پہلا صفحہ!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
_____________
شروع اللہ کے نام سے
اس کتاب کا مکمل ترجمہ آپ تک لانے کی ذمہ داری لی ہے۔دعا کریں خدا اس زمہ داری کو پورا کرنے کے قابل بنائے!
آمین!
صوفیہ کاشف
8 مارچ2025
_________________
مصنف کی طرف سے_______
میں نے “مذہب کو جاننے” اور ” مزاہب کی تاریخ” کا مطالعہ رکھنے والے ایک انسان کے طور پر ہر مذہب کے تاریخی ارتقا کی تحقیق اور اسکے مطالعہ سے، مختلف مذاہب کے ماضی، حال اور مذاہب کی “حقیقت” اور “سچائی” کے تقابلی جائزہ سے یہ تمام نتائج اخذ کئے ہیں۔میرے نتائج میرے ذاتی مذہبی عقائد اور تعصبات سے قطعی مزین نہیں ہیں۔
اگر ہم ہر مذہب کی افادیت کا، انسانی ارتقاء اور خوشی کے حوالے سے تجزیہ اور مطالعہ کریں تو ہمیں احساس ہو گا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ کی پیش گوئی جیسی اعلی ، مضبوط اور ہوشمندانہ اور کوئی پیشگوئی نہیں ہے( یعنی اسلام اور انسان کی سماجی ترقی میں اسکا کردار، خود آگاہی،تحریک ، ذمہ داری،انصاف کی انسانی خواہش اور اسکے لئے کوشش،اسلام کی حقیقت پسندی اور بےساختگی، تخلیقیت،سائنسی اور معاشی ترقی کے ساتھ اسکی موافقت اور تہذیب اور معاشرے سے واقفیت کے حساب سے)
اور حالات حاضرہ میں ہم دریافت کرتے ہیں کہ ایسی بھی کوئی اور پیشینگوئی نہیں ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشینگوئی کی طرح سے بری طرح سے بدل اور بگاڑ کر ایک مکمل اور مختلف چیز بنا دی گئی ہو ۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی ایسی طاقت نے جو مادی وسائل اور باخبر مشیروں پر مشتمل ہے، نے انتہائی محتاط اور سائنسی تحقیقی طریقے سےاسلامی نظریے کو خفیہ یا اعلانیہ طور پر مکمل طور پر بدلنے کے لئےایک ایسا گروہ منظم کر رکھا ہے جو نہایت تعلیم یافتہ، تاریخ کے ذہین ترین فلاسفرز،سماجی سائنسدان، ماہرین سماجیات،سیاست دان، سماجی نفسیات دان،انسانی علوم کے سائنس دان۔مستشرقین، اسلامی عالم،قرآن کی تعبیر دینے والے ، اسلامی ادب جاننے والے، مسلمانوں کے سماجی تعلقات،شخصیات،طاقت اور کمزوریاں، مفادات،سماجی رویے،اور انکی اہم شخصیات کے کردار جاننے والے افراد پر مشتمل ہے۔
نظریاتی اور عملی نقطہ فکر سے جہاں تک میں جانتا ہوں اسلامی نظریہ حیات کے سب سے اہم ستون جو انسانوں کو باشعور، آزاد، معزز اور سماجی طور پر ذمہ دار بناتے ہیں یہ ہیں:
•توحید
•جہاد
•حج
بدقسمتی سے توحید کا نظریہ ابتدائی اسکولوں تک محدود ہے یا پھر اس بارے میں گفتگو صرف مزہیبی رہنماؤں کے دینی اور فلسفیانہ مزاکروں میں کی جاتی ہے
جو عام انسانوں کی ذندگی کے لئے مکمل غیر متعلقہ اور اجنبی ہے۔
دوسرے الفاظ میں محض خدا کی وحدانیت اور اسکے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے جبکہ مکمل توحید کا تصور نظروں سے اوجھل ہے۔
اسی طرح نظریہ جہاد مکمل طور پر ممنوع اور تاریخ کے قبرستان میں مدفون ہے۔جہاد کا بنیادی نظریہ
“لوگوں کو اچھے اعمال پر اکسانا اور برے اعمال سے بچنے کی تاکید کرنا”
بجائے اس کے کہ برا کام کرنے والوں کی تصیح پر استعمال ہو محض دوستوں پر الزام لگانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اسی طرح حج ایک انتہائی مشکل اور قطعی نہ سمجھ میں آنے والے سالانہ عمل کے طور پر ادا کیا جاتا ہے
اسلام کے دشمن ایک منفرد پالیسی اپنانے سے اسلام میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہو گئے۔دعاوں کی کتاب کو بڑی کامیابی سے قبرستان سے شہر لایا گیا جبکہ مقدس قرآن کو شہروں میں رہنے والوں سے چھین کر قبرستان میں مردوں کے ثواب اور بخشش کے لئے پڑھنے کے لئے وقف کر دیا گیا۔ایسی ہی پالیسی مذہبی مدارس میں استعمال کی گئی کہ قرآن پاک اسلام سیکھنے والے طلبا کے ہاتھوں سے لے کر طاقوں میں رکھ دیا گیا اور اس کی جگہ اصول اور فلسفے کی بحثوں کو دے دی گئی۔چناچہ ظاہر ہے کہ جب قرآن مسلمانوں کی نظر اور ذندگی سے اوجھل ہے اور مسلمان طلبا کے نصاب کا حصہ نہیں ہے تو ہمارے دشمن ہمارے ساتھ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔
کیا ایک دانشور فرد جو اپنے لوگوں کے لئے اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہے
یا ایک مسلمان جسے اس کے عقیدے نے ذمہ داری دے رکھی ہے یا ایک دہری ذمہ داری قبول کرنے والا دانشور خموشی سے بیٹھ کر دیکھ سکے گا؟
کیا وہ سمجھتا ہے کہ مغربی نظریہ فکر میں پناہ لینا ہمارے لوگوں کو بچائے گا یا ان کے مسائل حل کرے گا؟
نہیں!
