فجر_____________صوفیہ کاشف

الحمداللہ کچھ سالوں کے اندھیرے کے بعد زندگی کی رات میں سحر پھوٹنے لگی ہے

اور جب صبح ہونے لگے تو ہمارا فرض ہے ہم اپنے ہاتھوں میں اوزار تھامے مزدوری کو نکلیں

سو جب روشنی پھیلنے لگی ہے اور چمکتا سورج اندھیرے کو دھکلینے میں کامیاب ہو رہا ہے

تو مجھے بھی اپنا قلم اٹھانا ہے

اور وہ فرض انجام دینا ہے

جو میرے مقدر کی سلیٹ پر میری مزدوری بنا کر لکھا گیا ہے۔

کتنے عرصے بعد آج اس بلاگ کو کھولا ہے اور اس میں کھو گئی ہوں۔

یوں لگا کب سے اپنا آپ اس میں رکھ کر گما بیٹھی ہوں!

کتنے طویل عرصے بعد اس میں خود کو دیکھا ہے۔اور اس طویل عرصے میں  ذمین پر پھیلے کتنے طوفانوں سے لڑی ہوں، کتنے عزابوں  میں اللہ نے مجھ پر کرم کیا ہے اور کس کس طرح کیا ہے۔۔۔۔یہ ایک ناقابل یقین کہانی ہے۔میرے جیسی ذرہ بے نشاں بھی اللہ  کو نظر آتی ہے، کروڑوں لوگوں سے بھری دنیا میں میرا ریزوں سا وجود بھی اس قدر اہم ہے کہ اسکی سنی جائے، وہ میرے نوحے اور صدائیں سنتا ہے۔یہ کسقدر اعزاز کی بات ہے۔

اس رب کا شکر مجھ پر واجب ہے جس نے میرے دل کی ہر ہر تمنا پوری کی ہے، جس نے کسی بھی مشکل میں مجھے تنہا نہیں چھوڑا۔جس کا نام سمندر میں میرے لیے  ہمیشہ راستے پیدا کرتا رہا ہے!

گریجویشن میں  ایک ایکسٹرنل  مجھے سائیکالوجی کے پریکٹیکل میں فیل کرکے میری اگلی منزلیں کھوٹی کر گیا تھا ۔جب اگلے دو سال دلدل میں رہ کر سوکھی زمیں پر اتری تو مجھے پتا چلا کہ اس ایکسٹرنل کی نوکری ختم ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔

تب پہلی بار بیس سال کی عمر میں میں نے دیکھا کہ ہم ذرہ بے نشاں نہیں ہوتے۔ہم جس قدر بھی بے بس ہوں ہمارے آس پاس کوئی ہے جو کہیں فاصلے سے ہمیں سنبھال رہا ہے ۔میں کچھ بھی نہیں تھی۔مگر مجھے بھی کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑا گیا۔اس کے بعد آنے والے ہر گزرتے سالوں میں میں نے دیکھا کہ کوئی بھی زیادتی کرنے والا کبھی بچ کر نہ جا سکا۔اس کی وجہ میری عظمت نہیں تھی

اسکی وجہ وہ رب تھا جو ہمارا آسرا ہے

جسکی نظر میں کوئی بھی ذرہ بے نشاں نہیں ہوتا

نہ میں نہ آپ!

بس دھیان یہ رکھنا ہے کہ کسی کو کچلنے والا پاوں کبھی بھی آپکا نہیں ہونا چاہیے

مر جاو مگر مارنے والے نہ بنو کبھی!

بلکہ مجھے تو اب مظلوم ہونا اپنی سب سے بڑی طاقت لگنے لگا ہے۔کوئی زیادتی میرے ساتھ کرتا ہے تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ اب اللہ کا ساتھ میرے ساتھ ہے۔

لوگوں کا ظلم مجھے مقبول و معتبر کر دیتا ہے!مجھے وہ طاقت دے دیتا ہے جو ظالم کے پاس نہیں ہوتی!

الحمداللہ

جسکے ساتھ وہ ہو اسے اور بھلا کس کی ضرورت رہ جاتی ہے۔

تو پچھلے چار سال بہت ہی تکالیف میں گزرے

مگر الحمداللہ اسکا ہاتھ ساتھ رہا اور گزر گئے

اللہ کے بہت سے معتبر بندے کئی کئی اطراف سے کئی طرح کی مدد لے کر پہنچے

اور استاد نعمان علی خان سے میں نے سیکھ لیا ہے

کہ کوئی مدد کے لئے ہاتھ بڑھائے تو ضرور تھام لو

کیونکہ وہ ہاتھ اللہ کی طرف سے آیا ہے

(مجھے اس دنیا میں دو ذندہ لوگوں سے عشق ہے

ایک مفتی اسماعیل منک صاحب

ایک استاد نعمان علی خان صاحب

انکے الفاظ مجھے نئی ذندگی دیتے ہیں

وہ رستہ، وہ سوچ وہ احساس دیتے ہیں جنکی ہمارے اس دیس کی حدوں کے اندر قلت ہے

کاش اس دیس کے زیادہ لوگ انکو سن، سمجھ سکیں

ہمارے لوگوں کو ایسے استادوں کی بہت ضرورت ہے!)

اور اس دوران ایسے ایسے ہاتھ میری مدد کو پہنچے جو میرے لئے انجان تھے

مگر اللہ نے انکو میرا آسرا بنا دیا

خدا ہمیں بھی ہمیشہ ایسے مواقع پر دوسروں کا آسرا بنا دے جب انکا اس ذمیں پر اور کوئی آسرا نہ رہا ہو

کیونکہ یہ ظرف بہت پہنچے ہوئے لوگوں کو حاصل ہوتا ہے

اور مجھے پر تو اسکے کرم کا یہ عالم ہے کہ الحمداللہ میری ضرورت سے ذیادہ ہر شے مجھ تک پہنچ رہی ہے!

میری بالٹی چھوٹی ہے

رحمت بھیجنے والا رحمت بہت  بھیج رہا ہے

الحمداللہ!

ہم تو اسکے صحیح شکر کے بھی قابل نہیں

۔اس بلاگ پر بیٹھے ہیں میرے بہت پیارے لوگ جو ہر طرح کے اچھے برے وقت میں میرا آسرا بنے ہیں

مجھے پھر سے اسے آباد کرنا ہے

ان سبکو واپس بلانا ہے جنکی دعائیں میرے اندھیرے میں روشنی بنی رہیں

جنکے لفظوں نے میری تنہائیوں کو جاوداں کئے رکھا!

خدا نے توفیق دی تو انشاءاللہ اس بلاگ کو پھر سے آباد کرنا ہے

قلم کو چلانا ہے!

آج کی ابتدا صرف اسی کی نام سے جو مجھے کئی تکلیف دہ مسافتوں سے نکال کر پھر یہاں پر لایا ہے!

اور اب یہاں لایا ہے تو ضرور کچھ سوچ کر ہی لایا ہو گا!

آپ سب کی محبتوں، دعاوں، تمناوں کی مقروض!

آپ سب کے لئے دعائیں اور اچھی خواہشات !

صوفیہ کاشف

سولہ دسمبر، دو ہزار چوبیس

10 Comments

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.