اولاد رزق ہے از شیما قاضی


جیسے کھانا، غلہ، کپڑے آپ کا رزق ہوتے ہیں اسی طرح آپ کی اولاد بھی آپ کا رزق ہوتی ہے۔


میں بچپن سے ہی شام کے وقت اکیلے گوشے میں بیٹھنا پسند کرتی تھی جس کو آج کل لوگ ‘می ٹائم’ کہتے ہیں۔ شام ہوتے ہی میں چھت پر چہل قدمی کرنے جاتی۔ خیال کے دریچوں سے پھولوں کی سرزمین میں جھانکتی۔۔ جھانکتی کیا، پورا جا بستی۔ ایک سرزمین تھی پھولوں کی۔۔ پودوں کی۔۔ صاف ستھرے گلی کوچوں کی۔۔ جہاں فضا صاف ستھری، پرسکون تھی۔۔ میں وہاں اکیلی تو ہرگز نہ تھی۔ گھنے بالوں چمکتی آنکھوں والی چھوٹی معصوم سی مخلوق ہوتی میرے ساتھ۔۔ میرا ہاتھ تھامے میرے ساتھ ان گلیوں میں دھیمے دھیمے چلتا۔۔ میرے ساتھ سائیکل پر بیٹھتا تو کبھی اپنی سائیکل چلاتا۔۔

                    مجھے اس کی صورت کچھ ایسی یاد ہے جیسے آپ کسی کی تصویر البم میں محفوظ کر کے رکھتے ہیں۔ مجھے نہیں یاد میں اسے کیا بلاتی مگر وہ مجھے ‘ممی’ بلاتا تھا۔ مجھ میں فطرتاً شاید ماں ہی چھپی تھی۔۔ میرا اور اس کا رشتہ یوں تھا کہ جتنا وقت میں چہل قدمی کرتی، وہ میرے ساتھ ہوتا۔۔ اور پھر جب میرا نیچے جانے کا وقت آتا وہ کہیں غائب ہو جاتا۔۔ میں اس سرزمین سے لوٹ آتی لیکن جب میں واپس آتی مجھے اس کی یاد نہیں ستاتی تھی کیونکہ میں جانتی تھی کہ اگلے دن میں نے پھر اس کے ساتھ اپنے پورے دن کا بہترین وقت گزارنا ہے۔۔


                         میں  اکثر امی کو بتاتی کہ امی میں خیالوں میں ایسی جگہ جاتی ہوں جہاں پھول ہوتے ہیں۔ جہاں سکون ہوتا ہے۔ جہاں کوئی دکھ، مسئلے، جھمیلے نہیں ہوتے۔۔ تو امی مجھے سمجھاتیں کہ وہاں جا کر بسا نہ کرو۔۔ کیونکہ پھولوں کی سرزمین سے جب کانٹوں کو زمین پر پیر رکھو تو تکلیف بہت ہوتی ہے۔ انسان جی نہیں پاتا!

                           مجھے امی کی بات عجیب لگتی۔ میں سوچتی بھلا یہ ایسا کیوں کہتی ہیں؟ میں اگر کچھ وقت مزے سے گزار آتی ہوں تو اس میں برا کیا ہے؟ مگر خیر۔۔ بیچ میں کچھ سال گزرے۔۔ میں ہاسٹل چلی گئی۔۔ بہت کم گھر آنا جانا ہوتا تھا۔۔ کبھی گھر آتی اور چھت پہ جاتی تو اس سرزمین میں کوشش کے باوجود جا نہ پاتی تھی۔ بہت مشکلوں سے چلی بھی جاتی تو وہ کہیں نظر نہ آتا۔۔ یوں جیسے آپ کسی کو بتائے بغیر اپنا پتا بدل لیں۔۔ اور وہ بھی غصے اور ناراضگی سے آپ کی نظروں سے خود کو غائب کردے۔ وہ بھی غائب ہوگیا تھا۔۔ میرا دل کرتا ہے میں اس کی وہ دھندلی سی تصویر اپنی آنکھوں سے نکال کر ہر راہ چلتے کو دکھاؤں کہ اگر کسی نے اسے دیکھا ہو تو مجھے بتا دے وہ کہاں ہے؟ یا اسے میرا پیغام ہی پہنچا دے کہ مجھ سے ایک بار آ کر مل تو لے۔۔


