—-
بات جدائی جھیل چکی۔۔
وقت کا سورج روٹھ چکا۔۔
نیم کی ٹہنی سوکھی ہے۔۔
خزاں کا موسم اچھا ہے۔۔
کڑوی سچائی جیسا۔۔
جھوٹا خواب نہیں دیتا۔۔
کوئی وعدہ نہیں رہتا۔۔
جو نہ ٹوٹے۔۔
خواب سہانا ایسا ہے؟
جو نہ روٹھے۔۔
ساری باتیں بھول گئے۔۔
وقت کی یادیں رول گئے۔۔
صدی پرانا جنگل ہے۔۔
دنیا ساری دنگل ہے
اپنا اپنا سورج ہے
اپنا اپنا جیون ہے
سب ہی جھیل کہ جائیں گے۔۔
اک دن ہم مرجائیں گے۔۔
سورج پھر بھی جاگے گا۔۔
رات نئے سے آئے گی
خواب بھی دستک دے گا مگر
ہم۔کو کہاں سے پائوگے۔۔؟
جو ہاتھوں سے نکل چکا ہے
پیار کہاں سے لائوگے۔۔۔
اس سے پہلے پچھتائو۔۔
اس سے پہلے کھوجائو۔۔
اس سے پہلے یاد پرانی ٹوٹ پڑے۔۔
بارش پھر بھی برسے گی۔۔
چوکھٹ ہم کو ترسے گی
بارش خالی برسے گی۔۔
لیکن پیار نہیں ہوگا۔۔
ٹھنڈ کی شام میں چائے کا کپ ترسے گا۔۔
فون پر میری گھنٹی بجنا بھولے گی۔۔
میسج میرے آنا چھوڑچکے ہونگے
تم خوش رہ کیا پائوگے؟
اتنا مجھ کو کوستے ہو۔۔
لیکن اک لمحے کو سوچو۔۔
کون محبت کو یوں بے دردی سے کھوتا ہے۔۔
کس کو پتا ہے؟کون کہاں پر روتا ہے۔۔
یاں کچھ نہیں حاصل ہوتا یا۔۔۔۔
سب حاصل ہوجاتا ہے
ایک وقت
ایک پیار
ایک احساس
ایک وفا کا تعلق تم سے کہتا ہے
مسکراہٹ ہی تو مانگی تھی۔
ہم نے کون سا دنیا مانگ لی۔۔
نہیں کہا تھا پورا دن۔۔۔
بس دو گھنٹے مانگے تھے۔۔
تم نے جو ہتھیلی پر رکھ اڑادئے۔۔
لیکن مجھے نہیں دیے۔۔
دو گھنٹے کی باتیں بھی۔۔
اپنے اندر معنی کتنے رکھتی ہیں۔۔
دو گھنٹے کی بات نہیں۔ ہے
ان دو گھنٹوں کے اندر۔۔
دو لمحوں کی بات ہے جس میں
تم دل سے مسکاتے ہو۔۔
میرے فون کی بیل پر تمہارے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔۔
میسج بجتے ہی تم بھاگتے ہو۔۔اور دیکھتے ہو۔۔
اور پھر کھل کھل جاتے ہو۔۔
بس اک لمحہ ۔۔
جس میں تم نے لکھا تھا۔۔
میں بھی تمہیں مس کرتا ہوں۔۔
یاد تمہاری کام میں بھی اٹکاتی ہے
جب نہ میں یہ میسج دیکھوں۔۔۔
کال تمہاری نہ سن لوں
نیند نہیں آتی ہے مجھے۔۔
لیکن یہ کیا تم نے رات کو لکھا تھا
مجھ کو تم سے نفرت ہے
بیزاری ہے۔۔
اتنے میسج؟
اففف
اتنے میسج کرتے ہو۔۔۔۔؟؟؟؟
کال۔پر کال۔۔مجھ کو ڈسٹرب کرتی ہے۔۔
میرے کام۔۔۔
اور وقت۔۔مجھے نہیں ملتا۔۔
اور اتنی کالز۔۔؟؟؟
اتنا غصہ۔۔
اتنی چڑچڑ۔۔۔
پیار کا لمحہ کھاجاتا ہے۔۔
بحث نئے در کھلنے نہیں دیتی ہے مگر۔۔۔
یاد پرانی روٹھی ہے۔۔
وہی کہانی جو نہیں چھپی تھی۔۔۔
پرچے کے دفتر میں کاغذ۔۔بھاری سانس چڑھے پلندوں کے اندر چھپ جاتے ہیں۔۔
وہی کہانی جس میں تم کو کہنا تھا۔۔
میسج کھولو۔۔۔
فون اٹھائو۔۔۔
دو گھنٹے کی بات نہیں ہے۔۔۔
اک۔لمحے کی باتیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔
دو گھنٹے تم سوچتے رہنا۔۔
آٹھ پہر تم گھر کو دینا۔۔۔
چار گھنٹے تم ٹی وی دیکھنا۔۔
باقی وقت گھر والوں کا حصہ۔۔
میرا حصہ کتنا ہے؟؟؟؟؟
یاد کرو تم
۔بس تم میرے حصے کے دو گھنٹے بھی کھاگئے ہو۔۔۔
بات تو گھنٹے کی بھی نہیں تھی۔۔
بات تو فقط چاہت کی تھی۔۔
بات تو لمحوں کی تھی۔۔
جو تم نے کھڑکی کھول کر ہوا میں رکھ دی۔۔۔
بس اک مسکراہٹ جو تم دیتے تھے۔۔
وہ بھی چھین لی۔۔
بات تو سال۔کی نہیں تھی۔۔
بات تو فقط ایک دن کی تھی۔۔
ایک رات کی تھی۔۔
۔۔۔۔
سدرت المنتہی ‘
دو گھنٹے کی بات

میرے فون کی بیل پر تمہارے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔۔
میسج بجتے ہی تم بھاگتے ہو۔۔اور دیکھتے ہو۔۔
اور پھر کھل کھل جاتے ہو۔۔
بس اک لمحہ ۔۔
جس میں تم نے لکھا تھا۔۔
میں بھی تمہیں مس کرتا ہوں۔۔
یاد تمہاری کام میں بھی اٹکاتی ہے
جب نہ میں یہ میسج دیکھوں۔۔۔
کال تمہاری نہ سن لوں
نیند نہیں آتی ہے مجھے۔۔
لیکن یہ کیا تم نے رات کو لکھا تھا
مجھ کو تم سے نفرت ہے
بیزاری ہے۔۔
اتنے میسج؟
اففف
LikeLiked by 1 person
Saudade…
اب کِسی آنکھ کا جادو نہیں چلتا مجھ پر
وہ نظر بھول گئی ہے مجھے پتھر کر کے
(The Portuguese word “saudade” is a deep emotional state of nostalgic longing for a beloved. The beauty of the word is in the fact that it does not denote sadness, but a healthy and lovely melancholy, implying that you remember it happily because you had it…
So, “saudade” is a feeling of lost connection, a desire for something that you lost and you don’t really want to have it back, because you know the happiness you have in remembering what was lost cannot be surpassed by anything – even its presence.
Some words cannot be translated. This is one such word…)
تِرے خیال نے تسخیر کر لیا ہے مُجھے
یہ قید بھی ہے، بشارت بھی ہے، رہائی بھی ہے
LikeLiked by 1 person
Saudade
کی منزل
اس نظم سے لگتا ہے شاعر کے لئے ابھی دور ہے!
LikeLiked by 1 person