اے میرے پیارے دانشور !
میرے مسلمان بھائی!
چاہے تم اپنےلوگوں کے لئے یہ اپنی ذمہ داری سمجھو یا اللہ کے لئے،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں اور ہمیں ایک ہی ذمہ داری دی گئی ہے۔ہمیں اپنی آزادی اور وقار دوبارہ حاصل کرنے کے لئے ضرورت ہے کہ ہم وہی پالیسی اپنائیں جو ہمارے دشمن نے اپنائی ہے۔ہمیں اسی رستے کی طرف لوٹنا ہو گا جس کی طرف سے ہمیں بھٹکایا گیا ہے۔
ہمیں قرآن پاک کو قبرستان سے واپس شہروں میں لا کر زندہ لوگوں کو پڑھانا ہو گا۔ہمیں قرآن طاقوں سے اٹھا کر طلبا کے ہاتھوں میں دینا اور انہیں پڑھنے کی اجازت دینا ہوگی۔۔ہمارے دشمن قرآن تباہ نہیں کرسکتے چناچہ وہ اسے بند کر کے ایک کونے میں”مقدس کتاب” کہہ کر رکھ دیتے ہیں۔یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے ایک کتاب کے طور پر دوبارہ استعمال کریں۔ایک کتاب جسکا نام قرآن ہے اور وہ پڑھنے کے لئے ہے۔
کاش ہم امید کر سکیں کہ ایک دن قرآن ہمارے اسلامی مدرسوں کی بنیادی اور اہم کتاب تصور کی جائے اور اسلام کی تعلیمات سکھانے کے کام آئے۔کاش کہ ہم وہ دن دیکھیں جب اجتہاد میں ڈگری حاصل کرنے کے لئے قرآن کا مطالعہ ایک اہم ضرورت ہو۔
اگر ہم قرآن کی طرف لوٹتے اور اسے اپنی ذندگیوں کا ایک بنیادی حصہ بناتے ہیں تو ہم توحید کی اصل روح پہچان پائیں گے۔قرآن کو اپنے نظام کے ڈھانچے کا حصہ بنا کر ہی ہم حج ،جہاد، امامت،امانت،شہادت اور عبادت جیسے فرائض کی تخلیقی صلاحیت اور افادیت کی اور اپنی زندگیوں کے اصل مقاصد سے واقف ہونگے۔
اب ہم ان فرائض میں سے ایک پر نظر ڈالتے ہیں
یعنی حج اور ایک خدا کو ماننے والے کی نظر سے اسکی اہمیت۔
یہ کتاب میرے مکہ کے سفر اور تین حج ادا کرنے کے تجربات اور مشاہدات کا نتیجہ ہے۔یہ محض اللہ کے ایک ادنی بندے کی اس روایت کی تشریحات اور رائے ہیں۔کسی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انکی روشنی میں اس روایت کو دیکھے چونکہ یہ مزہبی فقہ کی کتاب نہیں ہے بلکہ آپکو سوچنے پر مجبور کرنے کے لئے لکھی گئی ہے۔میں نے اس روایت کی ایک مسلم حاجی کے طور پر تشریح کرنے کی کوشش کی ہے جسے حج سے واپسی پراسکے بارے میں بات کرنے کا موقع ملتا ہے۔میں اپنے تجربات دوسروں کو بتا سکتا ہوں یہ بھی ایک روایت ہی ہے۔ہر سال تھوڑے سے جو لوگ حج کرکے آتے ہیں وہ لوگوں کی اکثریت کو وہاں کا احوال سناتے ہیں جنکو یہ کرم عطا نہ ہو سکا۔اگر کبھئ کوئی زمہ دار رہنمادنیا جہاں سے آئے دس لاکھ سے ذیادہ مسلمانوں کو( وہ بھی جو دنیا کے غریب ترین دیہاتوں اور انتہائی پست تربیت یافتہ علاقوں سے آتے ہیں)تربیت دینے میں اتنی ہی دلچسپی رکھتا جتنا وہ اپنی صحت ، کھانوں ، نمائشوں اور (حج کے تقاضوں کے متضاد ) اپنی آسائشوں کے بدصورت دکھاوے میں لیتا ہے اور اگر وہ خود غیر فطری اور خبطی انداز میں ان رسومات پر ٹوٹ پڑنے کی بجائے انکا اصل مطلب سمجھنے پر تھوڑی سی توجہ دیتے تو یہی حج دنیا کی تمام سمتوں سے آنے والے مسلمانوں کے نمائندوں کا اسلامی نظریہ کا ایک مکمل عملی اور نظریاتی تربیتی کورس ہوتا۔
وہ حج کا مطلب، ان پیشگوئیوں کا مقصد ،اتحاد کی اہمیت اور مسلمان قوم کی قسمت سمجھ سکتے تھے۔اسطرح وہ علم اور معلومات کا ایک ایسا ذخیرہ اپنے ممالک اوراپنے عوام کے پاس واپس لے کر جاتے جو انکے معاشرے کے افراد کے لئے شعور کا باعث بنتا اور جسکے نتیجے میں ذندگی بھر کے لئے انکے معاشرے میں پھیلی تاریکی میں یہی حج روشنی کے ایک مینار کا کام کرتا۔
(ڈاکٹر علی شریعتی)
ترجمہ و تلخیص
صوفیہ کاشف
(خواہش اور کوشش ہے کہ اس کتاب کا مکمل ترجمہ اس پلیٹ فارم پر پیش کیا جا سکے!)
