیک ہول آ جاتے ہیں جس میں جا کر لکھاری غائب ہو جاتا ہے
مگر وہ بھی بہت ضروری ہیں
تجربات شامل حال نہ ہوں تو لکھنے والا لکھے گا کیا
تو یہ جو بلیک حال ہوتے ہیں یہ اگلی کئی کہانیوں افسانوں اور مضامیں کے لئے مواد ہوتا ہے۔میرے لئے بہت مشکل ہے کہانیا ں بننا۔میرا تخیل جتنا ذیادہ خواب دیکھتا ہے اتنا ہی کہانیاں بنانے سے قاصر ہے۔
مجھے کہانیاں آس پاس سے چننی ہوتی ہیں۔
اور آس پاس تو اسقدر کہانیاں ہیں کہ جتنا لکھنے کا میرے پاس وقت نہیں ہے۔مجھ سے لے کر میری دوستوں تک
بہنوں سے رشتے داروں تک کہانیاں ہی کہانیاں ہیں
ایک ایک ذندگی کے ساتھ سو سو کہانی جڑی ہے
یہی عمل سب سے مشکل ہےآس پاس کی دیواروں سے کہانیاں اتارنا اور انکو اپنے کاغز پر چپکانا
اپنے گھر کی دیواریں خود ڈھا دینا اعصاب شکن کام ہے
اسکے لئے بہت سی جرات چاہیے
جرات کبھی آتی ہے
کبھی کھڑی ہو کر ہانپنے لگتی ہے
میرے سامنے ہاتھ باندھنے لگتی ہے
بس کر دو اب
میں تھک چکی ہوں!
میں کسقدر ظالم ہو سکتی ہوں
میں اپنی ٹوٹی پھوٹی ہمت کو بار بار بھاگنے پو آمادہ نہیں کر سکتی
سو مجھے اسی کے ساتھ اس بلیک ہول میں بیٹھنا پڑتا ہے
اندھیروں کے چھٹنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
2008 کا سال تھا میں ایم اے انگلش کو انگش ڈراما پڑھا رہی تھی ابھی تو ہم شیکسپیئر ہی پڑھ رہے تھے کہ پرنسپل صاحب نے بلا لیا اور کہا
آپکے پاس تیس دن اور ہیں سلیبس ختم کروانے کے لئے۔ان تیس دنوں میں کلاس کو ڈراما کا پورا سلیبس ختم کروا دئیں
میں اگلے کتنے دن بے چین پھری
ایسے کیسے انگلش ڈراما تیس دن میں ختم کروا دوں؟
یہ ادب ہے حساب کے سوال نہیں جو تیس دن میں ختم ہو جائیں
مجھے سمجھ نہ آتا تھا کہ کیسے ہو گا؟
پھر سوچا کہ پڑھانے میں سے اپنا انداز نکالنا پڑے گا
اور جو طریقہ رواج میں ہے اسی میں ڈھلنا پڑے گا
رواج کے ساتھ چلتے تو تیس دن بھی بہت تھے
پانچ پانچ سوال کروانے تو بہت آسان تھے
مگر ادب سمجھانا اور پڑھانا تیس دن کا کام نہیں تھا
تو یہی کام مشکل ہے! رواجوں کے مطابق چلنا آسان ہے رواج سب سے کم محنت والی چیزوں کے ہیں
رواج سب سے کند زہن لوگوں نے بنا رکھے ہیں۔اکیلے بیٹھ کر ہوا سے جتنی مرضی کہانیاں پکڑ کر لکھتے رہو ۔کہانیوں سے کتابیں بھر جاتی ہیں مگر روح سے کلام نہیں ہو پاتا!
روح سے کلام کے لئے رواج کی حد سے دور نکلنا پڑتا ہے
پرندے کو سینہ کانٹے پر رکھ کر بیٹھنا ہوتا ہے
تاکہ داستان کے سفید پھول میں لال رنگ بھرا جا سکے
اور یہی سب سے مشکل کام ہے____روح سے کلام!
تو یہ جو کانٹے پر سینہ رکھ کر بیٹھنے والا کام ہے
یہ بار بار کرنا آسان نہیں ہے!
خود کو بار بار ازیت میں اتارنا آسان نہیں ہے
اپنے سلے ہوئے زخموں کو بار بار اڈھیر کر رکھ لینا کوئی مزاق نہیں ہے
مگر یہ وہ پل صراط ہے جس پر سے گزر کر الفاظ میں تاثیر ہیدا ہوتی ہے
تبھی
لفظ روح سے کلام کرتے ہیں!
_________________
صوفیہ کاشف

معجزہءِ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
LikeLiked by 1 person
فطرت خودبخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی!
LikeLike
کتابیں بھر جاتی ہیں مگر روح سے کلام نہیں ہو پاتا!
روح سے کلام کے لئے رواج کی حد سے دور نکلنا پڑتا ہے
پرندے کو سینہ کانٹے پر رکھ کر بیٹھنا ہوتا ہے
تاکہ داستان کے سفید پھول میں لال رنگ بھرا جا سکے
اور یہی سب سے مشکل کام ہے____روح سے کلام!
تو یہ جو کانٹے پر سینہ رکھ کر بیٹھنے والا کام ہے
یہ بار بار کرنا آسان نہیں ہے!
خود کو بار بار ازیت میں اتارنا آسان نہیں ہے
اپنے سلے ہوئے زخموں کو بار بار اڈھیر کر رکھ لینا کوئی مزاق نہیں ہے
مگر یہ وہ پل صراط ہے جس پر سے گزر کر الفاظ میں تاثیر ہیدا ہوتی ہے
تبھی
لفظ روح سے کلام کرتے ہیں!
💯🌸💙
LikeLiked by 1 person
Regards!
LikeLiked by 1 person