غسل خانے کے دھندلے پرانےشیشے کے سامنے ٹونٹی کھولے جو بلک بلک کر رو رہی ہے۔اس کا باپ نہیں مرا! اس کی ماں بھی ذندہ ہے اور یہ خود سہاگن بھی ہے۔رو اس لئے رہی ہے کچھ دن پہلے کوئی اور تھا جو اس کے جسم و جاں کا اصل مالک تھا اور اب کچھ دن بعد کوئی اور تھا۔ساری عمر اسے عزت والی رکھنے کی کوشش کرنے والوں نے اس کے ساتھ عزت بیچنے والی جیسا سلوک کیا تھا۔
جس بیٹی کو شریف رکھنے کی جستجو میں عمر گزار رہے تھے آخر اس کے جسم کو اپنے نام کی ناموس کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔سو اب جب روز رات کو نئے شوہر کے ساتھ سوتی تھی تو اپنیے بدن کی حرمت کھونے پر روتی تھی۔خود سے نفرت کرتی تھی،اپنے صورت تکتی تھی اور سوچتی تھی کہ عزت نوازی گئی کہ اتاری گئی!جب اس کا شوہراسے چھوتا،اس کے قریب آتا ،اس کے ہاتھ پہچاننے مشکل ہو جاتے۔آنکھیں بند کرتی تو چہرہ کوئی اور ابھرتا۔منہ کھولتی تو نام کوئی اور نکلنے کو مچلتا۔اسے ہونٹ بھیچنے پڑتے’آنکھیں کھولنی پڑتیں کہ وہ ایک شریف لڑکی تھی جو ماں باپ کی شرافت برقرار رکھنے کے لئے قربان گاہ میں اتر گئی تھی۔دنوں میں اس کا مجازی خدا یوں بدل گیا تھا جیسے واقعی محض کوئی لباس ہی تھا،روز ایک اوڑھا اور ایک اتارا!اور یہ اس کے عزت دار اونچے شملے والے باپ نے اپنے شملے بلند رکھنے کے لئے کیا تھا۔کیا صرف باپ نے ؟
وہ بے عزت لڑکی تھی کیونکہ مجبور ہو کر ایک کاغز پر دستخط کر بیٹھی تھی جس پر باپ کی اجازت نہ تھی۔ اور قاضی چاہے ہزار کہتے رہیں کہ نکاح ہے،عزت ہے اگر باپ اور بھائی سے چھپ کر ہے تو حرام ہے۔یہ فتویٰ ہر گھر کے والی کا ہے۔چناچہ نکاح کے باوجود منکوحہ نہ مانی گئی ایک کاغز کے جواب میں دوسرا کاغز رکھا گیا اور گردن پر کلہاڑی۔پہلے دستخط کے لئے احسان رکھا گیا تھا دوسرے کے لئے کلہاڑی ۔ دستخط کئے تو جان بخشی ہوئی۔جو وقت اور لمحے پہلے کے ساتھ گزارے ابھی وجود سے ڈھلکے نہ تھے مگر اگر عزیت کا لبادہ پھر سے اوڑھنا تھا تو اسے ہر حال میں ایک ماہ کے اندر بیاہنا تھا۔ مسلئہ سامنے کھڑا ہو تو اس کے حل کے لئے عطائی ‘نرسیں ڈاکٹر ہر نکڑ پر آسانی سے مل جاتے ہیں جو اخلاقیات اور انسانیت کے تمام تقاضوں پر ایک بڑا سا کراس لگا کر سارے علاج ایک گولی سے کر دیتے ہیں۔چناچہ چار ماہواریوں کا دھندا بھی محض چند گولیوں کی مرہون منت ایک ہی ماہ میں بھگتا دیا گیا۔اور لڑکی پر شریف کا ٹیگ لگا کر بلآخر ایک ہی ماہ میں لال جوڑا پہنا کر عزت دار بنانے کی رسم پوری کی گئی۔ دوسرے کے ساتھ اسے تیسرے دستخط کروا کر رخصت کر دیا گیا۔دو ماہ میں دو شوہر بدل گئے!
