مٹی کے گھروندے
کبھی آپ نے بھی بنائے ہونگے!
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی سمندر یا دریا کے قریب رہتا ہے یا صحرا میں
ریت کا گھروندا کہیں بھی بن سکتا ہے
اور مٹی سے کھیلنے والے کہیں نہ کہیں اسکے لئے ریت ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔
ہم بڑے ہو جاتے ہیں مگر گھروندے بنانا نہیں چھوڑتے!
جانے کیوں یہ ہماری عادت ثانیہ بن جاتی ہے کہ ہم چلتے پھرتے ذندگی میں ہر طرف، ہر موڑ پر، پلکوں پر ایک گھروندا بننے لگتے ہیں۔
گھروندے تو گرنے کے لئے ہی ہوتے ہیں انہیں ہر حال میں گرنا ہے!
ریت پر ہوں یا خوابوں کی سرحدوں میں
جتنے ذیادہ ریت پر ، پانی پر اور پلکوں پر گھر یعنی اتنی ہی زیادہ بنانے والے کی شکست وریخت!
ہمیں خواب دیکھنے سکھائے جاتے ہیں
ڈراونے خوابوں کا کیا کرنا ہے یہ نہیں بتایا جاتا۔
چاروں قل پڑھکر کروٹ بدل کر سو جاو
ہو گیا علاج!
پھر بندہ قل پڑھتا پڑھتا عاجز آ جاتا ہے اور ڈراونے خواب خوابوں سے نکل کر کمرے میں آس پاس ناچنے لگتے ہیں
سمجھ نہیں آتی کہ کیوں کسی نظام، کسی کلچر نے، کسی مذہب یا مذہبی عالم نے کسی استاد نے کسی بزرگ نے ہمیں چھوٹی عمر میں ہی یہ کیوں نہ سکھا دیا کہ فنا کے سفر پر چلنے والوں کا خوابوں اور گھروندوں سے کوئی تعلق نہیں۔!
چلو کچھ تکلیف ہی ذندگی کی کم ہوتی!
پچھلے دنوں ڈاکٹر علی شریعتی کی کتاب حج میں پڑھا:
:انسان تو تم سے بہت دور ہیں”
حیرت زدہ رہ گئی جب سے سوچنا اور محسوس کرنا سیکھا ہے یہی تو ایک بات سیکھی ہے کہ انسان ہم سے کس قدر دور ہیں ۔حتی کہ ایک گھر میں پلنے والے ایک گود میں جنم لینے والے، جنم دینے والے اور جنم ہونے والے ۔۔سب کے سب۔۔۔قریب ترین دکھائی دیتے انسان بھی ہم سے کسقدر دور ہیں۔جو دور کے ٹھہرے انکی تو بات ہی کیا۔
اسقدر قریب اور ایک ہی خون سے جنم لینے والے بھی ہمارے نہیں ہیں۔ہر انسان ایک الگ ہستی ہے ایک الگ وجود اور ہم سے بے نیاز، دور،بہت دور!
یہ نوحہ کب آج کا ہے کہ انسان کسقدر تنہا اور اکیلا ہے لوگوں کی بھیڑ میں بھی خاندانوں کے جھرمٹ میں بھی، جتنا ذیادہ آس پاس ہجوم اتنی شدت کی تنہائی!
جب چار سال پہلے پاکستان لوٹے تو انہیں دنوں سورت بقرہ کا آغاز کیا۔ایک کتاب پڑی ہے میرے پاس
the message of quran
جو کچھ بولنا چاہتی ہے۔وہ مجھے آوازیں لگاتی رہتی ہے
اور مجبور کرتی ہے کہ اسکو کھول کر دیکھوں اسے آخر کیا کہنا ہے۔تبھی سورت بقررہ کی ایک آیت نے میرے قدم روک لئے
مجھے لگا یہ تو میری ہی زندگی کی داستان ہے
وہ آیت یہ تھی
And most certainly shall We try you by means of danger, and hunger, and loss of worldly goods, of lives and of [labour’s] fruits. But give glad tidings unto those who are patient in adversit
میں اس میں سے گن کر ایک دو آزمائیشوں کے سوا باقی سب اپنی ذندگی میں دیکھ سکتی تھی
اور وہ جو ابھی نہیں دیکھی تھیں انکو دیکھ کر لرزتی تھی کہ انکا حوصلہ خود میں نہیں پاتی تھی۔اگلے چار سال میں وہ بھی سہہنے کا حوصلہ رب نے دے دیا، وہ بھی دیکھ لیا۔
وہی آیت آج بھی میرے واٹس اپ کی پروفائل پکچر ہے پچھلے چار سال سے۔مجھے اپنی تعریف میں اس آیت سے بہتر کچھ نہیں ملتا
یہ ہماری ذندگی ہے!
