♤♡♤♡♤♡♤♡♤♡♤♡
سات آٹھ سال پہلے کی بات ہے ۔میں اور آسیہ یاس مال میں گرلز ٹائم آوٹ کرتے پھر رہے تھے۔شاپنگ کر لی ،ڈائن ان کر لیا دونوں ہاتھوں میں تھیلے ڈالے ہم یاس مال کے وسیع کھلے چمکتے فرش والے لش پش برآمدوں میں گھوم رہے تھے جب رستے میں ایک
Love your heart
کا اسٹال لگا دیکھا
یہ کوئی ویلنٹائن ڈے کے لئے تحائف یا دل کی اشکال کے چاکلیٹ یا ٹیڈی بئیرز کا اسٹال نہیں تھا بلکہ ایک ہسپتال کی طرف سے لگایا گیا فری ہارٹ چیک اپ کیمپ تھا جس میں دو تین فارما کھڑے مفت میں سب کے دل کی صحت چیک کر رہے تھے۔
انہوں نے ہمیں روکا،ہم رک گئے کہ آج تو ہمارا کام ہی یہی تھا جہاں دل چاہے چل پڑے جہاں دل چاہا رک گئے۔
دونوں فارما سٹاف میں سے ایک یورپین تھا دوسرا شاید ایشین تھا مگر آیا کسی یورپی ملک سے تھا جو انڈین لگتا نہیں تھا مگر انکے بارے میں جانتا کافی کچھ تھا۔ یورپین کو مغالطہ ہوا
کہ میں پاریسین Parisian
ہوں
میرے انکا ر کر کے بتانے سے پہلے ہی دوسرے ایشین فارما نے تقریبا صحیح تکا مارا کہ میں انڈین ہوں۔مجھے اسکے صحیح تکے پر حیرت ہوئی تو اس نے بتایا کہ میرے لہجے سے اسے پتا چلا۔
مگر انڈین دکھنے پر بھی میں تیار نہ تھی
(یہ بھی ایک کہانی ہے کہ ہم شدید چڑتے جب ہمیں انڈین کہا جاتا۔ہمیں اپنا پاکستانی ہونا کوئی بہت عظیم کام لگتا۔ہم ضرور سب کو بتانے کو بیتاب ہوتے کہ ہم پاکستانی ہیں ہمیں اپنے عزت ماب پاکستانی ہونے پر اتنا غرور تھا۔۔یہ تو پچھلے دو سال پاکستان میں رہ کر اسکے اصل حالات جان کر اندازہ ہوا کہ ہم کتنے احمق تھے کہاں انڈیا جیسا دنیا کے ببر شیروں میں سے ایک ملک جنکا ہر فہرست میں اوپر کے ناموں میں نام آئے اور کہاں ہمارے جیسے گہری تہوں میں جینے والے،جنکا کہیں بھی کسی بھی سطح سے اوپر کوئی نام نشان تک نہیں۔ )ہم تو صرف مفاد پرستوں کے مفاد کے خاطر اپنے اور انڈیا کے بارے میں دھوکے میں رکھے گئے تھے۔
تنہائی کے سو سال
( one hundred years of solitude)
میں گئبرئیال گارسیا مارکیز کے مطابق مکانڈو کے ٹرین اسٹیشن پر احتجاج کرتے مزدوروں پر فائر کھول کر وہاں کی حکومت اور بنانا کمپنی نے تین ہزار لوگ مار ڈالے اور ان لاشوں کو ٹرین کی بوگیوں میں خام مال کی طرح ڈھیروں ڈھیر لاد کرسمندر برد کیا کر دیا گیا مگر میڈیا، اخبارات اور ریڈیو میں اس خبر کو بڑی صفائی سے نہ صرف جھٹلا دیا گیا بلکہ پراپیگنڈا سے عوام کو یقین بھی دلا دیا گیا کہ ایسا کہیں بھی کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
آرلیانو بندیا کسی کو خبر دیتا کہ کسطرح تین ہزار لوگ مارے گئے تو لوگ اسے پاگل سمجھتے۔۔۔۔۔تو ہم بھی انہی لوگوں میں ہمیشہ شامل رہے جنہیں جو دکھایا اور بتایا گیا انہوں نے بڑی بیوقوفانہ سادگی سے اس پر یقین کر لیا اور جو ہمیں سچ بتانے کی کوشش کرتا ہم اسے پاگل سمجھتے۔
