مسافت کے نشان________فوزیہ شیخ

انکے  چہروں  پہ مسافت  کے نشاں  ہوتے ہیں ۔
جن کی  قسمت  میں کرا ئے کے مکاں ہوتے ہیں

کون آنکھوں میں چھپے  کرب کو پڑھتا ہوگا ۔ 
لوگ  اتنے  بھی  سمجھ دار  کہاں ہوتے ہیں ۔

وقت  کے  ساتھ اترتی  ہیں  نقابیں ساری ۔
ہوتے  ہوتے  ہی کئی  راز  عیاں ہوتے  ہیں ۔

تم  نے سوچا  ھے کبھی  تم   سے  بچھڑ نے والے
کیسے جلتے ہیں شب و روز دھواں ہوتے ہیں ۔

دور  ساحل  سے  سمندر  نہیں  ناپا جاتا
درد لفظوں  میں بھلا  کیسے  بیاں ہوتے ہیں  ؟

پھول کھلتے ہیں نہ  موسم کا  اثر  ہوتا  ہے
ہم  بہاروں میں بھی تصویر ِ خزاں ہوتے ہیں ۔

میں نے ٹکڑوں  میں بٹی  آج  بھی دیکھی عورت ۔
  روح   ہوتی  ہی  نہیں جسم  جہاں  ہوتے ہیں ۔۔

2 Comments

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.