اس میں تو توڑ پھوڑ لکھی ہے!
اسمیں تو ٹوٹنا بکھرنا ہے
آگ کے دریا ہیں اور پار بھی اترنا ہے
رو کر یا ہنس کر
مگر ان آزمائشوں سے بچ کر نکلنا ممکن نہیں۔
یہ دراصل ہمارے ریت کے گھروندوں پر اتارا گیا حکم ہے
زندگی جیسی ان سالوں میں پریشان تھی شاید ہی پہلے کبھی تھی
لگتا تھا نہیں کٹے گا
وقت کیسے کٹے گا
میں اپنے رب کی طرف ہاتھ اٹھاتی تھی
اور اسے کچھ بھی کہنا بھول جاتی تھی
میرے ہاتھوں میں صرف ایک سوال رہتا تھا؟
کیوں؟ کیوں؟ میرے ساتھ ہی کیوں؟
بار بار، اور کتنی بار آخر؟
میرے پاس تو تیرے سوا کوئی ہے ہی نہیں
پھر بھی؟
ہمیں لگتا ہے ہم نے رب کو مان لیا، سجدے کر لیا، تو بس اب تو آزمائش نہیں اترے گی
تو جانا آزمائش تو ہر حال میں اترے گی اور اتنی اتری کہ ہم سنبھالتے تھے پر سنبھالی نہ جاتی تھی۔۔۔۔۔
ایوب صاحب بھی تو تھے ناں جو جسم کے زخموں میں کیڑوں کے ساتھ جی لئے
یوسف جیسا دلربا وجود جو کنویں میں پھنکوا دیا گیا تھے پھر بھی جی گیا
یونس صاحب مچھلی کے پیٹ میں بھی تین دن تک اندھیروں سے لڑتے رہے۔ہمیں آج تک کسی نے نہیں بتایا کہ مچھلی کے نظام انہضام کا کیا بنا۔کہف کے غاروں میں ذندگی منجمد ہو گئی تھی مگر مچھلی کے اندر تین دن تک کوئی ہارمون، کوئی انزائم کام نہ کر سکا۔۔۔۔اسکا کہیں کوئی زکر تک نہیں۔۔
ہم انکے جیسے تو نہیں تھے ہم تو کمزور و ناداں انساں تھے ہم سے ایسی آزمائشیں۔۔۔۔۔
سوچا کنویں کی تہہ میں بھی رہنا پڑا تو یہ وقت تو گزارنا ہے
سر نیچے کرکے، خود کو بھیڑ میں گم کرکے، پردے کی نظر سے اوجھل ہو کر
اپنی جیتی ساری منزلیں غرق کر کے!
ذرہ بے نشاں ہو جائے تو مشکل وقت گزر ہی جاتا ہے۔۔
سر پر اٹھا کر بھی، پاوں کے نیچے کچلے جا کر بھی
ذندگی میں آئے کیسے کیسے مشکل وقت گزر گئے تھے مگر لگتا تھا یہ نہیں گزرے گا
خواب گھروندے کے مقابلے میں ڈروانے خواب اتر آتے ہیں
ایک کے بعد ایک ڈراونا خواب تعبیر بن کر تعاقب کرتا رہا۔اندھیرا کہتا تھا نہیں چھٹوں گا!