یہ مکانڈو کی کہانی ہے اس کا ہمارے ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔۔
مگر ہم بھی مکانڈو کے لوگوں کی طرح بہت سی چیزوں کے ہونے پر جبکہ وہ موجود نہیں تھیں،اور بہت سی چیزوں کے نہ ہونے پر،جبکہ وہ موجود تھیں،یقین رکھتے تھے)
تو وہیں ہم دونوں کا چیک اپ ہوا۔
میرا سانس پھولا ہوا تھا جبکہ ہم محض چہل قدمی کر رہے تھے ۔ دکھ اور تکلیف کی بات یہ تھی کہ پتا چلا کہ آسیہ کے دل کی عمر ماشاءاللہ اسکی اپنی طبعی عمر سے کم ہے جبکہ میرا دل ۔۔۔۔۔۔میری عمر سے ذیادہ ہے۔
میری عمر چھتیس سال تھی اور میرا دل اٹھتیس سال کا تھا۔یہ ایک پریشاں کن بات تھی خصوصا میرے لئے۔
یہ وہ دن تھے جب میرے دنوں بچے بہت چھوٹے تھے اور وہ سال تھے جب مجھے واک کرنے،دھوپ سیکنے، آرام کرنے جیسے بہت سے اہم کام کرنے کا وقت نہیں ملتا تھا۔میں ایک طوفانی انداز کے وقت کے بکھیڑوں میں پھنسی ہوئی تھی جب مجھے میرے گھر بچوں کی مصروفیات ہر وقت ایک پھرکی کی طرح گھماتی یا ایک آفس بوائے کی طرح نچاتی پھرتی تھیں۔یہی وہ سال تھے میری ذندگی کے جب باقاعدہ واک ،ایکسرسائز جیسی ہر چیز میری ذندگی سے مکمل غائب تھی۔
اسی طرح ایک بار اسکول میں چھوٹے سے آریز کو گود میں اٹھائے میں دیا کو چھوڑنے اسکے اسکول شویفات گئی جہاں میری ایک اور دوست قدسیہ نوجوان لڑکیوں کی طرح پھدکتی اور بھاگتی پھر رہی تھی۔میری عمر اکتیس سال تھی مگر اپنے تھکے ہوئے،جام سے جسم کی بنا پر مجھے اپنا آپ کمزور اور بڈھا لگتا تھاکہ
تب میں ان سب مسائل کو عمر اور بیماریوں کا چکر ہی سمجھتی تھی۔میں نے قدسیہ کی اچھل کود کو رشک کی نظر سے دیکھا تھا کہ میرے لئے تو بیٹھنا اور کھڑا ہونا بھی مشکل ہو چکا تھا۔ اسکی وجہ بہت ذیادہ وزن ہونا نہیں بلکہ ورزش اور باقاعدہ حرکت کا نہ ہونا تھا۔گھر کے اندر باہر کے بچوں کے سب کام خود کرتی تھی مگر مجھے بھی یہی غلط فہمی تھی سب کی طرح کہ مجھے فٹ رکھنے کو یہی کام کافی ہیں۔تجربات کی بھٹی سے گزر کر جانا کہ عورت کے گھریلو کاموں کا اس کی صحت سے کوئی بہتر تعلق موجود نہیں ہے،بلکہ یہ رشتہ کئی گنا نقصان دہ ہے۔
2021
میں دبئی کے آسٹر کلینک میں میرے مکمل چیک اپ ہوئے جس میں کیلسٹرول ، یورک ایسڈ ،آرتھرائیٹس سمیت کئی چھوٹے بڑے مسائل ڈاکٹر نے مجھ سے منسوب کر کے دوائیوں کے تھیلے بھر دئیے تھے۔یعنی آفیئشلی میں بیماروں کے خانے میں شامل ہو گئی تھی۔
تب تک مجھے اپنی ذندگی میں بہت اقسام کی مختلف ورزشیں اور واک شامل کئے کافی عرصہ ہو چکا تھا۔