وہ ایک بے حیا لڑکی تھی۔کاش کہ وہ اسقدر بے حیا نہ ہوتی تو کیوں اس کے باپ کو عزت بچانے کی خاطر ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔کاش کہ وہ ایسی بے حیا نہ ہوتی تو آج اس کا باپ چارپائی پر ایڑھیاں نہ رگڑتا۔کاش کہ یہ کندھوں پر اٹھائی ہوئی ماں جائے کی چہیتی بیٹی اس کے جیسی بے حیا نہ نکلے۔
بیٹیاں ایسی مخلوق ہوتی ہیں جو نہ سمجھنے کے قابل ہوتی ہیں نہ پیار اور توجہ کے۔نہ ان کو فرصتیں چاہیں’نہ مشاغل’نہ دوست نہ رشتہ دار’تعلیم’نہ شعور’بصیرت نہ کاروبار۔یہ ان کے کرنے کے کام نہیں۔۔بس بکریوں کی طرح ایک مضبوط کلے سے ہمیشہ بندھے رہنا چاہیے تا کہ تمام مرد عزت سے اور عورت حفاظت سے جیون گزار سکیں۔ جس تھالی میں کھانا ڈال کر دیا جائے اسے خموشی سے کھا لیں۔جو کھلایا جائے اس میں خوش رہیں۔فرمائیش اور اختیار کا’خواہش اور خواب کا،غلطی اور تلافی کا ان کے پاس ایک بھی موقع نہیں۔کلے سے باہر نکل جائیں تو بھیڑیوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔
تو اس بے حیا لڑکی کی کم عمر دنیا میں جہاں کوئی اس کی بات سمجھتا نہ تھا کوئی تھا اس کے جیسا جو اس کی بات سمجھنے کا ڈرامہ کرتا تھا ۔تجربہ ہی تھا ایک دن پورا ہوا اور وہ چپکے سے نکل گیا تھا اسے اکیلا کر کے۔کم عمر لڑکوں کی عمر کتنی ہوتی ہے جو ان کو شعور ہو گا۔ انہیں راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے آخر کم عمر لڑکیوں کو ہی کچھ حیا کچھ عقل کرنی چاہیے۔
جنگلوں میں ہر آڑ کے پیچھے کوئی نہ کوئی بھیڑیا تاک لگائے بیٹھا رہتا ہےجیسے ہی کوئی بکری اکیلی گزرتی ہے اسے نوچ کھانے کے لئے۔
آس پاس کے گھروں سے ایک سفید بالوں والے بڈھے بڑھیے کی ٹپکتی رال نے اس کی رت جگی اجڑی آنکھوں کو ذخمی پایا تو آ شکار کیا ۔باپوں سے بڑھ کر کون جانتا ہے کہ بیٹیوں کو کیسے سنبھالا جاتا ہے۔فرق صرف یہی تو ہے کہ اپنی بیٹیوں کو کوئی نہیں سنبھالتا۔سب کی نظر دوسروں کی منچلی پر ہوتی ہے۔ سو اس کلی کو خوب توجہ سے سنبھالا، اداس لمحوں میں آسرا دیا۔پھر کچھ دنوں بعد اس آسرے کے بدلے ایک کاغذ سامنے رکھ دیا۔احسان مندی میں پھنسی لڑکی کے پاس کاغز پر اپنا نام لکھ دینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تھا۔
تب وہ سوچتی تھی ایک دن وہ اس بڈھے کو گولی مار دے گی۔اب سوچتی ہے کس کس کو گولی مارے گی!۔
اس بھیڑیے کے چنگل سے بھی بلآخر دو اور بھیڑیے اسے بچا کر لے گئے جن کو بھیڑیے کہنے کی شدید ممانعت تھی’چناچہ باپ اور ماں جائے کہلاتے تھے
جو بال نوچتے تھے اور دیواروں میں سر مارتے تھے کہ اس بھیڑیوں کی دنیا میں بیٹیاں پیدا کر کے اس عذاب میں پھنسے تھے ! بیٹیوں اور بہنوں کی عزت کی سلامتی کے لئے ان کو ٹکروں میں بدلناان کے لئے حق اور فرض کا مرتبہ رکھتا تھا۔
کچھ نہ کرتے کرتے کتنے ہاتھوں سے گزر گئی تھی۔کوئی دل کی مچان جیت کر نکل گیا تھا کوئی جسم نوچ کر پھینک گیا تھا۔شاید بھیڑیوں کے اس دیس میں ہر منکوح بستر پر ایسی ہی ایک نچی ہوئی روح اور بدن پڑا ہو’شاید ہر کھلاڑی کے گھر میں ایک ہاری ہوئی باذی، لال رنگ کے گوٹے میں لپٹی ایک لاش پڑی ہو۔ جو روز “صرف تم”” صرف تم” کے ورد کرتی ہو مگر غسل خانے میں ٹونٹی چلا کر روزانہ روتی ہو۔۔۔۔کون جانے!۔
ذندہ رہنے کے لئے اسے اب صرف ایک ہی کام کرنا ہے کہ جب تک جیتی رہے جھوٹ کو سچ کہنا ہے اور زور سے بار بار کہنا ہے ۔ بس اتنا کرنا ہے کہ جب حق دار کے ہاتھ حق کی طرف لپکیں تو آنکھیں کھلی اور زبان کو بھینچ کر رکھنا ہے۔جب تک ماں جایا اپنے کندھے پر بیٹھی گڑیا کو ہوا میں اچھالتا رہے گا ،جب تک وہ انکھیں بھینچ کر زبان روک کر تڑپتی رہے گی،اور جھوٹی ذندگی جیتی رہے گی کئی لوگوں کو پلنگ پر ایڑیاں رگڑتے موت کو ترسنا ہی ہو گا۔
___________
۔