سایے گھر کی ہر نکڑ پر منزل بنا کر جم بیٹھے تھے
ذندگی کی آزمائشیں نبھانا آسان نہیں ہے، قطعی آسان نہیں ہیں
یہ کوئی ایڈنچر ایچ کیو کی کسی گیم کا حصہ نہیں ہیں جسمیں انڈرالین کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہےا
اس میں تو سراٹین اور ڈوپا مین کا قحط پڑ جاتا ہے
آنکھوں کی بینائی اور کانوں کی بصارت ساتھ چھوڑ جاتی ہے
جینا ہے۔۔جینا ہے کا سبق پڑھنا مشکل ہونے لگتا ہےکہ
انسان لہروں کی تہہ میں سکون محسوس کرکے انکی خواہش کرنے لگتا ہے
کبھی کوئی نہیں سوچتا کہ تہہ میں سکون دکھائی دینے لگے تو موجوں میں ذندگی کتنی مشکل ہو گی۔۔۔۔
انسان بری طرح تھک جاتے ہیں!کبھی خود کو بھی جینے پر آمادہ کرنا ہوتا ہے اور ساتھ دوسروں کو بھی ذندہ رکھنا ہوتا ہے
کبھی سارے قافلے کی ذمہ داری اسی کے کندھے پر ہوتی ہے جو خود اپنا بوجھ ڈھوتے بھی تھک چکا ہوتا ہے
پھر کسی روز صبح کی روشنی زرا سی شفقت لئے اترتی ہے
سکوت زدہ وحشی ڈراونی اور موت بھری رات میں سے
اور کہتی ہے
تمھارے رب نے تمھین چھوڑا نہیں!
جب لگتا تھا سب کے سب چھوڑ گئے، رب بھی!
اور آنے والا وقت آج کے کل سے بہتر ہے
جب لگتا تھا آنے والا وقت بھی اندھیروں کی تہہ سے ہی نکلے گا
اور تمھارا رب تمھیں اتنا دے گا کہ تمھارے دل کے سب خانے بھر جائیں گے
تب جب آنکھیں خوابوں اور خواہشوں کے بوجھ کب سے قبروں میں اتار چکی تھیں
By the Glorious Morning Light,
And by the Night when it is still,-
Thy Guardian-Lord hath not forsaken thee, nor is He displeased.
And verily the Hereafter will be better for thee than the present.
And soon will thy Guardian-Lord give thee (that wherewith) thou shalt be well-pleased.(ad_duha)
یہ کوئی جادو نہیں ہے
کوئی کایا پلٹ بھی نہیں ہے
یہ فطرت کا ایک قدرتی سفر ہے۔۔دھیرے دھیرے چلتاا
اس میں کچھ بھی منٹوں سیکنڈوں میں نہیں بدلتا
اس میں کوئی دیوتا مندر کی گھنٹی سن کر ایک دم سے خنجر کسی ظالم کے سینے میں نہیں اتارتاا
اس میں مسافر کو ہر حال میں اپنی منزل تک خود ہی بھاگنا ہے
صبر نہ رونا نہیں ہے
صبر تو روتے رہنا مگر چلتے رہنا کا نام ہے
یہ طویل تر سفر ہے
یہ کبھی کسی نے بتایا نہیں تھا کہ کتنا طویل
خود ہی چل کر ماپنا پڑتا ہے!
یہاں تک کہ روتے روتے آنسو زہر بن جاتے ہیں
سکون دینے کی بجائے درد دینے لگتے ہیں!
پاوں شل ہو کر چلنے سے انکاری ہو جاتے ہیں
مگر کوئی بھی فرشتہ منزل پلیٹ میں لیکر حاضر نہیں ہوتا
طائف کے پتھر خود ہی کھانے پڑتے ہیں!
اتنی مشکل ہے یہ ذندگی!
مگر ہمیں میٹھے خواب دکھا کر تعمیر کیا گیا تھا
ہم ٹی وی کی پیداوار تھے
ہم میں حوصلہ پہلے والوں سے کم تھا!
ہم میٹھے خوابوں کے نشے میں پلے تھے
ہم میں ڈراونے خوابوں سے نپٹنے کی ہمت کم تھی
سمارٹ فون کی پیداوار تو حوصلہ کے ہجے تک نہیں جان پائی۔کیا ہماری نسلیں خدانخواستہ خود کشیاں کریں گئیں؟
اس سے بڑھ کر اور کیا نقصان انسان کا یہ صدی کر سکتی تھی
کہ انسان انسان ہونے کا قابل نہ رہا!