پچھلے سال میں 43 کی تھی اور الحمداللہ میں آرمی اسکول کی دو منزلہ عمارت کی سیڑھیاں دن میں تین چار بار بھاگتے ہوئی چڑھتی تھی۔میری چستیوں سے میرے سب کولیگ مجھے کم عمر سمجھتے تھے جہاں تیس پینتیس سالہ کی ٹیچرز سے تیز نہیں چلا جاتا تھا،میں بھاگتے سیڑھیاں چڑھتی اور اترتی تھی۔
یہاں ایک اور بات بتاوں کہ پچھلے پانچ سالوں میں پہلی بار پاکستان لوٹنے سے لیکر آج تک میرے وزن میں کم سے کم پانچ سے سات کلو کا مستقل اضافہ ہو چکا ہے جو سخت ترین کوششوں کے باوجود یہاں کے روایتی کھانوں کی وجہ سےکسی طور کم نہیں ہو رہا
جہاں گاجر کی کھیر سے ساگ تک،پائے سے نہاری تک،دال سے قورمے تک ہر ہر کھانا انتہائی روغنی اور شدید کیلوریز سے بھرا ہے جہاں پر منہ کے چسکوں کو روکنا اور بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے جب ہر طرف یہی کھانے آپکو میسر ہوں اور بچپن سے منہ کو لگے ذائقے اور سالوں سے ترسے ہم ہوں تو کسی کافر سے انکار ہو نہیں پاتا۔۔۔۔۔
وزن کے اس ناجائز قبضے کے خلاف میں پچھلے کچھ عرصے میں ہر قسم کی مشکل ترین ورزشیں کر چکی ہوں کہ جنکی بنا پر اب الحمداللہ بھاگتے سیڑھیاں چڑھ لیتی ہوں،دوسروں سے ذیادہ تیز چل لیتی ہوں،ضرورت پڑنے پر ہاتھ ٹانگ بازو ہر چیز گھما سکتی ہوں، سڑک پر بھاگ سکتی ہوں اور کسی جبر کی مزاحمت میں کچھ نہ کچھ دوسروں کا لازما توڑ سکتی ہوں۔۔
یہ ایک عجیب فقرہ ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا آپ میں سے اکثر مرد و عورت کسی بھی حالت میں ایسا کر سکتے ہیں؟
میرا مشاہدہ ہے کہ پاکستانی عورت تو سوفیصد یہ کام نہیں کر سکتی!
ہمارے ہاں عورت موم کی گڑیا ہے جسکا فرض ہے کہ ہمیشہ موم کی گڑیا ہی رہے۔چاہے دو چھوڑ بارہ من کی دھوبن بن جایے،چالیس پچاس ساٹھ سال کی ہو جائے اسے اس قابل کسی صورت نہیں ہونا چاہیے کہ سڑک پر تیز بھاگ سکے،کھلی ہوا میں گہرے سانس لے سکے، اپنے پاوں پر کھڑی ہو سکے، اپنے مسائل سے لڑ سکے، کوئی سڑک تک اکیلی کسی مرد کے بغیر پار کر سکے۔
یہ تمام باتیں فائدہ تو مردوں کے معاشرے کو دیتی ہیں مگر بدقسمتی سے سیکھنے اور سکھانے کا یہ سارا کام خود عورتیں ہی کرتی ہیں۔
جنہیں سڑک پر بھاگنا انکی عزت اور وقار پر حرف نظر آتا ہے،جنہیں پورے بازو اور ٹانگیں کھولنا اور گھمانا ،اچھلنا،چھلانگ لگانا،جمپنگ جیک،سکواٹس نسوانیت کی توہین لگتا ہے صحت کی ضرورت نہیں۔
جنہیں عورت وہی لگتی ہے جسکے ساتھ حفاظت کے لئے ہر وقت ایک مرد باڈی گارڈ رہے۔