                     میری شادی ہوگئی۔ پڑھائی اور باقی مصروفیات نے مجھے اس کو ڈھونڈنے نہ دیا۔ مجھ سے ہر کوئی پوچھتا ہے ‘آپ کا فیملی بنانے کا کوئی خیال نہیں؟ آپ پڑھائی کی وجہ سے فی الحال اس بارے میں نہیں سوچ رہیں؟’ میں کسی کو کوئی جواب نہیں دیتی۔۔ مگر حقیقت تو یہی ہے کہ میرا تو بچہ ہے۔ کبھی میں آنکھ بند کروں تو مجھے لگتا ہے وہ مجھے گلے لگا رہا ہے۔ کبھی نماز پڑھوں تو میرے سامنے جائے نماز پہ آکے بیٹھ جاتا ہے۔ نیند سے جگا کے مجھ سے کچھ خاص کھانے کی ضد کرتا ہے۔۔۔ میں اس کے وجود کے ہر ہر لمس کو محسوس کرتی ہوں۔۔ وہ الگ بات ہے کہ لوگوں کو جو نظر نہیں آتا اس پر یقین نہیں کرتے۔۔ اسی لیے گاؤں میں ہر دوسری عورت مجھے ایک تعویذ دیتی ہے جسے میں مسکراتے ہوئے قبول کرلیتی ہوں اور آ کے اپنے کمرے میں اس ڈبے میں رکھ دیتی ہوں جس میں اب تک نجانے کتنے تعویذ جمع ہوئے ہیں۔۔ مجھے ہنسی آتی ہے۔۔ میں کسی کو سمجھا نہیں پاتی کہ اولاد بھی رزق ہے۔ اللہ کی عطا ہے۔ جیسے باقی نعمتیں ہیں اسی طرح اولاد بھی ایک نعمت ہے۔۔ وہ الگ بات ہے کہ میری زندگی میں ہر وہ نعمت موجود ہے جو کسی اور کی زندگی میں نہیں مگر میں نے دانستہ کسی کو ان کی زندگی میں کس چیز کی کمی ہے یہ احساس نہیں دلایا مگر میری زندگی میں اولاد نہیں اور میں بہت قابلِ ترس و رحم ہوں یہ ملنے والا ہر دوسرا انسان مجھے جھنجھوڑ کر بتاتا ہے جاگ جاؤ تم اس نعمت سے محروم ہو۔۔

میرے پاس جواب میں ایک طرف ایک زوردار چھانٹا ہوتا ہے اور دوسری طرف خاموشی اور ایک مسکراہٹ ۔۔ میں دوسرا جواب دیتی ہوں اور آگے بڑھ جاتی ہوں کیونکہ یہ تو صرف میں جانتی ہوں کہ میری اللہ سے کیا بات چیت ہوتی ہے۔ ہمارے درمیان کس قسم کی گفتگو ہوتی ہے۔ ہم دونوں کیسے عہد و پیماں کرتے ہیں یہ ان لوگوں کی سمجھ میں نہ آنے والی باتیں ہیں سو میں بھی اپنی توانائی اور وقت بچاتی ہوں۔۔ ان سب کو یہ سمجھانا میرا فرض نہیں کہ رزق کے لیے رازق سے رابطہ کرتے ہیں مخلوق سے نہیں۔۔ میں سب اللہ کے حوالے کرتی ہوں کیونکہ اس کا چھانٹا بھی مجھ سے زیادہ زوردار ہے اور اس کا جواب بھی بہترین۔۔۔

________________

شیما قاضی

2 Comments

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.