کہ ہم رستوں پر نہیں سکرینوں پر چلنے لگے
ہمارے حوصلے ایک منٹ کا سفر نہیں کر پاتے
ہماری آنکھیں سورج کی دھوپ اور زمیں کی گرد سے تعق بھول گئیں!
سورتہ بقرہ کی اگلی، 156 آیت میں ڈراونے خوابوں سے نمٹنے کا طریقہ درج ہے
who, when calamity befalls them, say, “Verily, unto God do we belong and, verily, unto Him we shall return
ہم پر جب مصیبت ٹوٹ پڑے
محنت کی کمائی نہ ملے یا چھن جائے
کسی جان کا غم لگ جائے
سازو سامان لٹ جائے
کوئی دہشت ہو یا فاقے کا خوف ہو
ہمیں اناللہ و انا علیہ راجعوں پڑھنا ہے
پہلے میں بھی کم عقل اور کم سمجھ تھی سو میں نے ہر مشکل اور تکلیف دہ وقت پر اس لائن کو پڑھنا شروع کیا
اسمیں لائن میں اثر ہے! کوئی شک نہیں!
آدھ گھنٹے میں دل بڑے سے بڑا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جاتا ہے!
مگر سچ یہ ہے کہ صرف لائن نہیں پڑھنی!
سبق سیکھنا ہے!
کہ اس دنیا میں ہر شے کسی اور کی ہے ،تمھاری نہیں ہے!
اس دنیا کی ہر شے ہر محبت ہر نعمت ایک دن تم سے چھن جائے گی!
یہ ایک فلسفہ ہے اور اسے سیکھتے اور سمجھتے ہمارے جیسی تربیت سے نابلد نسلوں کو ذندگی لگ جاتی ہے!
~~~~~~
~~~~~~~
میں مزہبی نہیں ہوں نہ مزہبی لکھنے کی کوشش کرتی ہوں مگر کیا کروں جو کچھ ذندگی سکھاتی ہے وہ کسی نہ کسی سبق سے جا ملتا ہے اور خود بخود مذہبی ہو جاتا ہے!!
_________
صوفیہ کاشف
دس فروری دو ہزار پچیس

سلام مسنون
سوچاتھا کچھ لکھو مگر اب سوچتا ھوں کیا لکھوں کہ مدلل مضمون ھے آپ کی تحریر پڑھ کر یاد آیا ایک جوان جس کو اس کی محبوبہ دھوکا دےگئ ھے کہ اس کا عشق سچا تھا یقینا” ازمایش ھے اب میں آپ کے مضمون کی وساطت سے سورہ بقرہ کا جو حوالہ آپ نے دیا ھے لکھ دوں گا کہ وہ باؤلا ھوا وا ھے
بہت شکریہ
LikeLiked by 1 person
جزاک اللہ!
خدا انکو اس آزمائشیں پر صبر دے!
تحریر کے آخر میں کچھ ایڈیشن ہے اسے ضرور پڑھئے گا پو سکتا ہے آپکے دوست کے کسی کام آ جائے!
LikeLike
Lots and lots of prayers… Prayers for strength, courage, grace, integrity and mindfulness of God…
Blessings.
LikeLiked by 1 person
Thank you!
Jazak Allah!
LikeLiked by 1 person
تو پُوجا میں گم تھا تجھے کیا خبر
یہ بت مُسکرائے تھے تیرے لیے
عباس علوی
LikeLiked by 1 person
ماشاءالله
انسان کی سب سے بڑی نعمت صحت اور جسمانی سلامتی ہے۔ ذرا سوچیں، اگر آپ دیکھ نہ سکتیں، سن نہ سکتیں، بول نہ سکتیں، یا چلنے سے معذور ہوتیں تو زندگی کتنی مشکل ہو جاتی۔ ہمیں اپنی صحت کی قدر کرنی چاہیے اور ہر لمحے کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
LikeLiked by 1 person
بالکل!
LikeLike