انڈیا کے لوگوں کو میں نے دیکھا کہ اپنے لڑکے لڑکیوں کو چھوٹی عمر سے ہی کراٹے یا مارشل آرٹس لازما کرواتے ہیں۔ماں اور باپ دونوں نوکری کریں گے مگر بچے اسکول کے بعد جوڈو کراٹے یا مارشل آرٹ کی تربیت کے لئے ضرور جائیں گے۔ہماری طرح نہیں کہ عورت بھی گھر پر بیٹھے گی اور تعلیم وتربیت کے نام پر دراصل دس ملازمین کے پیسے بچائے گی اور بچے بھی ۔چونکہ اتنے پیسے نہیں کہ کسی کلب یا ایکسٹرا کلاس میں کوئی اضافی مہارت سیکھنے جا سکیں، بس گلی میں سامنے والے کے بچوں کے ساتھ کھیل کر گزارا کر لیں۔۔
ہمارے ہاں کتنی لڑکیاں ایک ضروری مہارت کے طور پر اسے کرتی ہیں؟یا انہیں کروائی جاتی ہیں؟؟
ہماری عورتوں (اوروزن کے معاملے میں بلا مبالغہ مرد بھی برابر کے شریک ہیں )کی پوری آبادی اس لئے اپنی ضروریات سے چار گنا ذیادہ وزن لئے پھرتی ہے کہ وہ گھر سنبھالے بیٹھی ہیں،سڑک پر آنا انکا کام نہیں ہے،ہلکی پھلکی واک کرنے والی یا مجبورا ڈاکٹر کے کہنے پر تھوڑا چلنے پھرنے والی خواتین خود کو عظیم ترین سمجھتی ہیں،ایتھلیٹ تو ہمیں پاکستانی عورتیں پورے پاکستان میں دو چار ہی ملیں گئیں۔
جب تک موم کی گڑیا خود کو موم کی سمجھنا چھوڑ کر ایک نارمل عام انسان نہیں سمجھ لیتی،یہ نہیں جان لیتی کہ چلنا پھرنا،دھوپ لینا،بھاگنا دوڑنا،بازو کندھے ہلانا،چادروں سے نکل کر بھاگنا اسکی صحت کی ضرورت ہے ،اسکے وجود کے لئے ضروری ہے وہ اپنے لئے خود سے عام انسانوں جیسے حقوق کا مطالبہ کیسے کر سکتی ہے۔
ذندگی کے کسے معاحلے پر بھاگنا، دوڑنا ،مارنا کٹنا آنا چاہیے ۔صرف بے بس بے زبان اولادوں کو ہی نہیں دراصل اپنے سے دوگنے طاقتور مرد کی ٹانگ بازو توڑنی آنی چاہیے۔اور اسکے لئے کوئی جادو کی چھڑی نہیں چاہیے صرف یہی کچھ بنیادی ورزشیں آپکو اس قابل کر دیتی ہیں
عورت کی نزاکت کوئی ہنر نہیں ہے کمزوری ہے۔کمزور کا حق سب کھا جاتے ہیں
نزاکت کے ساتھ ساری عمر کی محتاجی وابستہ ہے۔نزاکت کی فکر ہے تو ہمیشہ مردوں کے سامنے سر جھکانا سیکھ لیں ۔ آپکے حقوق کوئی لان کا سوٹ نہیں ہے جو وہ مارکیٹ سے خرہد کر لا کر آپکو پہنا دیں گے کہ لو تم پر اچھا لگتا ہے۔
اپنی طاقت کے لئے خود محنت کرنی پڑتی ہے اپنے سارے فرسودہ عقیدوں اور رواجوں کے ساتھ لڑنا پڑتا ہے۔
اور جب تک آپ نہیں لڑیں گے آپکا مقام موم کی گڑیا جتنا ہی رہے گا!
صوفیہ کاشف
بارہ مارچ،دو ہزار چوبیس
#
موم کی گڑیا ________صوفیہ کاشف

میرے لئے تو بیٹھنا اور کھڑا ہونا بھی مشکل ہو چکا تھا۔ اسکی وجہ بہت ذیادہ وزن ہونا نہیں بلکہ ورزش اور باقاعدہ حرکت کا نہ ہونا تھا۔گھر کے اندر باہر کے بچوں کے سب کام خود کرتی تھی مگر مجھے بھی یہی غلط فہمی تھی سب کی طرح کہ مجھے فٹ رکھنے کو یہی کام کافی ہیں۔تجربات کی بھٹی سے گزر کر جانا کہ عورت کے گھریلو کاموں کا اس کی صحت سے کوئی بہتر تعلق موجود نہیں ہے،بلکہ یہ رشتہ کئی گنا نقصان دہ ہے۔
بہت اچھی تحریر۔ ماشاءاللہ
LikeLiked by 2 people
شکریہ
LikeLiked by 1 person